• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگرچہ زور ہوائوں نے ڈال رکھا ہے
مگر چراغ نے لو کو سنبھال رکھا ہے
ہم ایسے سادہ دلوں کو وہ دوست ہو کہ خدا
سب ہی نے وعدۂ فردا پہ ٹال رکھا ہے
(احمد فراز)
الیکٹرونک میڈیا پر ہر روز پاناما لیک کی تکرار سن سن کر دل سخت بور ہو گیا ہے اور مزید ٹی وی دیکھنے کو جی ہی نہیں چاہتا، خاص طور پر جب ہر ایرے غیرے کا نام پانامالیک کی فہرست میں آ گیا ہے تو ہمارا کیوں نہیں آیا؟ آج کل پانامالیک میں نام آنا اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے اور جن خاندانوں کا نام پانامالیک میں نہیں ہے انہیں لوگ رشتہ دیتے وقت شش و پنج میں پڑ جاتے ہیں کہ پتہ نہیں ان کے پاس پیسے ہیں کہ نہیں؟ ایک دو لوگ تو میرے پاس یہ پوچھنے آئے کہ اس میں نام کیسے ڈلواتے ہیں؟ آف شور کمپنیوں کا اتنا شور بپا ہوا کہ اب ہر کوئی آف شور کمپنی کھولنا چاہتا ہے، چاہے پیسے ہوں یا نہ ہوں۔ آف شور کمپنی ضرور ہونی چاہئے۔ وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں جمعہ کی بجائے پیر کو آنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ بھی کوئی کنفرم بات نہیں، تاریخ مزید بھی بڑھائی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں بھولے سیاستدانوں کی کمی نہیں ہے۔ وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ میاں صاحب ان کے کہنے پر استعفیٰ دے دیں گے اور رائے ونڈ چلے جائیں گے۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ میاں صاحب مضبوط اعصاب کے مالک ہیں اور چھوٹی موٹی باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے، ہاں کوئی بڑا واقعہ ہو تو اس پر غور بھی کیا جا سکتا ہے۔ باقی جہاں تک آف شور کمپنی کی بات ہے تو یہ تو ایک معمولی سی بات ہے، خواہ مخواہ میڈیا نے رائی کا پہاڑ بنا رکھا ہے اور چائے کے کپ میں طوفان برپا کیا ہوا ہے۔ اب تو دوسری فہرست میں اپوزیشن کے بہت سے لوگوں کی بھی آف شور کمپنیاں نکل آئی ہیں اور وہ بغلیں جھانکتے پھر رہے ہیں۔ میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ آف شور کمپنی بنانا کوئی غیر قانونی بات نہیں، صرف اس میں جو سرمایہ منتقل کیا جاتا ہے وہ قانونی ذرائع سے منتقل ہونا چاہئے اور انکم ٹیکس کے گوشواروں میں اس کا ذکر ہونا چاہئے۔ یہ تو صرف ایک لا فرم کی فہرستیں ہیں۔ ابھی پتہ نہیں ایسی کتنی ہی اور لا فرمیں ہوں گی اور ان کے ریکارڈ میں نہ جانے کس کس کے راز پنہاں ہوں گے۔ خدا کی قدرت دیکھئے ایک طرف وہ غریب اور مزدور طبقہ ہے جو نان شبینہ کا بھی محتاج ہے اور دوسری طرف یہ سیاستدان اور سرمایہ کار ہیں جنہیں پیسے رکھنے کیلئے ملک میں جگہ نہیں ملتی تو وہ آف شور کمپنیوں میں اپنی ناجائز دولت ڈال کر دوسرے ممالک میں مہنگی مہنگی جائیدادیں خریدتے ہیں اور یہ پیسہ برطانیہ، امریکہ، اسپین اور دبئی میں جائیدادیں خریدنے کے کام آتا ہے۔ بلوچستان کے بیچارے فنانس سیکرٹری کو مہلت یا فرصت ہی نہیں ملی کہ وہ اپنی آف شور کمپنی کھول لے، اس نے سارے پیسے اپنے گھر ہی میں رکھے ہوئے تھے تاکہ بہ وقت ضرورت کام آئیں۔ مشتاق رئیسانی کے نوٹ اور ڈالر بار بار ٹی وی پر دیکھ کر لوگوں کی رال ٹپکتی رہی اور وہ یہ سوچتے رہے کہ یہ تو ایک سیکرٹری کا مال ہے، باقیوں کا کیسا حال ہو گا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ مشتاق رئیسانی نے یہ پیسے اکیلے ہی نہیں کمائے ہوں گے، اوپر والوں کو حصّہ اور نیچے والوں کو کٹوتی بھی لازمی دی ہوگی۔
ڈیفنس سوسائٹی میں پلاٹوں کی قیمتیں اس لئے تیزی سے بڑھ رہی ہیں کہ لوگوں کے پاس پیسے رکھنے کی جگہ نہیں تو وہ پلاٹ لے کر چھوڑ دیتے ہیں اور اس طرح پیسہ چھپ جاتا ہے اور نظر نہیں آتا۔ خیر یہ تو باتیں تھیں اپنے وطن عزیز کے مقامی لوگوں کی لیکن دیکھئے پاکستانی نژاد لوگ جو لندن میں پیدا ہوتے ہیں اور رہتے ہیں ان کی ذہنیت ہمارے لوگوں کی ذہنیت سے اس قدر مختلف کیوں ہے؟ ہمارے ہاں تعلیم اور تربیت کا فقدان ہے۔ ہمارے ہاں الیکشن میں حصّہ لینے کیلئے سوائے ایم کیوایم کے باقی تمام پارٹیوں میں ایک بڑا بجٹ درکار ہوتا ہے۔ صرف ایم کیوایم میں امیدوار کو کوئی خرچہ نہیں کرنا پڑتا اور اس کے جیتنے کے امکانات بھی روشن ہوتے ہیں۔ دوسری پارٹیوں کے امیدواروں کو خطیر رقم خرچ کرنی پڑتی ہے اور کراچی کی حد تک تو ان کی جیت بھی مشکل ہی ہوتی ہے۔ میری خواہش ہے کہ ہم کراچی میں بھی لندن جیسا کلچر پیدا کریں، جہاں ترقی کے یکساں مواقع ہوں اور ایک غریب آدمی کا بچّہ بھی اپنی قابلیت کی بنیاد پر الیکشن میں بغیر خرچ کے منتخب ہو جائے۔ جب کراچی میں یہ کلچر پیدا ہو جائے گا تو بہت سے مسائل خود بہ خود حل ہو جائیں گے۔ ہمارے ملک میں فوج ایک بہت ہی ڈسپلن ادارہ ہے جس نے اپنی ساکھ اور اچھی شہرت قائم رکھی ہوئی ہے۔ میری تجویز ہے کہ پرائمری اور سیکنڈری لیول کی تعلیم فوج کے حوالے کر دی جائے۔ وہ اپنی نگرانی میں بچّوں کو میٹرک تک تعلیم دے اس طرح تعلیم کا معیار فوراً بلند ہو جائے گا۔ ابھی بھی فوج کے زیر انتظام چلنے والے کیڈٹ کالج اور آرمی اسکولوں کا معیار دیکھیں، بہت عمدہ اور اعلیٰ ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ پورے سندھ کے پرائمری اور سیکنڈری اسکول اساتذہ سمیت فوج کی نگرانی میں دے دیئے جائیں۔ سارے گھوسٹ ٹیچر بھاگ جائیں گے اور جن اسکولوں کی عمارتوں پر زمینداروں نے قبضہ کر کے اپنے مویشی باندھ رکھے ہیں وہ تمام عمارتیں بحال ہو جائیں گی اور بچّے تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور حکومت پر دبائو بڑھانا چاہئے کہ تعلیم کا شعبہ فوج کے حوالے کیا جائے تاکہ تعلیم کا معیار درست ہو سکے اور بچّے بھی صحت مند ہو جائیں۔ آخر میں حبیب جالب کے اشعار قارئین کی نذر کرتا ہوں:
بہت دور ہم آ گئے اس گلی سے
بہت دور وہ آستاں چھوڑ آئے
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
تازہ ترین