پاکستان کی وادیاں

February 10, 2022

یوں تو دسمبر سے قبل از وقت ہی پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں برف باری کا آغاز ہو جاتا ہے، مگر لوگ اس سے لطف اندوز ہونے کیلئے موسم سرما کی چھٹیوں کا انتظار کرتے ہیں ،سب سے پہلا سوال یہی آتا ہے کہ کس ہل اسٹیشن کا رخ کیا جائے کیوںکہ خدا نے پاکستان میں کئی ایسے مقامات کو رنگ و روپ بخشا ہے جہاں برف سے ڈھکے پہاڑ،جنگلات ،منجمد ،ندی نالے اور آبشاروں کے نظارے مبہوت کر دیتے ہیں۔

مری اور گلیات کے آسان راستے

ان مقامات تک رسائی کرنا مشکل نہیں جب اور جس کا جی چاہے وہ ملک کے کسی حصے سے یہاں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے ،خاندان کے پرے کے پرے راولپنڈی کے مری روڈ پر قافلوں کی صورت رواں دواں دکھائی دیتے ہیں، بہترین سڑک اور سہولتوں سے آراستہ ان جگہوں پر کسی قسم کا ڈر خوف نہیں ہوتا اب تو سندھ کے شہر روہڑی سے بننے والی موٹر وے نے مزید آسانیاں کر دی ہیں، اگر آپ اکیلے ہیں تو راولپنڈی سے مری جانے کے لئے محض 180کرایہ دے کر ان خواب ناک منزلوں کو پالیں گے جو خوش نصیبوں کے حصے میں آتی ہیں، مری کا مال روڈ ایک یورپی اسٹریٹ کی طرح پر رونق اور خوبصورت ہے، دکاندار حضرات برف کے انبار جمع رکھتے ہیں، جسے دیکھنا بچوں کی خواہش ہوتی ہے، کافی اور آئس کریم کے اسٹالز پر اڑتی مہک قدم کھینچتی ہے کہیں اچانک برف باری شروع ہو جائےتو ایک شور سا مچ جاتا ہے ،آنے والے مہمان اپنی خوش قسمتی پرنازاں دکھائی دیتے ہیں۔

ایک دوسرےکے سروں پر برف کے گولے پھیکے جاتے ہیں، زیادہ پرجوش سیاح مال روڈ سے آتے ،پنڈی پوائنٹ اور کشمیر پوائنٹ کا بھی رخ کرتے ہیں۔ پنڈی پوائنٹ پر ایک چیئر لفٹ بھی قائم ہے جو سیاحوں کو نیچے بانسرہ گلی تک پہنچاتی ہے یہاں جنگل کی خاموشی میں روئی کے گالوں جیسی برف درختوں اور راستوں کو سفید کر دیتی ہے۔ مری میں اس دوران پندرہ سو سے دو ہزار روپے میں رہنے کیلئے بآسانی کمرے مل جاتے ہیں جس میں ہیٹر اور گیزر کی سہولت ہوتی ہے۔

ہنی مون منانے والے نوے فیصد افراد مری کا رخ کرتے ہیں،مری کی گہما گہمی سے تنگ آئے ہوئے لوگ بھوربن، نتھیا گلی، ایوبیہ بھی چلے جاتے ہیں، جہاں لوگوں کی کمی کے باعث ہر سو خاموشی کا راج رہتا ہے۔ نتھیا گلی کے جنگلات میں مہندی کی مانند رنگ لئے پتے گرنے لگتے ہیں، بندر پوائنٹ پر ایک پکنک کا سماں ہوتا ہے۔ سیرو تفریح کے لئے آنے والے جنگل میں شرارت کرنے والے بندروں کی حرکتوں سے محظوظ ہوتے ہیں جو ان سے کھانے کی اشیاء چھین کر تیزی سے درختوں میں جا کر چھپ جاتے ہیں، ان دنوںگلیات میں برف باری سے لطف اندوز ہونے کے لئے کسی قسم کی پریشانی نہیں۔

