مہنگائی کا جن قابو سے باہر

October 24, 2021

مشیر خزانہ کی زیرِ صدارت پرائس کنٹرول کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری کئے گئے اعلامیے میںکہا گیاہے کہ حکومت 4 کروڑ لوگوں کو اشیائے خور و نوش میں براہ راست سبسڈی دینے کیلئے ایک پروگرام شروع کر رہی ہے جس کے تحت گھی کی قیمت میں 50 روپے فی کلو کمی کی جائے گی، چینی کی قیمت 90 روپے فی کلو جبکہ آٹا 55 روپے فی کلو فراہم کیا جائے گا تاہم یہ سبسڈی یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے دی جائے گی۔ موجودہ حکومت کے اعلانات، بیانات اور دعوؤں کے حوالے سے ریکارڈ دیکھتے ہوئے کوئی بھی شخص حکومتی بیانیے پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں حالانکہ یہی عوام تھے جنہوں نےپی ٹی آئی اور عمران خان کے وعدوں پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں کامیاب کرایا۔ مگر آج3سال گزرنے کے بعد وزیر اعظم کی کوئی تقریر سن لیں یا کسی حکومتی وزیر مشیر کے بیان اٹھا کر دیکھ لیں وہ اپنی کارکردگی تو نہیں بتاتے مگر یہ ضرور بتاتے رہتے ہیں کہ سابق حکمران چور تھے، قومی خزانے کی لوٹ مار کی گئی، ملک میں مافیا مضبوط ہے ہمارا مقابلہ مافیا کے ساتھ ہے۔ کاش کہ آج3سال بعد وہ عوام کو بتا رہے ہوتے کہ چینی اسکینڈل میں ملوث اتنے چوروں کو سزا ہوچکی ہے، آٹے بحران کے ذمہ دار اتنے لوگ جیل میں ہیں ،کرپشن میں ملوث اتنے لوگ کال کوٹھری میں ہیں اور اتنی لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جا چکی ہے مگر ایسا نہیں ہے ۔افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کرپشن کے کیسز کے اکثر ملزم یا تو ضمانتوں پر ہیں یا پھر کمزور کیسز کی وجہ سے با عزت بری ہوچکے ہیں جبکہ آٹا چینی اسکینڈل میں ملوث لوگوں کی انکوائریاں ہی ٹھپ ہوچکی ہیں۔کہتے ہیں کہ حقیقی جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں رائج آمرانہ جمہوریت میں طاقت کا یہ سرچشمہ بالکل سوکھ چکا ہے یہاں اب کمزوری اور بے بسی کی دھول اڑ رہی ہے ایسے میں عوام کا کسی قسم کی طاقت اور قوت سے کوئی تعلق نہیں مگر اس کے باوجود ہمارے وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ عوام کی قوت خرید بڑھ گئی ہے پچھلے دنوں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور پھر ملک میں خوفناک حد تک بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تناظر میں انہوں نے کہا کہ اگر مہنگائی بڑھی ہے تو تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے جبکہ حالیہ دنوں میں گورنرا سٹیٹ بینک نے بھی مہنگائی کا اعتراف کرنے کے باوجود قوت خرید میں اضافے کی بات کی۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کے پاس تو خرید کی قوت ہی نہیں تو وہ بڑھ کیسے گئی؟ مگر یہ کوئی نئی بات نہیں ہر حکومت میں وزیروں، مشیروں کی ذمہ داری یہی ہوتی ہے کہ وہ حکومت کے ہر اقدام کا دفاع کریں اور اس کے حق میں جواز پیش کریں۔سچ پوچھیں تو ہمیں آج تک ایسا عام آدمی نہیں ملا جو بڑھتی ہوئی مہنگائی سے متاثر نہ ہوتا ہو یا پھر اس کی قوت خرید بڑھ گئی ہو ۔ عام آدمی کی حالتِ زار کا اندازہ لگانا ہو تو آٹے کیلئے مارے مارے پھرنے والے اس غریب سے پوچھیں جس کیلئے 1200 روپے دے کر بھی آٹے کا تھیلا خریدنا مشکل ہے اگر آٹا خرید بھی لیں تو گھی خریدنا مشکل ہوجاتا ہے اور پھر چینی تو اب عیاشی کے زمرے میں آتی ہے۔ حالانکہ اقتدار میں آنے سے پہلے وزیر اعظم کہا کرتے تھے کہ جس ملک میں مہنگائی بڑھ جائے تو سمجھ جائیں اس ملک کے حکمران چور ہیں مگر اب بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بعد یہ بات سمجھنا مشکل ہوگیا ہے کہ حکمران چور ہیں یا اپوزیشن چور ہے۔ عمران خان جب سے وزیر اعظم بنے ہیں وہ مسلسل عوام کو بتا رہے ہیں کہ سابقہ حکمران چور تھے حالانکہ اقتدار کے 3سال گزرنے کے بعد آج انہیں یہ بتانا چاہئے تھا کہ کتنے چوروں کو سزا مل چکی اور کتنی لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جا چکی۔جہاں تک قوتِ خرید کا تعلق ہے حکمرانوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ اعداد و شمار کی بنیاد پر نہ تو ترقی کا گراف دیکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی غربت کو جانچا جا سکتا ہے کیونکہ اصل حقیقت اعداد و شمار سے نہیں بلکہ حالتِ زار سے دیکھی جاتی ہے مگر اس کیلئے سب اچھا کی عینک اتار کر دیکھنا پڑتا ہے گو کہ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کیا مگر پرائیویٹ ملازمین اور عام محنت کشوں کی آمدنی میں کتنا اضافہ ہوا اور پھر جس تناسب سے مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے، اس سے سفید پوش لوگوں کی قوت خرید کیسے بڑھ سکتی ہے؟

حکومت پناہ گاہوں کا تجربہ کرچکی ہے۔ اب مہنگائی ختم کرنے کا تجربہ کرےتاکہ عوام کے لئے جینا آسان ہو۔ ریاست ِمدینہ کے خوش نما نعرے لگانے والوں کو ریاستِ مدینہ کے خد وخال کا مطالعہ کرنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ ریاست ِمدینہ میں غریب وامیر کے درمیان کسی بھی قسم کا کوئی فرق نہیں تھا۔ایسا نہیں تھا کہ چند چیزوں پر مقتدرہ کا قبضہ ہواور غریب ان چیزوں کے حصول کیلئے ایڑیاں رگڑتا پھرتاہو۔ ریاست مدینہ میں سب سے زیادہ غریب کی شنوائی ہوتی تھی اور یہاں سب سے زیادہ غریب کی رسوائی ہوتی ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ سارا دن کما کر شام کو اگر دکان پر ایک وقت کی روٹی کا انتظام کرنے جائیں اور گھر میں 7آٹھ افراد کا ساتھ ہوتو غریب آدمی مہنگی اشیاء دیکھ کر اپنی خواہشات کی قبر کھود کر بہت سے ارمانوں کو اسی میں دفن کر دیتاہےجس طرح سے حکومت توانائی کے نرخوں میں اضافہ کررہی ہے، آنے والے وقت میں عوام کو مہنگائی کایہ اژدھام نگل جائے گا اور حکومت وقت کے لئے اس کو روکنا مشکل ہوجائے گااورہمیں تشویش ہے کہ کہیں ملک میں حالات لبنان جیسے نہ ہوجائیں؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)