جعلی پولیس مقابلے تھمنے کانام نہیں لے رہے

January 02, 2022

2021 میں بھی پولیس افسران کی جانب سے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے واقعات تھم نہیں سکے۔ جعلی پولیس مقابلوں کے دوران شہریوں کی ہلاکت کے واقعات 2021 میں بھی جاری رہے۔ ماضی میں کراچی پولیس کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں میں مقابلوں کے دوران ملزمان کو مارنے کے دعوے کیے گئے۔ تاہم بعد ازاں بہت سے واقعات میں مرنے والے افراد عام شہری نکلے ۔ 2021 میں بھی اورنگی ٹائون اور کورنگی میں پولیس مقابلوں کے دوران ملزمان کو مارنے کے دعوے کیے گئے۔ تاہم دونوں واقعات میں مرنے والے عام شہری تھے۔

گزشتہ دنوں ضلع ویسٹ کے علاقے پیر آباد تھانے کی حدود میں ضلع سینٹرل کے تھانہ جوہر آباد کے ایس ایچ او غیور عباس اور ان کی ٹیم کی جانب سے ایک مکان پر ریڈ کرنے کا دعویٰ کیا گیا،اس دوران فائرنگ کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک اور پولیس اہل کار سمیت دو افراد زخمی ہوئے۔ ایس ایچ او جوہر آباد غیور عباس نے دعویٰ کیا کہ ہماری پولیس پارٹی موقع پر موجود تھی اور اپنے مخبر کے انتظار میں تھی، مخبر نے ہمیں ایک گھر کی نشاندھی کرنی تھی، تاہم مخبر کے پہنچنے سے پہلے ہی پولیس پر فائرنگ ہوگئی،فائرنگ سے ہمارا اہل کار زخمی ہوا، جسے فوری اسپتال لے جایا گیا۔

بعد ازاں جب حقیقت سامنے آئی تو معلوم ہوا کہ ایس ایچ او جوہر آباد اور ان کی ٹیم نے ایک مکان پر قبضہ کرانے کے لیے غیر قانونی کارروائی کی۔ ایس ایچ او تھانہ جوہر آباد غیور عباس نے پیر آباد تھانے میں بغیر انٹری کروائے پشتون مارکیٹ میں ایک گھر پر چھاپہ مارا، جہاں فائرنگ کا تبادلہ ہوگیا،اس دوران تین افراد بشیر،یار گل اور عبداللہ ہلاک، جب کہ پولیس اہل کار کامل عباس اور افتخار شاہ زخمی ہوگئے۔

ایس ایچ او جوہرآباد موقع سے زخمی اہلکار کو لےکر موقع سے فرار ہو گئے اور عباسی شہید اسپتال پہنچ گئے، جہاں غیور عباس نے اپنے افسران سے بھی غلط بیانی کرتے ہوئے اطلاع دی کہ پولیس نے ایک ملزم کی نشان دہی پر چھاپہ مارا تھا، جہاں فائرنگ کے تبادلے میں اہل کار کامل عباس زخمی ہوگیا ، جب کہ انہوں نے ہلاکتوں اور زخمی کے بارے میں نہیں بتایا اور آخری وقت تک یہ کہتے رہے کہ پولیس کی فائرنگ سے کوئی ہلاکت ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی زخمی ہوا ہے ۔

بعد ازاں واقعہ کی تفتیش کی گئی تو انکشاف ہوا کہ ایس ایچ او جوہر آباد غیور عباس بھاری رشوت لے کر قبضہ چھڑانے گئے تھے ،ایس ایچ او تھانہ پیر آباد بدر اسلام نے بتایا کہ 6 ماہ قبل ابراہیم نامی شخص نے اپنا گھر 60 لاکھ روپے میں سعید خان کو فروخت کرنے کا معاہدہ کرکے 20 لاکھ ایڈوانس لے لیے تھے۔

مکان میں رہائش پزیر ابراہیم کے پوتے مکان خالی نہیں کر رہے تھے، مکان خریدنے والے شخص کی ایس ایچ او جوہر آباد سے دس لاکھ روپے میں ڈیل ہوئی، پولیس پارٹی کے ذریعے مکان خالی کرانے کے لیے جانے والے ایس ایچ او نے 3 لاکھ روپے ایڈوانس وصول کیے، مکان خریدنے والا شخص پہلے بھی متعدد بار اسے خالی کرانے کی کوشش کرچکا تھا،ایس ایچ او پرائیوٹ ساتھیوں اور سرکاری اہل کاروں کے ساتھ قبضہ چھڑانے پہنچے، تو مبینہ قابضین نے فائرنگ کر دی۔

