• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت واقعی بڑی پیاری ہے، یہ 100فیصد ’’جیسا دیس ویسا بھیس‘‘ کے مصداق امور نمٹا رہی ہے۔ سچ ہی تو کہتی ہے کہ مہنگائی میں اُس کا کوئی قصور نہیں، خارجہ پالیسی سے تعلیمی پالیسی تک میں اسے مورد الزام ٹھہرانا ایسے ہی ہے جیسے اپنے گریباں میں منہ ڈالنے کےبجائے چاکِ گریباں کو وتیرہ بنا لینا یا بےوفائی سے بےاعتنائی تک کے الزام محبوب کے سر تھوپ دینا اور جب اسے سر آنکھوں پر بٹھایا تب سوچا کچھ نہیں، بعد ازاں سوچ امنڈ امنڈ کر دماغ سے باہر ایسے آئے جیسے تلاطم خیز موجیں دریا کے کناروں سے الجھنے کے درپے ہوں! اب آسمان سر پر اٹھانے کا مطلب کیا ہے؟ میں نیب آرڈیننس سے منتظر آرڈیننسوں تک حکومتی مؤقف کا ہم خیال و ہم نوا ہوں:

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

سینیٹ کی تحریکِ عدم اعتماد سے سینیٹ کے چیئرمین کے انتخابات تک حکومت نے اپوزیشن کو کامیابی کا پورا موقع فراہم کیا گویا گلشن میں علاج تنگیٔ داماں موجود تھا مگر اپوزیشن کی کچھ کلیاں ازخود قناعت کے جذبات کو استقامت بخشنے کے درپے تھیں۔ کیا حکومت نے پی ڈی ایم کی کامرانی کیلئے پورا پورا موقع فراہم نہیں کیا تھا؟ اب کوئی خود ہی ایم آر ڈی اور اے آرڈی نہ بن پائے تو بےچاری حکومت کیا کرے؟ ہم عزت مآب وزیراعظم کے سابق اور حالیہ بیانوں کے موازنے کی بات کرتے ہیں نہ اسد عمر کی ماضی قریب کی اسمبلی میں شیریں بیانی یا عہدِ حکومت کی شعلہ نوائی کی، یہ موازنے تو بہرحال اپوزیشن کیلئے کیٹالسٹ (عمل انگیز) کے طورپر دستیاب ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب یا فردوس عاشق اعوان نے کبھی اپنے اطوار و خصائل سے اپوزیشن کی مدد نہیں کی، اعظم سواتی ہوں کہ شیخ رشید، فواد چوہدری ہوں کہ شبلی فراز و شاہ محمود قریشی، کس کس نے خیرخواہی کے در وا نہیں کئے؟ گورنر سندھ، جناب واوڈا اور علی زیدی نے کب اپوزیشن کی خاطر کنٹری بیوٹ نہیں کیا؟

مانا کہ اپوزیشن جماعتوں میں جید سیاست دان جلوہ افروز ہیں لیکن ان کا دھیان قبل از وقت نیب آرڈیننس پر کیوں نہیں گیا؟ ایسا تو ہونا ہی تھا، کون نہیں جانتا موجودہ حکومت نے خود کو دوام بخشنے کیلئے یہ کچھ کرنا ہی اور آگے جاکر مزید کرے گی۔ کون سی حکومت اپنے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے آرڈیننسوں کا سہارا نہیں لیتی؟ اب کوئی کہے کہ جمہوریت ایسے کاموں کی اجازت نہیں دیتی تو اسے نہیں معلوم یہ حکومت ’’سپر‘‘ ڈیموکریسی کی حامل ہے جو انجینئرڈ ڈیموکریسی کی جدید قسم ہے۔ نیب آرڈیننس کے حوالے سے گلگت بلتستان کے رکن اسمبلی امجد حسین ایڈووکیٹ (اپوزیشن لیڈر) سے بات ہوئی تو کہنے لگے ’’یہ تو کابینہ کو دوام بخشنے اور جمہور کچلنے والی بات ہے ،وہ بھی اس وقت جب ایک طرف پنڈورا باکس کھلا ہے تو دوسری جانب آرڈیننس سرِ بازار اگیا!‘‘ بھائی تین سال سے تو حکومت اپوزیشن کی گیندوں پر لوز شاٹ کھیل رہی تھی اب کے کھلاڑی ہی کیچ پکڑنے کے موڈ میں نہیں تو ڈیموکریسی کو کسی وڈیو گیم نے تو نہیں بچانا، ڈیموکریٹس ہی نے بچانا تھا ؟

