وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے خلاف بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے باعث کئی روز تک انتہائی گرم رہنے والا سیاسی ماحول قدرئے معمول پر آیا ہے اور ہفتہ رفتہ کے دوران اس حوالے سے سیاسی ماحول میں کوئی بڑی ہلچل نظر نہیں آئی ، تاہم بعض سیاسی حلقے اس صورتحال کو عارضی قرار دئے رہے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض ارکان کی ناراضی اور تحفظات اپنی جگہ برقرار ہیں جن کی ناراضی ختم اور تحفظات دور کرنے کی کوشش جارہی ہے جو اب تک اپنے موقف قائم ہیں۔
جہاں یہ ایک سیاسی حلقے کی رائے ہے تو دوسری جانب ایک سیاسی کی یہ رائے بھی ہے کہ جام کمال خان ایک بڑی مشکل سے باہر نکل آئے ہیں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لئے دوبارہ سیاسی ٹیمپو جلد بننا بظاہر آسان نظر نہیں آتا ، بلوچستان میں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی جو اس نعرئے کے ساتھ معرض وجود میں لائی گئی تھی کہ بلوچستان کے مسائل بلوچستان میں ہی حل ہوں گے ، 2018 کے انتخابات میں پہلی بار انتخابات میں حصہ لینے والی بلوچستان عوامی پارٹی بھرپور عوامی مینڈیٹ حاصل کرکے بلوچستان میں اتحادی حکومت بنانے میں بھی کامیاب ہوئی تھی تاہم حکومت بنانے اور جام کمال خان کے وزیراعلیٰ بلوچستان بننے کے کچھ ہی عرصے کے اندر پارٹی کے بعض رہنماوں کے تحفظات کی باز گشت سنائی دی تھی۔
پہلے اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کے وزیراعلیٰ جام کمال خان سے ناراض ہونے کی خبریں آئیں اور پھر بلوچستان کے سنیئر سیاست دان سردار صالح بھوتانی اور وزیراعلیٰ میں دوری کے خبریں آنے لگیں جس کے کچھ عرصے کے بعد وزیراعلیٰ جام کمال خان نے سنیئر سیاست دان سردار صالح بھوتانی سے بلدیات کی وزارت کا قلم دان واپس لے لیا تھا جس پر سردار صالح بھوتانی نے صوبائی کابینہ سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا ، اس کے بعد بلوچستان اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر اور ایک تجربہ کار سیاست دان و منجھے ہوئے پارلیمنٹرین سردار یار محمد رند نے تعلیم کی وزارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا اور کافی عرصے تک وزرات تعلیم کے امور سے دور رہے۔
تاہم ان کا استعفی اس دوران منظور نہیں ہوا بلکہ صوبائی وزرا کا وفد میڑھ لیکر کئی بار ان کے پاس جاکر ان کے تحفظات دور کرنے اور مستقبل میں ایسی صورتحال پیدا نہ ہونے کی یقین دہانی کراتا رہا جس کے بعد سردار یار محمد رند صوبائی نے اپنا استعفی واپس لیا تھا ان کے استعفی واپس لیے اب ہی چند ہی روز گزرئے تھے کہ بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک بلوچستان اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرادی گئی تھی۔
16 اپوزیشن ارکان بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی ، اختر لانگو ، حمل کلمتی ، احمد نواز بلوچ ، اکبر مینگل ، شکیلہ نوید دہوار ، رحیم مینگل ، ٹائٹس جانسن ، جمعیت علما اسلام کے پارلیمانی لیڈر ملک سکندر خان ایڈوکیٹ ، اصغر ترین ، مکھی شام لعل ، عزیز اللہ آغا ، یونس عزیز زہری ، زابد ریکی ، پشتونخوا میپ کے نصر اللہ زیرئے کے دستخطوں سے جمع کرائی جانیوالی عدم اعتماد کی تحریک میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ 3 سال میں جام کمال خان کی خراب حکمرانی کے باعث بلوچستان میں شدید مایوسی ، بدامنی ، بیروزگاری اور اداروں کی کارکردگی شدید متاثر ہوئی ہے۔
آئین کی شق 37 اور 38 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر منصفانہ ، عدم مساوات اور متعصبانہ بجٹ پیش کیے جس سے دانستہ طور پر علاقوں میں پسماندگی ، محرومی اور بدامنی میں انتہا درجہ کا اضافہ ہوا ، تحریک عدم اعتماد کے متن میں کہا گیا تھا کہ بلوچستان میں قتل اغواء ، چوری ، ڈکیتی اور دہشت گردی کے باعث عوام ہر روز سراپا احتجاج رہتے ہیں اوران میں شدید عدم تحفظ پایا جاتا ہے بلوچستان کے حقوق کے حوالے سے جام کمال خان نے وفاقی حکومت کے ساتھ آئینی اور بنیادی حقوق کے مسائل پر انتہائی غیر سنجیدگی کا ثبوت دیا جس میں صوبہ میں بلوچستان گیس پانی اور شدید معاشی بحران پیدا ہوا۔
یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن گزشتہ تین سال سے وزیراعلیٰ جام کمال خان کو صوبائی بجٹ میں اپوزیشن کے حلقوں کو نظر انداز کرنے ان کے تجویز کردہ ترقیاتی منصوبوں کو پی ایس ڈی پی میں شامل نہ کرنے اور ان کے حلقون میں غیرمنتخب افراد کو ترقیاتی فنڈز جاری کیے جانے کے حوالے سے کڑی تنقید کا نشانہ بناتی آئی ہے اسمبلی کے اندر اور اسمبلی سے باہر احتجاج کے ساتھ اپوزیشن عدالت میں بھی جاچکی ہے ، اپوزیشن کی جانب سے وزیراعلیٰ جام کمال کان کے خلاف تحریک عدم اعتماد گورنرہاؤس سیکرٹریٹ نے تیکنیکی غلطی کے باعث واپس کردی تھی۔
جس کے بعد اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈوکیٹ کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں کے وفد نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی سے بھی اس سلسلے میں ملاقات کی تھی اور متحدہ اپوزیشن کی جانب سے اس بات کا عندیہ بھی دیا گیا تھا کہ تکنیکی غلطی دور کرنے کے بعد دوبارہ تحریک عدم اعتماد جمع کرائی جائے گی، بلوچستان عوامی پارٹی کے اس ناراض گروپ کی جانب سے 14 ارکان کی حمایت کا دعویٰ بھی سامنے آیا تاہم ناراض ارکان کے نام سامنے نہیں لائے گئے ،اس وقت بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن کو 23 جبکہ حکومتی اتحاد کو 42ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
دوسری جانب ہفتہ رفتہ کے دوران وزیراعظم پاکستان عمران خان سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے اسلام آباد میں ون آن ون ملاقات کی ، ملاقات میں وزیراعظم پاکستان نے ان کو بھرپور حمایت کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی اور بلوچستان عوامی پارٹی وفاق اور صوبے میں اتحادی ہیں اور یہ اتحاد برقرار رہے گا ، اطلاعات کے مطابق اس ملاقات میں وزیراعظم نے یقین دلایا کہ پی ٹی آئی کے تمام ارکان مکمل طور پر وزیراعلیٰ جام کمال خان کا ساتھ دیں گے اور ان کی حکومت کسی صورت میں گرنے نہیں دینگے ۔