آج 7اکتوبر ہے، آج سے ٹھیک بیس سال قبل دنیا کی واحد سپرپاور امریکہ نے اپنے عالمی اتحادیوں کیساتھ مل کر جنگ سے تباہ حال پسماندہ ترین ملک افغانستان پر فضائی حملوں کا آغاز کیا تھا،مجھے آج بھی یاد ہے کہ کیسے عالمی ٹی وی چینلز نے رات کی تاریکی میں افغانستان پر بمباری کی کوریج کرتے ہوئے امریکہ اسٹرائیک بیک ، وار آن ٹیرر، امریکہ کا جوابی حملہ جیسی ہیڈلائنزلگائی تھیں، اس زمانے میں طالبان حکومت کوصرف تین ممالک پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تسلیم کیا تھا ، اسلام آباد میں افغانستان کے نامزد طالبان سفیر ملا ضعیف کی پُرہجوم پریس کانفرنس میں شرکت کیلئے عالمی صحافیوں کی دوڑیں لگ جایا کرتی تھیں، طالبان اور امریکی قیادت کے مابین بیانیہ کی جنگ بھی جاری تھی، ایک طرف امریکہ طالبان کو زمین تنگ کرنے کی دھمکیاں دے رہا تھا تو دوسری طرف طالبان بے سروسامانی کے عالم میں بھی اپنی بقا کی جنگ لڑنے کیلئے پُرعزم نظر آتے تھے۔ گزشتہ بیس برسوں میں امریکہ اور اتحادیوںنے طالبان کوافغانستان سے بے دخل کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زورلگا دیا، ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکہ نے تین ٹریلین ڈالرز افغان جنگ میں جھونک دئیے، جرمن نشریاتی ادارے کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں دو دہائیوں پر محیط جرمنی کے مشن پر لگ بھگ ساڑھے 17بلین یورو لاگت آئی،اسی طرح بھارت نے بھی افغانستان میں تین بلین ڈالر سے زائد کی بھاری سرمایہ کاری کررکھی تھی، سال2015میں بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے 90ملین ڈالر کی لاگت سے تعمیر کردہ افغان پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح کرتے ہوئے اسے بھارت کی طرف سے تحفہ قرار دیا تھا۔ پندرہ اگست کو طالبان کی افغان دارالحکومت کابل میں واپسی نے علاقائی منظرنامہ مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے اور دو دہائیوں سے افغانستان میں اثرورسوخ رکھنے والے عالمی ممالک انخلاپر مجبور ہوچکے ہیں، بدلتی صورتحال میں نہ صرف نئے علاقائی کھلاڑی اپنا کردار ادا کرنے کیلئے سرگرم ہیں بلکہ بیس سال میں کی جانے والی سرمایہ کاری کو ڈوبنے سے بچانے کیلئے بھی کچھ ممالک متحرک ہیں۔ فی الحال طالبان حکومت کو کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے لیکن سفارتی سطح پر کوششیں جاری ہیں، چین کے بارے میں قیاس آرائیاں ہیں کہ وہ عنقریب طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن سکتا ہے، اگر ایسا ہوگیا تو اقوام متحدہ سمیت عالمی فورمز پر بھی طالبان کو اپنی سفارتی نمائندگی کیلئے حمایت مل سکتی ہے، مزید براںافغانستان کی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شمولیت چین کے عالمی سپرپاور بننے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ ماضی کی سپرپاور روس کی طالبان حکومت کیلئے گرمجوشی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، روس نے طالبان کا کابل پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد بھی اپنا سفارتخانہ کھلا رکھااورروسی سفیر نے طالبان سے ملاقات کے بعد مثبت کلمات کا اظہار کیا، روسی صدر ولادیمیر پوتن کا یہ بیان بھی میڈیا کی زینت بناکہ طالبان کا افغانستان پر قبضہ ایک حقیقت ہے اور روس کو اس کے ساتھ ہی چلنا ہے۔ اسی طرح برطانوی دفتر خارجہ نے باضابطہ تصدیق کردی ہے کہ برطانیہ کے افغانستان کیلئے خصوصی سفیر سائمن گاس نے گزشتہ دنوں طالبان رہنماؤں سے کابل میں ملاقات کی جس کے دوران طالبان کے بقول دوبارہ سفارتی تعلقات بحال کرنے سے متعلق بھی بات ہوئی ہے۔ ماضی میں طالبان کو تسلیم کرنے والے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس مرتبہ خاموشی سے علاقائی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں، ایک طرف اماراتی قیادت نے عربوں کے دیرینہ حریف اسرائیل سے پرجوش سفارتی تعلقات قائم کرلئے ہیں تو دوسری طرف سعودی عرب اور ایران جیسے دو نظریاتی ممالک طویل عرصے سے جاری سرد جنگ کو ختم کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ جبکہ ایران بھی اپنے دشمن امریکہ کوشکست دینے والے طالبان کیلئے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ افغانستان میںطالبان کی واپسی یقینی بنانے والا ملک قطر ہے ، اس نے دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کی میزبانی کی، قطر کے افغان امن مذاکرات میں بڑھتے ہوئے کردار سے خائف ہوکر ہمسایہ خلیجی ممالک نے اسے خلیج تعاون کونسل(جی سی سی)سے بھی اچانک خارج کردیا، تاہم قطر کی کوششوں کی بدولت2020میں امریکہ اور افغانستان کے مابین امن معاہدہ طے پا یا۔ قطر ی وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی وہ پہلی اعلیٰ غیر ملکی شخصیت ہیں جنہوں نے طالبان حکومت کے بعد افغانستان کا دورہ کیا ، قطر نے اپنا سفارتی مشن کابل کے ایک ہوٹل میں قائم کردیا ہے ۔ قطر اور ترکی اسلامی دنیا میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کیلئے افغانستان میں موجودگی یقینی بنانا چاہتے ہیں، اس حوالے سے ترک اور قطری ماہرین نے کابل ایئرپورٹ کو ایک مرتبہ پھرکامیابی سے فعال کرکے نئی افغان حکومت کا اعتمادحاصل کیا ہے۔ ان تمام علاقائی کھلاڑیوں کی اپنے قومی مفادات کیلئے جستجو سے قطع نظر طالبان کا سب سے قریبی فطری اتحادی پاکستان کو سمجھا جاتا ہے،یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ افغانستان میں نئی حکومت سے راہ و رسم بڑھانے والے تمام علاقائی ممالک بشمول ایران، چین، ترکی، روس اور قطر کے ساتھ ہمارے قریبی روابط قائم ہیں لیکن میری معلومات کے مطابق بھارت سمیت دیگر ممالک بھی قطر سے رابطے استوار کررہے ہیںتا کہ ان کی بیس سالہ سرمایہ کاری کو ڈوبنے سے بچانے کیلئے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کی جائے۔اس سے پہلے کہ پاکستان مخالف عناصر افغانستان میں ایک مرتبہ پھر اپنی جگہ بنالیں، ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرکے بدلتے ہوئے علاقائی منظرنامے میں اپنا قائدانہ کردار ادا کرنے کیلئے بہت سمجھداری اور دوراندیشی سے کام لینا ہوگا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)