جمہوریت اور جمہوری کلچر

January 28, 2022

کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا مسئلہ یا المیہ کیا رہا ہے جس نے انسان کو صدیوں تک پسماندہ رکھا اور اس کی ترقی کرنے کی رفتار نہایت سست رہی؟مذہبی نظریات کے مطابق انسان ہزاروں سال سے اور سائنسی نظریات کے مطابق لاکھوں سال سے اس کرہ ارضی پر آباد ہے لیکن اس کی ترقی کا آغاز محض چند صدیاں پہلے ہوا۔ جب اس نے نت نئی ایجادات اور علمی کمالات سے دنیا کی شکل ہی بدل ڈالی۔ جب ہم نہایت باریک بینی سے تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر ایک حیرت انگیز راز کا انکشاف ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑالمیہ اقتدار کا حصول اور اس کو برقرار رکھنے کی تگ و دو میں ہونے والی خونریزی، سازشیں اور قتل و غارت گری رہی ہے۔ کیوں کہ اس کے لیے جنگل کا قانون استعمال ہوتا رہا ہے جس کا بنیادی محور طاقت کا بہیمانہ استعمال ہوتا تھا۔ اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہر وقت محلّاتی سازشوں کا جال پھیلا رہتا تھا اسی طرح اقتدار برقرار رکھنے کے لیے بھی اسی طرح کے حربے استعمال کیے جاتے تھے۔ جس کی وجہ سے ہر صاحب ِ اقتدار علم و دانش کو فروغ دینے کی بجائے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں لگا رہتا تھا۔ اقتدار کی اسی رسا کشی میں علماء، فضلا اور سائنسدانوں کو نہ تو حکومت ِ وقت کی سرپرستی میّسر تھی اور نہ ہی وہ پرسکون حالات جن میں تحقیق و جستجو کے کام یکسوئی سے کرنا ممکن ہو پاتا۔ یہ تو اکثر ہوتا تھا کہ ایک حکومت کے تبدیل ہو جانے کے بعد ایسے قابل، اہلِ علم افراد اور جرنیلوں کو قتل کردیا جاتا تھا تاکہ وہ نئی حکومت کے لیے کسی خطرے کا باعث نہ بن سکیں۔ ولید بن عبدالمالک کے بعد جب اس کا بھائی سلیمان بن عبدالمالک تخت نشین ہوا تواس نے ولید کے دیگر اہل ِ علم درباریوں کے ساتھ ساتھ اس کے انتہائی قابل جرنیلوں کو جنہوں نے افریقہ، یورپ اور ہندوستان میں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑدئیے تھے، چُن چُن کر ختم کردیا تھا جن میں موسیٰ بن نصیر، طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم بھی شامل تھے۔ ایسی شخصی حکومتیں کسی قانون اور قاعدے کی پابند نہیں ہوتی تھیں اور نہ ہی اُن کے دشمن کسی ضابطے کے قائل ہوتے تھے۔ چنانچہ وہ اکثر غیر بلکہ دشمن ممالک کو اپنی حمایت کے لیے دخل اندازی کی دعوت دیا کرتے تھے اسی طرح حکومتِ وقت اپنا غاصبانہ اقتدار برقرار رکھنے کے لیے اور عوام کے دل و دماغ پر اثر انداز ہونے کے لیے مذہب کی من پسند تاویلیں کرنے والے نام نہاد مذہبی پیشواؤں کی سرپرستی کیا کرتے تھے جو عوام کو یہ باور کرایا کرتے تھے کہ بادشاہ کی بلا مشروط اطاعت ہی اطاعتِ خداوندی ہے۔ جب کوئی نیا غاصب آجاتا تھا تو وہ اسے خدا کی طرف سے بھیجا ہوا نجات دہندہ قرار دینے لگتے تھے۔ ایسے منافقت اور سازشوں سے بھرے ماحول میں ترقی اور علم و تحقیق کے دروازے کیسے کھُل سکتے تھے اور کوئی اگرایسی جرات کرتا تو اسے کافر یا مرتد قرار دینے کا پورا سامان موجود ہوتا تھا کیونکہ برسرِ اقتدار طبقہ اسے اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگتا تھا، گلیلیو، ابنِ رُشد، ابنِ خلدون اور بہت سے دانشوروں اور سائنسدانوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

آج سے کچھ صدیاں پہلے تک ساری دنیا اقتدار کی اس جنگ کا ایندھن بنی ہوئی تھی کبھی یہ جنگ انتقام اور نفرت کے نام پر لڑی جاتی تھی اور کہیں مذہب اور روایات کے نام پر۔ حالانکہ مذہب کے نام پر جنگ سب سے بڑا مذاق ہے کیونکہ دنیا کا ہر مذہب جنگ کو روکنے اور دنیا میں امن قائم کرنے کا داعی ہے۔ اسلام میں سب سے اچھے انسان کو مومن کہا گیا ہے جس کا مطلب ہے امن قائم کرنے والا اور اسلام کا بذاتِ خود مطلب بھی سلامتی اور امن ہے۔ انسانوں کو صدیوں کی اس لاقانونیت، انتشار اور افراتفری سے بچانے کے لیے کچھ صدیاں پہلے امریکہ اور یورپ میں ’’جمہوریت‘‘ نام کا نظامِ حکومت اپنایا گیا جس میں پُرامن طریقے سے اقتدار کے حصول اور منتقلی کو یقینی بنایا گیااور اقتدار کے حصول کے لیے عوام کی اکثریت کی حمایت کو لازمی قرار دیا گیا۔ کیا یہ کام وہاں اچانک رونما ہوکر بلوغت تک جا پہنچا؟ کیونکہ ہمارے آمریت پسند دانشور، تجزیہ نگار، مذہبی رہنما اور فوجی حکمران ہمیشہ ان ممالک کی مثالیں دیتے ہیں جہاں جمہوریت صدیوں سے رائج ہے۔ انہوں نے بھی اپنے اپنے وقتوں میں جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء، جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں سے مقابلہ کیا ہے جو جنرل پرویز کی طرح کھل کر کہتے تھے کہ جمہوریت ہمارے ملک کے لیے مناسب نہیں۔ لیکن وہاں اور ہمارے ہاں فرق یہ ہے کہ وہاں بحث مباحثہ ہوتا رہا لیکن کسی نے جمہوریت کو ڈی ریل نہیں کیا چنانچہ جیسے جیسے اُن ممالک میں جمہوریت مستحکم ہوتی گئی۔ وہاں معاشرے میں وہ امن اور سکون پیدا ہوتا گیا۔ جو انسانی ترقی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آمرانہ ادوار کے وہ ادارے بھی ختم ہوگئے جن کا کام ہی انسانی شعور اور ترقی کو آگے بڑھنے سے روکنا ہوتا ہے۔ پھر ان جمہوری ممالک نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہاں صرف جمہوریت ہی نہیں جمہوری کلچر بھی ہے جس کے بغیر جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکتی اور جمہوری کلچر آمریت کی نرسری میں پرورش پانے والے پیدا نہیں کر سکتے۔ ہمیں اپنے سیاستدانوں کی نا اہلی اور کرپشن پر بجا طور پر اعتراض ہے لیکن کیا اس کا حل آمریت ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہم سے زیادہ آمریت کا زخم خوردہ کون ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ جمہوریت کے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار ہمیشہ کے لیے ہٹا دی جائے اور حقیقی جمہوری عمل کو رواں دواں کیا جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)