• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صبح صبح معروف صحافی اور کالم نگار جبار مرزا صاحب کا فون آگیا۔ کہنے لگے چلو بھئی پھر چلیں؟ سوال پوچھنے کے انداز میں اطلاع تھی نہ مشورہ مانگا گیا تھا۔ بس ایک حکم تھا جو دوران گفتگو پوشیدہ تھا۔ تعمیل کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔جبار مرزا میرے والد کے قریب ترین دوست ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا جبار مرزا صاحب میرے قریب ترین دوست ہو گئے اور کچھ بعید نہیں آنے والی نسلوں کے بہترین دوست ہونیکا اعزاز بھی ان ہی کے پاس ہی آئے۔
ورلڈ کالمسٹ کلب کے تحت الشفاآئی اسپتال کا دورہ مقصود تھا۔ اس کلب کا بنیادی مقصد تو یہی طے ہوا ہے کہ سیاست کے خار زار سے نکل کر کبھی کبھی سماجی بہبود کا فریضہ بھی قلم کو سونپا جائے۔اکھاڑ پچھاڑ کے بجائے مرہم بھی لفظوں سے رکھا جائے۔محبت کا فقرہ ، بھائی چارے کی بات، انسانیت کا درس بھی تو اسی قلم پر قرض ہے۔ اسی قرض کو چکانے الشفاآئی اسپتال پہنچ گئے۔ وہاں پہنچے تو کالم نگاروں کی بہار آئی ہوئی تھی۔ ہر ایک ہاتھ میںقلم سونتےتیار بیٹھا تھا۔ بڑے بڑے نامور اور معتبر قلم کارتھے جو اس اسپتال کے دورے میں شریک ہو گئے تھے۔
الشفاآئی اسپتال کا آغاز انیس سو پچاسی میں ہوا ۔ اس کار خیر کا آغاز جنرل جہاندادمرحوم نے کیا۔ اگر چہ اسپتال میں انتظامیہ ایک ریٹائرڈ جنرل صاحب کے سپرد ہے اسکے باوجود یہ ادارہ مکمل طور پر ایک غیر سیاسی، غیر حکومتی اور غیر منافع بخش تنظیم اور پرائیوٹ ادارے کے طور پر رجسٹر ہے۔جنرل جہانداد نے جس محنت، خلوص اور محبت سے ادارے کی بنیاد رکھی اسی جذبے سے یہ ادارہ کار خیر میں اپنا حصہ بٹا رہا ہے۔اس ٹرسٹ کی شاخیں راولپنڈی، کوہاٹ ، مظفرآباد اور سکھر میں ہیں۔ بنیادی کام اس ادارے کا آنکھوں کے امراض کا علاج اور نابیناپن سے بچائو ہے۔اس مقصد کے حصول کی خاطر روزانہ سینکڑوں مریضوں کے آپریشن ہوتے ہیں۔استطاعت کے اعتبار سے مریضوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حصہ ان مریضوں کا ہے جو علاج کا خرچ برداشت کر سکتے ہیں۔ دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو سفید پوش لوگ ہیں اور علاج کی کچھ رقم ادا کر سکتے ہیں اور ایک حصہ ان مریضوں کا ہے جو جیب سے ایک پائی نہیں ادا کر سکتے۔ایسے مریضوں کا علاج یہاں پر بالکل مفت کیا جاتا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حامد جاوید اب ادارے کے روح رواں ہیں۔ جنرل صاحب نے کالمسٹ کے اس گروپ سے خطاب کر تے ہوئے جس با ت پر سب سے زیادہ زور دیا وہ یہ تھی کہ مریض چاہے متمول ہو یا زکوۃ کا مستحق اسکے علاج کامعیار ، سہولتوں اور نگہداشت میں رتی بھی فرق نہیں ہے۔ آنکھوں کے علاج کے حوالے سے جو ایک خوفناک حقیقت بتائی گئی وہ یہ تھی کہ اس ملک میں اسی فیصد نابینا افراد کا بروقت علاج کر کے ان کو نابینائی سے بچایا جا سکتا تھا۔سہولتوں کی کمی اور علاج کے اخراجات بے شمار لوگوں کو نابینائی کے اندھیروں میں دھکیل دیتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو علاج کی سہولت مہیا کی جارہی ہے مگر پھر بھی آنکھوں کی روشنی ہر انسان کا حق ہے۔جو کچھ ہم سے بن پڑتا ہے ضرور کرتے ہیں لیکن ابھی بہت سا کام باقی ہے۔
