متاع غیر: میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی...

January 19, 2022

ساحر لدھیانوی

میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی

تیرے خوابوں میں کہیں میرا گزر ہے کہ نہیں

پوچھ کر اپنی نگاہوں سے بتا دے مجھ کو

میری راتوں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں

چار دن کی یہ رفاقت جو رفاقت بھی نہیں

عمر بھر کے لیے آزار ہوئی جاتی ہے

زندگی یوں تو ہمیشہ سے پریشان سی تھی

اب تو ہر سانس گراں بار ہوئی جاتی ہے

میری اجڑی ہوئی نیندوں کے شبستانوں میں

تو کسی خواب کے پیکر کی طرح آئی ہے

کبھی اپنی سی کبھی غیر نظر آئی ہے

کبھی اخلاص کی مورت کبھی ہرجائی ہے

پیار پر بس تو نہیں ہے مرا لیکن پھر بھی

تو بتا دے کہ تجھے پیار کروں یا نہ کروں

تو نے خود اپنے تبسم سے جگایا ہے جنہیں

ان تمناؤں کا اظہار کروں یا نہ کروں

تو کسی اور کے دامن کی کلی ہے لیکن

میری راتیں تری خوشبو سے بسی رہتی ہیں

تو کہیں بھی ہو ترے پھول سے عارض کی قسم

تیری پلکیں مری آنکھوں پہ جھکی رہتی ہیں

تیرے ہاتھوں کی حرارت ترے سانسوں کی مہک

تیرتی رہتی ہے احساس کی پہنائی میں

ڈھونڈتی رہتی ہیں تخئیل کی بانہیں تجھ کو

سرد راتوں کی سلگتی ہوئی تنہائی میں

تیرا الطاف و کرم ایک حقیقت ہے مگر

یہ حقیقت بھی حقیقت میں فسانہ ہی نہ ہو

تیری مانوس نگاہوں کا یہ محتاط پیام

دل کے خوں کرنے کا ایک اور بہانہ ہی نہ ہو

کون جانے مرے امروز کا فردا کیا ہے

قربتیں بڑھ کے پشیمان بھی ہو جاتی ہیں

دل کے دامن سے لپٹتی ہوئی رنگیں نظریں

دیکھتے دیکھتے انجان بھی ہو جاتی ہیں

میری درماندہ جوانی کی تمناؤں کے

مضمحل خواب کی تعبیر بتا دے مجھ کو

میرا حاصل میری تقدیر بتا دے مجھ کو