’انسان بدلتا ہے‘ وہ یادگار فلم، جس نے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کو بہ طور فلم ساز متعارف کرایا

January 18, 2022

یہ 1961ء کا ذِکر ہے اس زمانے کا ، جب نثار مراد کے ادارے فلم آرٹس کے بینر تلے فلم ’’انسان بدلتا ہے‘‘ بنائی گئی، یہ وہ یادگار فلم تھی، جس نے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کو فلمی دُنیا میں بہ طور فلم ساز متعارف کروایا، جب فلم بینوں نے اس فلم کے ٹائٹل پر پہلی بار بہ طور فلم ساز و کہانی نویس ان کا نام دیکھا اور پڑھا تو کسی کو نہیں معلوم تھا کہ آنےوالے چند سال کے بعد یہ نام پاکستانی اسکرین پر چاکلیٹی ہیرو کے نام سے شہرت کے لازوال مقام تک پہنچ جائے گا۔

یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب وحید مراد بہ طور تقسیم کار اپنے والد نثار مراد کے دفتر پاکستان فلمز کا کنٹرول سنبھالے ہوئے تھے، ان کے ذہن میں ایک کہانی آئی اور خود اس کہانی کوفلمانے کے لیے بے تاب ہوگئے۔ اداکار درپن کی فلم ساتھی اور گلفام جو کراچی سندھ سرکٹ میں پاکستان فلمز کے ذریعے ریلیز ہوئی تھیں اور دونوں فلموں نے بے حد زبردست بزنس کیا تھا۔ فلموں کی خرید اور ریلیز کے لیے وحید مراد ان دنوں اکثر لاہور جایا کرتے تھے۔ درپن فیملی سے ان کے مراسم اور تعلقات گھریلو قسم کے تھے۔ سنتوش اور درپن کے والد انہیں اپنا بیٹا ہی کہا کرتے تھے۔

لاہور میں ان کی ملاقات فلمی مصنف اقبال رضوی سے ہوئی، جو ساتھی اور گلفام جیسی سپرہٹ فلمیں لکھ کر اپنا نام بنا چکے تھے۔ درپن صاحب کے پروڈکشن آفس لاہور میں ان کی ملاقات ہوئی۔ اقبال رضوی نے انہیں فضلی صاحب کی فلم ’’فیشن‘‘ کے مرکزی خیال کو سُنایا، جسے وحید مراد نے پسند کیا اور فلم ’’انسان بدلتا ہے‘‘ کے نام سے فلم شروع کر دی۔

فلم کی کہانی چوں کہ ماخوذ تھی، اس لیے ٹائٹل پر وحید مراد کا نام دیا، اس فلم کے مکالمے اور منظر نامہ اقبال رضوی نے تحریر کیا۔ اداکار درپن سے وحید مراد کی دوستی بھی تھی اور وہ ان کے کاروباری مراسم بھی تھے ، تو فلم کے ہیرو کے لیے درپن کو کاسٹ کیا۔ اداکارہ شمیم آرا کو ان کے مدِمقابل ہیروئن لیا گیا۔ دیگر کاسٹ میں لہری، نیا، آغا جان، انور، نگہت سلطانہ، ٹی وی اداکارہ عرش منیر، مظفر (نرالا)، خورشید کنول، خورشید انجیلا، ظفر خورشید، سیھٹی، لطیف چارلی، فلپائنی اداکار لیو اور لیلے کے نام شامل تھے۔

فلم کے ہدایت کار منور رشید، موسیقار خورشید ظفر، فوٹو گرافی محبوب علی، صدا بندی محمد ہاشم قریشی، تدوین کار خورشید، رقص میڈم آزوری، دیوکمار کی ٹیم کے ساتھ ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں یہ فلم فلمائی گئی۔ بروز جمعہ 5مئی 1961 کوکراچی کے ناز سنیما میں یہ فلم ریلیز ہوئی۔ اپنے مین تھیٹر پر یہ فلم 11ہفتے چلی، جب کہ مجموعی طور پر اس فلم نے 25 ہفتے چل کر سلور جوبلی منائی۔

