• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسپیکٹرم نیلامی میں آپریٹرز کی عدم دلچسپی، حکومت کی مالی پریشانیوں میں اضافہ

اسلام آباد (خالد مصطفیٰ) اسپیکٹرم نیلامی میں آپریٹرز کی عدم دلچسپی کے باعث حکومت کی مالی پریشانیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ترجمان پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ آپریٹرز نے اپنی کاروباری ترجیحات کی وجہ سے نیلامی کے عمل میں شرکت نہیں کی ہے۔ تفصیلات کے مطابق، ریڈیو فریکوئینسی اسپیکٹرم کی نیلامی کے ذریعے 1 ارب ڈالرز کے حصول کا حکومتی دعویٰ پورا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ 

ایک سینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ پی ٹی اے کو نیو جنریشن موبائل سروسز (این جی ایم ایس) کی جاری نیلامی پر تسلی بخش ردعمل نہیں ملا ہے کیوں کہ اس میں کسی اہم آپریٹر نے دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے۔ 

بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے حکومت نے مختلف شعبے مختص کیے تھے جن کے ذریعے فنڈز حاصل کیے جاسکیں۔ اس حوالے سے ٹیلی کام کا شعبہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ 

عہدیدار کا کہنا تھا کہ نیلامی کا مقصد 1800 میگاہرٹز اور 2100 میگا ہرٹز کے موجودہ اور ممکنہ طور پر نئے ٹیلی کام آپریٹرز کو اضافی اسپیکٹرم اور لائسنز فروخت کرنا ہے۔ تاہم، اس حوالے سے پی ٹی اے کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ ابتدائی طور پر پی ٹی اے نے بولیاں دینے والوں پر اضافی پابندیاں عائد کی تھیں جو سالانہ 5 فیصد آبادی کی کوریج پر مبنی تھی۔ 

تاہم، موجودہ آپریٹرز سے مشاورت کے بعد پی ٹی اے نے اس پابندی کو 3 فیصد تک محدود کیا۔ لیکن آپریٹرز نے مطالبہ کیا ہے کہ ان سخت پابندیوں کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔بڑے آپریٹرز نے کوئی بولی نہیں دی ہے صرف جزوی طور پر سرکاری ملکیتی یوفون نے 1800 میگا ہرٹز اسپیکٹرم کی بولی دی ہے۔ 

یہ نیلامی پی ٹی اے، فیب اور وزارت آئی ٹی کی سفارتی اور سوشیو اکنامکس محاذ پر ناکامی کی عکاسی کرتی ہے کیوں کہ چین پاکستان کا دیرینہ سفارتی حلیف ہے لیکن ان کے سرکاری ملکیتی آپریٹر نے نیلامی میں شرکت نہیں کی ہے۔ 

جب کہ یوفون کی دلچسپی سے حکومت کو ریونیو ہدف مکمل کرنے میں زیادہ مدد نہیں ملے گی کیوں کہ اس سے صرف جیبیں ہی تبدیل ہوں گی۔ نیلامی میں پی ٹی اے کی بدانتظامی اور اس کا موجودہ آپریٹرز سے رویہ ہی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچنانے کا سبب بنا ہے۔

اس نمائندے نے جب پی ٹی اے کے ترجمان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ نیلامی کا عمل معروف بین الاقوامی کنسلٹنٹ کی معاونت سے مکمل کیا گیا، جب کہ اس میں سیلولر صنعت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت بھی شامل تھی۔

تازہ ترین