بلدیاتی جنگ: حکومت اور اپوزیشن کیلئے سیاسی امتحان سے کم نہیں

February 17, 2022

خیبرپختونخوا میں حکمران کی جماعت کی تمام ترکوششوںکے باوجود بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے نظر ثانی شدہ شیڈول جاری ہوچکاہے، جس کےلیے ایک طرف الیکشن کمیشن کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں تو دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں مگر اس سے قبل صوبے کے بارہ اضلاع میں ان نشستوں پر ضمنی انتخابات کامرحلہ بھی پایا تکمیل تک پہنچ چکاہےجن میں حکمران جماعت اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو بچانے میں کسی حد تک کامیاب ہوگئی تاہم ان کی روایتی حریف جے یو آئی صوبے میں بدستور دوسرے نمبر پر رہی۔

ان ضمنی انتخابات میں مجموعی طورپر حکمران جماعت تحریک انصاف نے سات نشستوں پر کامیابی حاصل کی جن میںڈی آئی خان کے علاوہ بنوں، باجوڑ، جہانگیرہ اوار نوشہرہ کے علاوہ ضلع کرکی دوکونسلز شامل ہیں، سٹی میئر پشاور کے علاوہ تحصیل پشتہ خرہ پشاور،ضلع خیبر، باجوڑ ،مہند بکا خیل بنوںسمیت چھ نشستیں جے یوآئی کے حصے میں آئیں تاہم ضمنی انتخابات میںاے این پی صرف ایک نشست تحصیل خدوخیل کی نشست جیتے میں کامیاب رہی۔

لگتا ہے کہ اب کی بار حکومت اور اپوزیشن الیکشن کمیشن کی جانب سے31مارچ کوہونے والےبلدیاتی انتخابات کے دوسرے اورفیصلہ کن مرحلے کے لیے پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اترے گی، حکومت نےبلدیاتی انتخابات کے نتائج اور حکمران کی جماعت کی بدترین شکست کے باعث بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ ملتوی کرانے کے لیے ایڑی چوڑی کا زور لگارہی ہے اس مقصد کے لیے قانونی راستہ بھی اختیار کرکے عدالت سے حکم التو ابھی حاصل کی گئ مگر سپریم کورٹ نے مذکورہ حکم امتناعی کو معطل کیا جس کےبعد الیکشن کمیشن کو ان انتخابات کےانعقاد کے لیے نظر ثانی شدہ شیڈول جاری کرنا پڑا کیونکہ الیکشن کمیشن ہرصورت اپنے شیڈول کے مطابق انتخابات کرانا چاہتا ہے۔

حکمران جماعت کی بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلہ میں رخنہ ڈالنے اوران میں تاخیر کی کوششوں کے باوجود الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ہونےوالے نظر ثانی شدہ شیڈول کے مطابق صوبے کے 18اضلا ع میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں پولنگ 31مارچ کو کرائی جائے گی،جس کے لیے ایک طرف الیکشن کمیشن کی جانب سے بھرپور تیاریاں جاری ہیں تو دوسرے حکومت اور اپوزیشن بھی اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف نظر آرہی ہے خصوصاً حکمران جماعت کے لیے بلدیاتی انتخابات کاد وسرا مرحلہ کسی سیاسی امتحان سے کم نہیں اوروہ بلدیاتی انتخابات کےدوسرے مرحلے میں کامیابی حاصل کرنے صوبے میں اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ بحال کرنے کی کوشش میںہے، کیونکہ بلدیاتی انتخابات سے عوام نے بڑی توقعات وابستہ کررکھی ہیں۔

اگر چہ صوبائی حکومت مختلف مواقعوں پر عوام کے فلاح و بہبود کے متعدد منصوبوں کا اعلان کرچکی ہے اور کئی میگا منصوبوںپر کام شروع کرنے کا دعویٰ بھی کیا جارہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ طویل المدت منصوبے ہیں جس کےدور رس نتائج برآمد ہونگے، عوام کو ریلیف ملے گا ،مہنگائی اور غربت میں کمی آئیگی لیکن وفاقی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے صوبائی حکومت کے ان منصوبوں کے ثمرات ابھی تک سامنے نہ آسکے کیونکہ وفاقی حکومت کی پالیسیاں روز انہ کی بنیاد پر بدلتی رہتی ہیں،جو اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان ہوتے ہی ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں از خود اضافہ کیا جاتا ہے۔

حکومت کا انتظامیہ پر گرفت اس قدر کمزور ہے کہ ان کے پاس ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر بیورو رکریسی کی جانب سے فراہم کردہ کاغذی اعداد و شمار پرہی اکتفاء کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارا ہی نہیں اور شائد یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت آئے روز اعلیٰ افسران کے تبادلوں قبل ازوقت احکامات جاری کرنے پر مجبورہے، دوسری بڑی وجہ جو بیورو کریسی میں تناو کا باعث بنی ہے وہ جونئیر منظور نظر اور سفارشی افسران کو سینئر افسران پر فوقیت دیکر سینئر کو ماتحت بنایا جارہا ہے جوکام کرنے والے اعلیٰ افسران کی حوصلہ شکنی کا باعث بن رہی ہے۔

ابھی سے ان اضلاع کے افسران کے تبادلوں کا سلسلہ شروع کیا گیا جہاں اپوزیشن کے اُمیدواروں کو عوام نے منتخب کیا ہے، ا س سے یہی تاثر ابھرنے لگا ہے کہ مستقبل میں ان اضلاع اور تحصیلوں کے منتخب لوگوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، جو اپوزیشن جماعتوں سے منتخب ہوکر آئے ہوں کیونکہ حکومتی جماعت کے مطابق یہی لوگ آنیوالے عام انتخابات میں ان کے اُمیدواروں کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔

اپوزیشن جماعتیں بھی آنیوالے بلدیاتی انتخابات کیلئے متحرک ہیں، حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے برابر جلسے اور اجتماعات منعقد کئے جارہے ہیں ان جلسوں میں دونوں جانب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے کے خلاف الزامات لگانے میں مصروف ہیں اپوزیشن جہاں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے وہاں وہ عوام کو مسائل کے اس گرداب سے نکالنے کیلئے کوئی متبادل پروگرام بھی تاحال سامنے نہ لاسکی، بلکہ ایسا لگ رہا ہے کہ جب یہی اپوزیشن اقتدار میں آئیگی تو وہ خزانہ خالی ہونے اور پی ٹی آئی کے حکمرانوں کو مورد الزام ٹھہرانے کا راگ الاپ کر پی ٹی آئی کی طرح اپنی مدت الزامات اور چور چورکے نعروں کی گونج میں پورا کریگی ۔