فلم کی مختصر کہانی یہ تھی کہ سیٹھ شوکت (آغا خان) کی بیٹی جمیلہ (شمیم آرا) ایک فیشن ایبل لڑکی ہوتی ہے، جو حقوق نسواں کی ایک تحریک کی لیڈر ہے اور عورتوں کی برتری کی حامی ہے۔ اپنے والد کی فیکٹری کی دیکھ بھال بھی جمیلہ کرتی ہے اور اس فیکٹری میں زیادہ تر خواتین کو ملازمت دی ہوتی ہے۔ مردوں کے عملے میں فلم کا ہیرو جمال (درپن) اور اس کا دوست آبو (لہری) ہوتا ہے۔ ان دونوں کو جمیلہ ایک غلط فہمی کی وجہ سے ملازمت سے برخاست کردیتی ہے۔

یہ دونوں سڑک پر آجاتے ہیں۔ ایک روز کچھ غنڈے فیکٹری کے مالک سیٹھ شوکت کو زخمی حالت میں سمندر میں پھینک دیتے ہیں، یہ منظر جمال اور اس کا دوست آبو دیکھ لیتے ہیں۔ جمال سیٹھ کی زندگی بچا لیتا ہے۔ سیٹھ جمال کو اپنا سیکریٹری رکھ لیتا ہے۔ سیٹھ جب اپنی فیکٹری کا دورہ کرتا ہے ، تو خواتین کو دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے، سارا کاروبار متاثر ہو رہا تھا، ان حالات میں سیٹھ، جمال کو فیکٹری کی ذمے داریاں سونپ دیتا ہے، یہاں وہ جمیلہ سے دوبارہ ملتا ہے، لیکن وہ نہایت سرد مہری سے اس کی طرف دیکھتا ہے۔ جمیلہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔

آبو کی محبوبہ چھمیا (پنا) جو سڑکوں پر گڑیا بیچ کو اپنا روزگار تلاش کرتی ہے۔ سیٹھ جمال کو اپنی بیٹی جمیلہ کے لیے پسند کرلیتا ہے، لیکن اس کا شرابی بھانجہ (انور) جو ان کی دولت حاصل کرنے کے لیے جمیلہ سے شادی کا خواہش مند ہوتا ہے۔ اپنی ایک موڈرن دوست جو کہ ایک حرافہ عورت ہوتی ہے، عذرا (نگہت سلطانہ) کے ساتھ مل کر سازش کرتا ہے۔ یہ دونوں مل کر ایک روز جمال کو بہت زیادہ شراب پلا دیتے ہیں، جب جمال کو ہوش آتا ہے، تو عذرا اسے بلیک میل کرتی ہے کہ نشے کی حالت میں اس نے اس کی عزت کو پامال کر دیا۔

جمال اس جھوٹ کو سچ سمجھ کر انور اور عذرا کی ہر بات مانتا ہے۔ ایک روز جمال، جمیلہ کو عذرا کے متعلق اپنی غلطی کا بتاتا ہے، تو جمیلہ اپنی محبت کی قربانی دے کر ان دونوں کی شادی کرا دیتی ہے۔ دوسری طرف انور اور عذرا جمیلہ کو بھی جمال کے ساتھ ملوث کر کے گھر سے نکلوا دیتے ہیں۔ جمال کا آبو اور چھیما اسے سمجھاتے ہیں، مگر جمال نشے کا عادی ہو چکا ہوتا ہے۔ جمال کی والدہ اس کے نشے کی وجہ سے اس کے دوست آبو کے ساتھ چلی جاتی ہے۔