مری سے گلیات تک جانے کیلئے دو راستے ہیں، ایک راستہ آزاد کشمیر کی طرف اترتا ہے جبکہ دوسرے راستے کے اختتام پر ایبٹ آباد ہے، دریا گلی، کالی مٹی، باڑیاں ، خیرا گلی، چھانگلہ گلی ،کوزہ گلی ،ایوبیہ ،خانس پور ،ڈونگا گلی سے سے ہوتے ہوئے ٹھنڈیانی، پہنچا جا سکتا ہے، اسی طرح جھیکا گلی ،کشمیری بازار ،بھوربن، روات،اوچھا، اوسیا، اپر دیول، بیروٹ پر باسیاں سے گزر کر کوہالے کے راستے آزاد کشمیر کی سرحد ملتی ہے۔ یہ تمام راستے مری سے دو تین گھنٹے میں بآسانی طے کئے جا سکتے ہیں۔

کشمیر کے برف پوش پہاڑ بلاتے ہیں

کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کیلئے بھی راولپنڈی سے سواری مل جاتی ہے۔ نئی اور آرام دہ بسیں، کوچز ،پانچ چھ سو روپے کرائے لے کر اس فردوس بریں میں پہنچاتی ہیں جسے کشمیر کہتے ہیں، مظفر آباد سے پیر چناسی کے بل کھاتے راستوں میں سفر کرنا ایڈونچر ہے۔ یہاں دس ہزار سے زائد فٹ کی بلندی پر حسین شاہ بخاری کا مزار برف میں گم دکھائی دیتا ہے، بادلوں کے مرغولے ہٹتے ہی اس کا خوابیدہ حسن لو دینے لگتا ہے، نیچے کی طرف پھیلے جنگلات سے ایک پراسرار گونج سنائی دیتی ہے، یہاں بلند ترین چراگاہیں پھیلی ہیں، جو برف کی وجہ سے دکھائی نہیں دیتیں،چونکہ مزار کے آس پاس پھرنے کا کوئی انتظام نہیں۔

اس لئے سیاح واپس مظفر آباد کا رخ کرتے ہیں، ایک اور وادی نیلم کا حسن بھی برف کے بوجھ تلے نیلا پڑ جاتا ہے۔ دریا پر آسمان کا عکس پڑے تو حسن و خوبصورتی کا ایک طوفان لئے ہوتے ہیں ،یہاں لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف کھڑے کشمیریوں کے جذبات کنٹرول کئے جاتے ہیں وہ ایک دوسرے کو خط لکھ کر دریا کے پار اچھالتے ہیں، اس جگہ کو میٹنگ پوائنٹ بھی کہتے ہیں، برف باری ہوتے ہی یہاں بھی کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے، گھر، دکانیں ،راستے سب برف میں اٹ جاتے ہیں، ایک گہری اداسی اور خاموشی اندھیرے کی صورت پھیلنے لگتی ہے۔

کاغان ناران کی خاموشیاں

جون جولائی میں ناران کی رونقیں عروج پر ہوتی ہیں، ریسٹورنٹ اور کھانے پینے کی دکانوں میں ایک شور مچا رہتا ہے، تکے اور مچھلی کی خوشبو روک لیتی ہے ۔انڈے اور گرم پکوڑے دامن تھام لیتے ہیں مگر دسمبر میں یہاں ایک مرگ سکوت طاری رہتا ہے۔ تین ہزار ہوٹلوں میں ایک آدھ ہی شایدکھلا مل جائے،کاغان سے آگے ناران جانے والے راستے میں ہی برف سے ڈھکی درختوں کی شاخیں ہاتھ ہلا کر واپسی کے اشارے کرتی ہیں مگر مشکل پسند سیاح ناران پہنچ کر دم لیتے ہیں، ہوٹل کے دروازوں پر تالے اور زنجیریں دیکھ کر انہیں مایوسی ہوتی ہے۔