اسپتال کی کلینکل سائیکالوجسٹ مدیحہ عروج نے شعبہ لائٹ ہاوس کے بارے میں بتایا۔ اس شعبے میں لو وژن اور نابینا افراد کی زندگی کی طرف بحالی کے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ بولنے والے کمپیوٹر، بریل کی کتابیںاور سفید چھڑی سے چلنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ جو مریض اب نہیں دیکھ سکیں گے ان کو زندگی کیسے بسر کرنی ہے اس کی تربیت اس شعبے میں د ی جاتی ہے۔ ایسے مریضوں کی نفسیاتی بحالی بھی ایک بڑا کام ہے۔ نفسیاتی طور پر مریض کئی مرحلوں سے گزرتے ہیں۔ مدیحہ عروج نے بتایا بہت سے مریض ایسے ہیں جو علاج سے ڈرتے ہیں۔ آپریشن سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ایسے مریضوں کو ذہنی طور پر تیار کرناایک بہت بڑا مرحلہ ہوتا ہے۔بعض اوقات والدین اتنے متفکر ہوتے ہیں کہ علاج میں غفلت ہوتی ہے۔ ان سب مرحلوں میں کلینکل سائیکالوجسٹ مریضوں کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں ۔ ہر مرحلے پر انکی رہنمائی ہوتی ہے۔ ان کا حوصلہ بڑھایا جاتا ہے۔ ان کو پیش آنے والے علاج سے آگا ہ رکھا جاتا ہے۔انکے کہنے کے مطابق سب سے مشکل مرحلہ وہ ہوتا ہے جب کسی وجہ سے کسی مریض کی بینائی مکمل طور پر چلی جاتی ہے اس کو یہ خبر بتانا اور اس کےخاندان کو آنے والے وقت کے لئے تیار کرنا ایک دشوار ترین مرحلہ ہوتا ہے۔ بہت سے والدین ایسے مرحلے پر ایسی کیفیت میں چلے جاتے ہیں جسے بہ زبان انگریزی ڈینائل کہا جاتا ہے۔ جہاں وہ حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے ۔ نابینا بچے کی ری ہیبلٹیشن کی بجائے پیروں فقیروں کے چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں اور اس طرح نابینا افراد کی بحالی میں قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔
شفا آئی ٹرسٹ ایک بہت قابل قدر ادارہ ہے۔ لاکھوں لوگوں کو آنکھوں کی روشنی دے چکا ہے۔لوگ اس ادارے پر اعتماد کرتے ہیں جس کی وجہ اسکا اعلیٰ معیار اور علاج کی بہترین سہولتیں ہیں۔ دنیا بھر سےمخیر حضرات اور تنظیمیںاس کار خیر میں دل کھول کر اس ادارے کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں جنرل حامد جاوید نے بتایا کہ یہاں آنکھوں کے علاج کی تو ہر طرح کی سہولت میسر ہے مگر مکمل اور مستقل طور پر نابینا افراد کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں ہے۔
میرے ذاتی مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ نابینا افراد کی تعلیمی مشکلات اس ملک میں بے پناہ ہیں۔حکومتی سطح پر جو ادارے ہیں انکی کارکردگی مایوس کن ہے۔ یہ وہ شعبہ ہے جو ہر حکومت میں نظر انداز رہا ہے۔صوبائی حکومتیں بھی اس معاملے میں کوئی خاص کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ تعلیم نہ ملنے کے سبب نابینا افراد پیشہ ورانہ زندگی میں حصہ نہیں لے پاتے اور معاشرے کا فعال حصہ نہیں بن پاتے۔ جہاں تک ہنر کی بات ہے تو یہ لوگ کسی طرح بھی بینا لوگوں سے کم نہیں۔بس ذرا سا حوصلہ دینے کی ضرورت ہے پھر یہ مٹی بڑی زرخیز ہے۔
گل زمیں خا ن کی روشن مثال پر بات ختم کرتے ہیں۔ انکا تعلق لوئر دیر مالاکنڈ سے ہے۔ نابینا ہونےاور نامساعد حالات کے باوجودتعلیم مکمل کی۔ پہلے ایم اے انگریزی ادب کیا پھر اسی مضمون میںایم فل کی ڈگری حاصل کی۔اور اب انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ آج کل مالاکنڈ یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور اپنی قابلیت اور محنت کے سبب صوبائی حکومت سے اس سال کے بہترین یونیورسٹی پروفیسر کا اعزاز بھی پا چکے ہیں۔ الشفاآئی ٹرسٹ اور گل زمین خان دونوں اس دھرتی پر روشن ستارے ہیں دونوں پر فخر ہم سب کا حق ہے۔


.
تازہ ترین