دبستانِ شعر: ایک تصویر رنگ...

October 25, 2021

میں نے جس وقت تجھے پہلے پہل دیکھا تھا

تو جوانی کا کوئی خواب نظر آئی تھی

حسن کا نغمۂ جاوید ہوئی تھی معلوم

عشق کا جذبۂ بے تاب نظر آئی تھی

اے طرب زار جوانی کی پریشاں تتلی

تو بھی اک بوئے گرفتار ہے معلوم نہ تھا

تیرے جلووں میں بہاریں نظر آتی تھیں مجھے

تو ستم خوردۂ ادبار ہے معلوم نہ تھا

تیرے نازک سے پروں پر یہ زر و سیم کا بوجھ

تیری پرواز کو آزاد نہ ہونے دے گا

تو نے راحت کی تمنا میں جو غم پالا ہے

وہ تری روح کو آباد نہ ہونے دے گا

تو نے سرمائے کی چھاؤں میں پنپنے کے لیے

اپنے دل اپنی محبت کا لہو بیچا ہے

دن کی تزئین فسردہ کا اثاثہ لے کر

شوخ راتوں کی مسرت کا لہو بیچا ہے

زخم خوردہ ہیں تخیل کی اڑانیں تیری

تیرے گیتوں میں تری روح کے غم پلتے ہیں

سرمگیں آنکھوں میں یوں حسرتیں لو دیتی ہیں

جیسے ویران مزاروں پہ دیے جلتے ہیں

اس سے کیا فائدہ رنگین لبادوں کے تلے

روح جلتی رہے گھلتی رہے پژمردہ رہے

ہونٹ ہنستے ہوں دکھاوے کے تبسم کے لیے

دل غم زیست سے بوجھل رہے آزردہ رہے

دل کی تسکیں بھی ہے آسائش ہستی کی دلیل

زندگی صرف زر و سیم کا پیمانہ نہیں

زیست احساس بھی ہے شوق بھی ہے درد بھی ہے

صرف انفاس کی ترتیب کا افسانہ نہیں

عمر بھر رینگتے رہنے سے کہیں بہتر ہے

ایک لمحہ جو تری روح میں وسعت بھر دے

ایک لمحہ جو ترے گیت کو شوخی دے دے

ایک لمحہ جو تری لے میں مسرت بھر دے