وہاں رات گزارنا جان جوکھوں کا کام ہے ،سردی ہڈیوں میں سرایت کر جاتی ہے،جھیل سیف الملوک جانے والے صبح تڑکے جیپ میں بیٹھ کر دوپہر تک واپسی کی راہ لے لیتے ہیں ان حالات میں جیپ کا کرایہ ڈھائی ہزار سے بڑھ کر ساڑھے تین ہزار ہو جاتا ہے مگر یہ ایک بہترین سودا ہے، برف کے ان دنوں میں جھیل دیکھنے والے سجدہ شکر بجا لاتے ہیں ،خوشی سے ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، یہ ایک ناقابل یقین منظر ہوتا ہے، جب طویل انتظار کے بعد محبوب کی کھڑکی کھل جائے ،اس دیدار کی آس لئے جھیل کے راستوں کی پرواہ نہیں کی جاتی ،نوجوانوں کی ٹولیاں برف باری کے دوران پیدل بھی چل پڑتے ہیں ،یہاں سے آگے جل کھڈ، بٹہ کنڈی، اور بابو سر ٹاپ جانے کیلئے گاڑیوں کا راستہ بند ہے، جو اب مئی میں کھلے گا، واپسی میں شوگران کے بلند پہاڑی کی سیر بھی کی جا سکتی ہے ،اس راستے میں صرف جیپیں چلتی ہیں، یہاں بھی برف باری سے لطف اندوز ہونے کیلئے دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں ،رہائش کیلئے چند ہوٹل کھلے مل سکتے ہیں۔

سوات اور چترال کے دلکش نظارے

یہاں جانے کیلئے بہترین کوسٹرز اور ویگن چلتی ہیں جو پنڈی سے محض آٹھ گھنٹے سے کالام پہنچا دیتی ہیں، کرایہ ایک ہزار روپے یہاں بھی ناران کی طرح ہوٹل اور بازار بند رہتے ہیں، برف باری دیکھنے کے شوقین بحرین میں کمرہ لے کرہی سویرے جھیل مہوڈھنڈ تک جا سکتے ہیں۔

کالام سے جھیل جانےکےلئے جیپیں ہی چلتی ہیں جن کا کرایہ پانچ ہزار تک ہے اور آٹھ افراد بآسانی بیٹھ سکتے ہیں، یہ ایک دلچسپ اور بھرپور ایڈونچر ہے،کالام کے سیاہ جنگلات سے نکلتے ہی اشو اور مٹلتان کے گائوں برف میں دکھنے لگتے ہیں، یہاں قصبے کے بازار میں ذرا سی چہل پہل رہتی ہے۔ ایک بڑے الائو کے گرد ہاتھ سینکتے سواتی جھیل جانے والے سیاحوں کو دیکھ کر مسکرانے لگتے ہیں، پلوگا کے مقام پر جیپوں میں پانی وغیرہ ڈالا جاتا ہے۔

یہ ایک دشوار گزار اور پتھریلا راستہ ہے کہیں جیپ رک جائے تو بچوں کی ٹولیاں اسے گھیر لیتی ہیں ،پیسے مانگنے کیلئے گیت بھی سنا دیتے ہیں، تم چلے آئو پہاڑوںکی قسم، ان کا پسندیدہ گانا ہے، جھیل مہو ڈھنڈ ایک سفید پری کی صورت نمودار ہوتی ہے، دور تک پھیلے پانی میں برف کے ڈلے تیرتے دکھائی دیتے ہیں، جیپ سے اترتے ہی گھٹنوں گھٹنوں برف میں دھنستے لگتے ہیں، بہتر ہے کہ یہاں تیاری کے ساتھ آیا جائے۔