اجی احتساب کے دوسرے ترمیمی آرڈیننس 2021 کے حوالے سے وزیر قانون اور وزیر اطلاعات نے جو فرمایا ہے اس کا مطلب تو یہی ہے کہ وزراء اور ذیلی کمیٹیوں پر اطلاق نہیں ہوگا، نہ ٹیکسیشن کا معاملہ ہی اب اٹھے گا، نجی کاروبار، افراد اور بینکوں پر بھی ’اب‘ نیب ہاتھ نہیں ڈالے گا۔ مشترکہ مفادات کونسل، این ای سی، این ایف سی، ایکنک، سی ڈی ڈبلیو پی کے فیصلوں کی جانب بھی اب نیتیں درست، ان کا قبلہ درست سو نیب ان پر غور نہیں فرمائے گا۔ کیا خوبصورت تعبیر ہے احتسابی خواب کی کہ موجودہ حکومتی کاموں کو آئندہ نیب نہ دیکھ سکے گا۔ جو رگڑے لگنے تھے جن کو لگنے تھے وہ لگ چکے یا لگ رہے ہیں۔ کیا خوبصورت موڑ دیا ہے حکومت نے، آئندہ حکومتوں میں کچھ ایسا غلط ہونا ہی نہیں جو نیب آنکھ بھر کے دیکھے گا۔ اس سازگاری کا دور تو آگے بھی چلے گا، ظاہر ہے آئندہ والی حکومتیں اس کو کیوں بدلیں گی۔ کیا اس حکومت اور اس کے ہم نواؤں نے پچھلوں کا کڑاکا نکال کر اپنوں اور بےگانوں کا مستقبلمحفوظ نہیں کرلیا؟مجھے تو یہ خوشی بھی ہوئی کہ چیئرمین نیب آئندہ چار سال ہی نہیں اس کے بعد بھی دستیاب ہوں گے۔ شاد عظیم آبادی نے کیا دلنشیں بات کی تھی :

یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی

جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

صدر ذی قار کو نیب چیئرمین چناؤ میں پہلے کوئی اہمیت نہ تھی بس نوٹیفکیشن جاری کیا کرتے تھے، مگر اب صاحب اختیار ہوا چاہتے ہیں، اچھی بات ہے سب صدر ممنون ہی تو نہ ہوں۔ کم از کم صدر کے عہدہ کو بھی تو متنازع شنازع ہوکر پاپولر ہونے کا موقع تو ملے۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ آرڈیننس ایک ہی شخص کے گرد گھومتا ہے تو کیا ہوا ساکت تو نہیں گھومنے پھرنے کا عنصر تو ہوا اس میں۔ اسے بھی حکومتی 'مہربانی ہی جانیے۔ آئین اس کی اجازت دے نہ دے اچھی نیت تو دیتا ہے۔ ہم نے مانا کہ چیئرمین نیب ایک انتظامی عہدہ ہے سو وزیر اعظم کو ہی مشاورت کا آغاز کرنا ہوگا، مگر عمران خان سا وزیراعظم کون ہے، کہ وہ اپنا ہاتھ بٹانے کیلئے صدر کو کہہ رہے ہیں۔ آئندہ کیلئے خیر کا پہلو یہ ہے کہ، قوتوں اور قوت بخش لوگوں کو آسانی ہو گی کہ ون ونڈو آپریشن کی کوئی افادیت ہے کہ نہیں؟

وہ جو پی پی کے دور میں دیدار حسین شاہ کو چیئرمین نیب مقرر کیا گیا تھا جس پر اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار یہ معاملہ سپریم کورٹ لے گئے۔ سپریم کورٹ نے چوہدری صاحب کی درخواست کومنظور کرتے ہوئے کہا تھاکہ شاہ جی کی بطور چیئرمین نیب تقرری میں اپوزیشن لیڈر سے ’بامقصد مشاورت‘ نہیں کی گئی۔ کم از کم اب 'مقصدیت اور نیت کو سولہ سنگھار والا حُسن تو میسر آیا۔ حسن کی تاب نہ لاتے ہوئے کوئی سڑ دا اے تے سڑے، جمہوریت بھی جلتی ہے تو جلے،اسی حُسن کی بدولت ہی تو میں خوش ہوں حکومت سے !

تازہ ترین