نئی SME پالیسی۔ عمل درآمد ایک چیلنج ہے !

January 28, 2022

وزیراعظم عمران خان نے پچھلے دنوں نئی SME پالیسی کاا علان کیاہے جو عملاً2007/8کے بعد دوسری باقاعدہ پالیسی کہی جا سکتی ہے۔ نئی پالیسی میں ملک میں چھوٹی صنعتوں کے فروغ کے لیے اور ا س میں سرمایہ کاری کے لیے بہت سی نئی ترغیبات دی گئی ہیں اس پالیسی پر عملدرآمد کیلئے سمیڈا کو ساری ذمہ داری سونپی گئی ہے، یہ ادارہ 25/30 سال پہلے بنایا ہی اسی لیے گیا تھا۔ شروع میں اس ادارے نے بڑا فعال کردار ادا کیا لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ جو حال دیگر سرکاری اداروں کا ہوا اسی صف میں سمیڈا بھی شامل ہو گیا ہے جو کارکردگی اور سروسز کے لحاظ سے فاسٹ ٹریک سے نکل کر سست رو ٹریک پر چلا گیا حالانکہ یہ ادارہ ایک زمانے میں ڈونر اداروں کا فیورٹ رہ چکا ہے یہاں مختلف صنعتی شعبوں کی ریسرچ رپورٹس کو سب سے اہم اور موثر سمجھا جاتا تھا پھر اس ادارے کے ساتھ کیا ہوا،وہی جو سرکاری اداروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نئی SME پالیسی کا اصل کام USAID کی ٹیم کافی عرصہ سے کر رہی تھی اور عملاً اسے اس کا ماڈل کہنا بجا ہو گا مگر اس کے اعلان کے وقت اسلام آباد نے سارا کریڈٹ ہائی جیک کر لیا۔ اس حوالے سے اب آگے کیا ہوتا ہے ؟ یہ بھی ممکن ہے کہ غیر ملکی امدادی ادارے پاکستان کی مزیدسپورٹ نہ کریں۔ اس سب کے برعکس نئی پالیسی میں کچھ ایسے موثر اور قابل عمل اقدامات کئے گئے ہیں جس سے پاکستان عملاًSMEکے میدان میں ترقی اوروسعت پیدا کر سکتا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک جن میں امریکہ، لندن سے لے کر یورپ، آ سٹریلیا، حتیٰ کہ بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا وغیرہ کی معیشت کا زیادہ انحصارSME سیکٹر پر ہی ہے جس سے وہاں غربت کم ہو تی ہے اور متوسط طبقہ کے معاشی حالات میں بہتری بھی آئی ہے۔ پاکستان میں بد قسمتی سے SMEسیکٹرکو وہ اونر شپ نہیںملی جو ملنی چاہیے تھی۔ اب ہو سکتا ہے کہ نئی پالیسی پر مکمل عملدرآمد کی صورت میں یقینی طور پر بہتر نتائج حاصل ہو سکیں گے۔ نئی پالیسی میں پہلی بار سرمایہ کاری کی حد ایک کروڑ روپے کی گئی ہے جبکہ اس پرٹیکس کی شرح 35فیصد سے کم کر کے 7.5فیصد اور15فیصد کر دی گئی ہے۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ FBR کے انسپکٹرز کا SMEسیکٹر کے ٹیکس معاملات میں کوئی دخل نہیں ہو گا انہی انسپکٹرز سے کاروباری اور صنعتی اداروں کی اکثریت نالاں اور خوف زدہ ہے جس سے SMEسیکٹر بچ گیا ہے۔ سرکاری دستاویز کے مطابق پاکستان میں 30ہزار کے قریبSME ہیں جس میں زراعت، ڈیری، کیمیکل، چمڑا غرض ہر صنعت بالواسطہ اور بلا واسطہ طور پر وابستہ ہے۔ نئی پالیسی میں SMEصنعتوں کے لیے 42سو ایکڑ رقبہ اور19500پلاٹ مختص کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اللہ کرے اس پر بڑے صنعتی گروپوں کا قبضہ نہ ہو جائے جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ پالیسی میں ٹرن اور ٹیکس کی شرح کم کرنا اچھا اقدام ہے اورNOC کی شرط کا خاتمہ اور صرف 30دن میں کسی بھی منصوبے کی منظوری کا فیصلہ بہترین قرار دیا جا سکتا ہے لیکن معاشی ماہرین کو خدشہ ہے کہ پاکستان میں اس اچھی پالیسی کے باوجود اس کے سارے اعلانات پر عمل درآمد ہونا یقینی نہیں ۔ پاکستان کی بیوروکریسی اور ریگو لیٹر جن میں بینک اور ٹیکس لینے والے ادارے بھی شامل ہیں،اتنی آسانی سے قربانی دینے اور SME سیکٹر کے لیے دروازے کھولنے والے نہیں ہیں یہ وہ چیلنج ہے جس کو ہینڈل کرنا کسی بھی سیاسی حکومت اور سمیڈا جیسے ادارے کے لیے ممکن نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پاس ایسی صلاحیت ہے کہ وہ پالیسی کے تمام نکات پر عمل درآمد کرا سکیں اس لیے پہلے تو سمیڈا اور دیگر اداروں کی Capacity Building کے لیے اقدامات کئے جائیں وہاں پاکستان ریلوے کی طرح کام کرنے کا کلچر ختم کرنے کے لیے نئی اصلا حات اور ٹیم کی ضرورت ہے۔ایسے ادارے مزید فعال ہونے سے ملک میں معاشی ترقی اور حکومت کے اقتصادی اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل درآمد میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ یہ پالیسی متعلقہ حکومتی اداروں کے لیے ایک چیلنج ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ چند ماہ بعد پالیسی پہلے کی طرح سرکاری اداروں کے شیلف میں چلی جائے گی یاعملًااس کے فوائدہماری معیشت اور عوام کو ملتے نظر آئیں گے۔