گرم کپڑوں کے علاوہ دستانے مفلر لازمی پہن کے جائیں، یہاں کیمپنگ بھی کی جا سکتی ہے، رات تو ٹھٹھرتے ہوئے گزرتی ہے مگر دن کی روشنی میں یہ علاقہ ایک جادو نگری کی صورت میں جاگ اٹھتا ہے، حسین ترین موسم برف سے ڈھکے جنگلوں میں سیٹی بجاتی ہوائیں، منجمد آبشار دیکھ کر سیکڑوں تصویریں کھینچنے کا دل چاہتا ہے۔

جنگل کے کناروں پر یہاں کے مہمان نواز کوہستانی چائے خانے کی عافیت میں سیاحوں کا استقبال کرتے ہیں۔ وہ پکوڑے کی پلیٹ بڑھا کر ،کہتے ہیں گھبرائیں نہیں، صاحب اصل خطرہ تو انسانوں کو انسانوں سے ہے، یہاں جنگلی درندے ضرور ہیں، مگر وہ کوئی نقصان نہیں پہنچاتے۔

اسی طرح سوات سے واپسی میں دیر کے راستے گزر کر کمراٹ اور چترال کی وادیوں میں بآسانی جا سکتے ہیں، موٹر وے کے فیض سے یہاں کاروبار زندگی رواں دواں ہے، لواری ٹاپ کی سرنگ سے گزر کر کیلاش بھی پہنچا جا سکتا ہے، جہاں سیاہ لباس میں ملبوس دوشیزائیں برف کی سفیدی میں گم ہو جاتی ہیں، یہاں دسمبر کے آخری ہفتے سال نو کا تہوار بھی دیکھا جا سکتا ہے جیسے ہم قدیم زمانوں میں پہنچ گئے ہوں۔

گلگت ہنزہ ۔ایک طویل سفر

ہنزہ اور دیگر شمالی علاقوں میں برف باری دیکھنے کیلئے کافی وقت لگتا ہے، بابو سر ٹاپ بند ہونے کے باعث قراقرم ہائی وے پر ٹریفک کا زور بڑھ جاتا ہے اور ایبٹ آباد سے تھاکوٹ ،داسو، کمیلا، پتن، اور چلاس سے گلگت تک اٹھارہ سے بیس گھنٹے لگ جاتے ہیں، گلگت سے ہنزہ مزید تین گھنٹے میں پہنچتے ہیں، ہنزہ کی پتھریلی گلیوں میں پیدل چلنے کا الگ مزہ ہے، یہاں کے بچے بوڑھے، انگریزی میں خوش آمدید کہیںگے، رنگین ٹوپیوں کو کاڑھتی بوڑھی ،خواتین سیاحوں کو دیکھ کر ہنسنے لگتی ہیں، یہاں پہنچنے والے باہمت ہیں جو نہ صرف ہنزہ بلکہ اسکردو، شگر، خپلو، اور خنجراب تک ناپ آتے ہیں۔

زیارت ،ایک خوبصورت خواب

بلوچستان کے برفانی علاقوں میں کان ہنر زئی،ژوب ،مسلم باغ میں سب سے معروف اسٹیشن زیارت کا ہے، جو قائد اعظم کی آخری قیام گاہ ریذیڈنسی ہے ویسے تو ایک بزرگ خرواری بابا کے نام منسوب ہے۔ یہ جنگلات کے درمیان اونچے نیچے راستوں، پرسکون ریسٹ ہائوس اور جنگلوں سے آراستہ ہے، صنوبر کے درختوں سے پھوٹتی خوشبو برف کے دنوں میں اور تیز ہو جاتی ہے۔

یہاں شفاف چشمے ، اور گنگناتی ہوائیں سیاحوں کو بلاوے بھیجتی ہیں، ملک کے مختلف شہروں سے آنے والے بلوچستان کے متعلق وسوسوں اور خوف کا شکار رہتے ہیں مگر جب یہاں پہنچ کر مقامی افراد کی مہمان نوازی دیکھتے ہیں تو سارے خدشات دور ہوجاتے ہیں۔