مبینہ قابضین کی جانب سے فائرنگ کرنے والا نثار شاہ کے پی کے پولیس کاسابق اہل کار اور ماہر نشانہ باز تھا۔ پولیس حکام کے مطابق نثار شاہ کی فائرنگ سے تین افراد مارے گئے، جب کہ پولیس اہل کار زخمی ہوا، پولیس حکام پولیس پارٹی کے ہمراہ جانے والوں کی فائرنگ سے مبینہ قابضین کا بھائی افتخار شاہ شدید زخمی ہوا، تھانےدار اور ان کے ساتھ پولیس پارٹی کے پاس سرکاری اسلحہ بھی تھا،ایس ایس پی سینٹرل غلام مرتضیٰ تبسم نے بتایا کہ واقعہ میں ملوث ایس ایچ او غیور عباس ،پانچ پولیس اہلکاروں اور دو پرائیوٹ افراد کو گرفتار کر کے پیر آباد پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے ، جب کہ ایس ایچ او پیر آباد نے بتایا کہ پیرآباد پولیس نے زخمی افتخار شاہ، اس کے بھائی نثار شاہ،اقبال اور سعیدخان کو بھی گرفتار کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے تینوں افراد سعید تھلے والے کے کارندے اور پیر آباد محمدی کالونی کے رہائشی تھے اور ان کا آبائی تعلق شانگلہ سے تھا۔ واقعہ کا مقدمہ پیرآباد تھانے میں سرکار مدعیت میں درج کیا گیا۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ایس ایچ او جوہر آباد غیور عباس کا نام اس سے پہلے بھی غیر قانونی سرگرمیوں میں آیا تھا۔ گزشتہ برس کورونا لاک ڈائون کے دوران ضلع سینٹرل کے علاقے میں واقع مٹھائی کی معروف دُکان کھولنے اور بند کرنے کے لیے پولیس کے ایک افسر نے پیسے لیے تھے اور مذکورہ افسر کی ساتھ غیور عباس کا نام بھی آیا تھا۔

تاہم اس کے باوجود غیور عباس کی تعیناتی بہ طور ایس ایچ او کی گئی،ذرائع کے مطابق اتوار اور پیر کی درمیانی شب پیر آباد تھانے کی حدود میں ہونے والے واقعہ کے بعد ایک پولیس افسر کی جانب سے ایس ایچ او غیور عباس کو ویسٹ پولیس کی جانب سے تفتیش کے لیے بلانے پر بھی ناراض گی کا اظہار کیا گیا اور معاملے کو دبانے کی کوشش کی گئی، مبینہ طور پر مذکورہ افسر کو ایس ایچ او جوہر آباد کی کارروائی کا پورا علم تھا۔

تاہم ایڈیشنل آئی جی کراچی عمران یعقوب منہاس کی جانب سے واقعہ کا سختی سے نوٹس لیا گیا،انہوں نے جب مقامی پولیس افسران سے واقعہ کی رپورٹ طلب کی تو پولیس افسران نے انہیں ساری حقیقت بتا دی اور یہ بھی بتایا کہ اگر اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی گئی توعلاقے میں امن و امان کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے، جس کے بعد ایڈیشنل آئی جی کراچی نے واقعہ کی میرٹ پر انکوائری کرنے کے احکامات جاری کیے ۔ایڈیشنل آئی جی کی جانب سے سخت احکامات کے بعد ضلع سینٹرل پولیس نے ایس ایس او سمیت واقعہ میں ملوث اہل کاروں کی کسٹڈی لی۔

تفتیشی پولیس نے فائرنگ کرنے والے ملزم نثار شاہ سے آلہ قتل بھی برآمد کر لیا ہے، جب کہ جائے وقوعہ سے نائن ایم ایم پستول کا ایک خول اور تیس بور پستول کے تین خول بھی تحویل میں لےکر فرانزک کے لیے بھیج دیے ہیں۔ پولیس نے ملزمان سے تفتیش کے بعد دو ملزمان آصف عرف گنجا اور ملزم گلاب کو بھی نامزد کیا ہے، گرفتار ملزمان کا سی ڈی آر ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے افسران کو خط لکھ دیا گیا ہے اور دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے تلاش شروع کر دی ہے۔

پولیس افسران کی جانب سے اس طرح کے غیر قانونی واقعات آئے دن سُننے میں آتے ہیں، مذکورہ واقعہ میں 3 افراد کی ہلاکت نے اس واقعہ کی حقیقت سے پردہ اٹھا دیا، ورنہ روزانہ کی بنیاد پر پولیس اس طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث دکھائی دیتی ہے اور مختلف پارٹیوں سے تعلقات اور پیسوں کے عوض غیر قانونی کام کروائے جاتے ہیں، جس میں پولیس اہل کاروں کے علاوہ پرائیویٹ افراد بھی شامل ہوتے ہیں اور اس میں پولیس جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک پارٹی کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔

اگر قانون کے رکھوالے ہی قانون کی دھجیاں اڑائیں گے، تو پھر قانون پرعمل درآمد کون کروائے گا؟ پولیس افسران کے مطابق اب ایس ایچ اوز کی تعیناتی اب ٹیسٹ اور انٹرویو لینے کے بعد کی جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود اس طرح کے واقعات میں شہریوں کی ہلاکت اورایس ایچ اوز کے ملوث ہونے کا مطلب سمجھ سے باہر ہے۔ سیاسی بنیادوں پر ہونے والی بھرتیوں نے پولیس کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

تاہم دیکھا یہی گیا ہے کہ ڈی ایس پی لیول تک کے رینک کے افسران کو تو سزائیں دے دی جاتی ہیں، لیکن پی ایس پی افسران جو ان افسران کی پشت پناہی کرتے ہیں اور اپنی پسند کے ایس ایچ اوز لگاتے ہیں، ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی، جب تک پولیس کے اندر انصاف کا یہ دوہرا معیار برقرار رہے گا، اس وقت تک ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اور اس کا خمیازہ معصوم شہریوں کو ہی بھگتنا پڑے گا۔