اب انور کا مقصد پورا ہو گیا ہوتا ہے، تو وہ عذرا سے ملتا ہے۔ عذرا سے وہ ڈیڑھ لاکھ مانگتا ہے اور دھمکی دیتا ہے کہ وہ ساری حقیقت بتا دے گا۔ عذرا اسے رات کو اپنے گھر بلا کر شوٹ کر دیتی ہے۔ جمال اپنی بیوی کو بچانے کے لیے الزام اپنے سر لے لیتا ہے۔ جمال کو پھانسی کی سزا ہو جاتی ہے۔ اس کا دوست آبو عذرا کو مارنے اس کے گھر جاتا ہے ، وہ تیز رفتار کار کے ذریعے فرار ہوتی ہے اور حادثے کا شکار ہو کر مرجاتی ہے، مگر مرنے سے پہلے پولیس کو اپنا بیان دےکر ساری حقیقت بتا دیتی کہ جمال بے گناہ ہے جمال کو عدالت بری کردیتی ہے، جمال اور جمیلہ ایک بار پھر مل جاتے ہیں اور آبو کو چھیما مل جاتی ہے۔

بہ طور ہدایت کار یہ منور رشید کی پہلی فلم تھی۔ انہوں نے کوشش کی ایک اچھی فلم بنانے کی، لیکن بعض مناظر میں ان کی ڈائریکشن میں خامیاں بھی نظر آئیں۔ کیمرہ مین محبوب علی نے اپنے شعبے میں بہتر کام کیا۔ فلم کی منظر کشی میں لائٹ کا کافی خیال رکھا ہے، آرٹسٹوں کے کلوزاپ اور لونگ شارٹس بھی عمدہ بنائے۔ تدوین کار خورشید نے فلم کے ٹیمپو کو کسی حد تک ایک خاص رفتار میں رکھا۔

ان کے تجربے کا حامل ہے۔ ایک عام کہانی کو انہوں نے بہت دل چسپی کے ساتھ جوڑ کر اسکرین پر پیش کیا۔ صدابندی مکالمے ہاشم قریشی جیسے تجریہ کار ریکارڈسٹ کی مرہون منت تھے، جب کہ گانوں کی خُوب صورت صدابندی اقبال شہزاد نے کی، جو بے حد عمدہ تھی۔ فلم میں آرٹ کا شعبہ میں تعریف کے قابل تھا۔ تمام سیٹ فلم کی کہانی کے مطابق لگائے گئے، جس میں آرٹ ڈائریکٹر اقبال حسین صاحب کام یاب نظر آئے۔

اداکاری کے شعبے میں درپن، شمیم آرا اور لہری سرفہرست رہے، جب کہ نگہت سلطانہ نے اپنا کردار بہ خوبی نبھایا۔ نئے وِلن انور کا کام فلم بینوں کو پسند نہ آیا، وہ مکمل طور پر ناکام رہے، جب کہ اداکارہ پنا نے میں اپنی بھر پور موجودگی کا احساس دلایا۔ خورشید کنول نے پنا کی چچی جو کہ سندھن خاتون بنی، بہت ہی اعلیٰ سندھی لہجے میں مکالمے ادا کیے، بہطور مزاحیہ اداکار لہری نے کمال کردیا، کئی مناظر ایسے تھے کہ فلم بین بے حد محظوظ ہوئے۔

اس فلم میں مظفر کے نام سے متعارف ہونے والے اداکار نے بعد میں فلمی دنیا میں نرالا کے نام سے شہرت پائی، معروف ٹی وی اداکارہ عرش منیر کی یہ پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں کل آٹھ گانے شامل تھے، جن کی موسیقی ظفر خورشید صاحب نے ترتیب دی۔ اسٹیج اور ٹی وی کی معروف اداکارہ سلمیٰ ظفر ان کی صاحب زادی ہیں، فلم کے نغمات اظہار ملیح آبادی نے لکھے تھے، جبہ ایک گیت کے شاعر فیاض ہاشمی تھے۔