پختونخوا حکومت: تحریک انصاف آخری مورچہ بچا کے رکھنا چاہتی ہے

April 21, 2022

پاکستان تحریک انصاف بحیثیت جماعت عمران خان حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد سے مسلسل مشتعل دکھائی دے رہی ہے، تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے جس قسم کے اشتعال انگیز بیانات جاری کئے جارہے ہیں اور جس طرح سوشل میڈیا کے ذریعے بیرونی مداخلت کا ایک بیانیہ تشکیل دیا گیا ہے اس نے یقیناً پارٹی کے لاکھوں کارکنوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور کارکنوں کا یہ بڑھتا ہوا اشتعال گزشتہ دنوں پشاور میں منعقدہ جلسہ عام میں واضح طور پر دکھائی دیا، خیبر پختونخوا چونکہ روایتی طور پر تحریک انصاف کا ایک مرکز سمجھا جاتا ہے۔

اس لئے تحریک انصاف ہمیشہ یہ کوشش کرتی ہے کہ کسی بھی ملک گیر تحریک کا آغاز خیبر پختونخوا سے کیا جائے کیونکہ یہاں پر پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی مدد سے کوئی بھی بڑا شو کرنے میں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور پہلے شو کی کامیابی ظاہر ہے پھر مستقل کے دیگر پروگراموں پر مثبت طور پر اثرانداز ہوتی ہے چنانچہ سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے عدم اعتماد کا نشانہ بننے کے بعد ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز بھی پشاور سے کیا، پشاور میں جلسہ کا اعلان کرنے کے بعد ظاہر ہے پوری صوبائی حکومت اور متعلقہ محکموں نے سرگرم ہونا تھا۔

پارٹی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزرا، مشیروں ، معاونین، پارلیمانی سیکرٹریز اور ارکان قومی و صوبائی اسمبلی بھی جلسے کی کامیابی کےلئے کھل کر میدان میں نکلے، پشاور جیسے بڑی آبادی والے شہر میں افطار کے بعد لوگوں کو جمع کرنا یقیناً کوئی بہت بڑا ٹاسک بھی نہیں تھا یہی وجہ تھی کہ تحریک انصاف کے جلسہ میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور اس شرکت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ پارٹی کارکنان حکومت سے فارغ ہونے کےبعد عمران خان کے منہ سے بہت کچھ سننا چاہ رہے تھے۔

وہ بعض حقائق سننے کیلئے جلسہ گاہ میں بڑی تعداد میں جمع ہوگئے تھے، اگر عمران خان کے جلسہ سے خطاب کا جائرہ لیا جائے تو شروع میں تو ان کا لب و لہجہ خاصا متوازن دکھائی دے رہا تھا مگر اس کے بعد وہ جلسہ گاہ میں گونجنے والے نعروں کی زد میں آتے گئے اور بتدریج ان کا لب و لہجہ تلخ ہوتا گیا، اگرچہ مبصرین کے مطابق عمران خان کی طرف سے کوئی خاص اور نئی بات سامنے نہیں آئی البتہ انہوں نے یہ اعلان کیا کہ جب تک ملک میں نئے انتخابات کا انعقاد نہیں کیا جاتا وہ موجودہ حکومت کے خاتمے تک احتجاجی تحریک چلا تے ہوئے سڑکوں پر رہیں گے ، پشاور اور کراچی کے بعد اب لاہور میں بھی میدان گرم کئے جانے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔

ان ہی حالات میں تحریک انصاف نے ایک اور اہم فیصلہ کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفے دئیے تھے جو بعد ازاں قائم مقام اسپیکر قاسم سوری نے منظور کرکے اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ، ان استعفوں کے معاملہ پر بھی ابھی پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں کیونکہ سابق اسپیکرایاز صادق یہ کہہ چکے ہیں کہ کسی بھی رکن کو استعفیٰ اپنے ہاتھ سے لکھنا پڑتا ہے اور پھر اس کی تصدیق کیلئے اسپیکر کے سامنے حاضری بھی لازمی ہوتی ہے۔

گویا اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ نئے اسپیکر ان استعفوں کی منظوری کو روک سکتے ہیں تاہم اگر استعفے منظور ہوجاتے ہیں تو اس بات کے کافی امکانات ہیں کہ تحریک انصاف کے منحرفین میں سے کسی کو اپوزیشن لیڈر مقرر کردیا جائیگا اور اسی خدشے کے پیش نظر پارٹی چیئرمین عمران خان نے اسپیکر کے نام ایک خط میں اس امر کی وضاحت کی ہے کہ تحریک انصاف کے مستعفی ہونے کے بعد کسی بھی دوسرے رکن کو پاکستان تحریک انصاف کا نام استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔

لیکن شاید وہ یہ بھول چکے ہیں کہ اب تیر ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور اب انہیں وفاقی حکومت کی وکٹ پر ہی کھیلنا پڑے گا ،اس سے قبل اس بات کے خدشات ظاہر کئے جارہے تھے کہ پاکستان تحریک انصاف شاید صوبائی اسمبلیوں سے بھی استعفوں کا ارادہ رکھتی ہے لیکن ابھی تک جو حالات سامنے آئے ہیں ان سے لگتا ہے کہ تحریک انصاف خیبر پختونخوا حکومت کی صورت میں اپنا آخری مورچہ ہر قیمت پر بچائے رکھنا چاہتی ہے۔

ظاہر ہے کہ بعض معاملات میں وفاقی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے بھی صوبائی حکومت کو استعمال کیا جاسکتا ہے ، مشترکہ مفادات کونسل کے پلیٹ فارم کے ذریعے متفقہ فیصلوں کیلئے وفاقی حکومت کو خیبر پختونخوا حکومت کا خیال رکھنا پڑے گا اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران وفاق میں اپنی حکومت کے ہوتے ہوئے صوبہ کے حقوق کے حوالے سے جو آواز نہ اٹھا سکی تھی اور مسلسل خاموش چلی آرہی تھی اب کم از کم پوائنٹ سکورننگ کیلئے وہ ان معاملات پر جارحانہ انداز میں کھیلے گی۔

خیبر پختونخوا حکومت کو چونکہ صوبائی اسمبلی میں کوئی خطرہ نہیں، اپوزیشن جماعتیں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاکر واپس بھی لے چکی ہیں اور وزیر اعلیٰ محمود خان صوبائی اسمبلی سے بھاری اکثریت سے اعتماد کا ووٹ بھی لے چکے ہیں، اس لئے خیبر پختونخوا حکومت کو اپنے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے معاملہ میں بھی کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑسکتا بہرحال چونکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھتا جارہا ہے اور عمران خان کے مزاج کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کب وہ صوبائی اسمبلیوں سے بھی مستعفی ہونے کا اعلان کردیں۔

چنانچہ خیبر پختونخوا حکومت نے صوبہ میں جاری اہم ترین اور میگا ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کےلئے حکمت عملی بھی وضع کرلی ہے اور اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے تمام متعلقہ صوبائی محکموں کو تحریری ہدایت جاری کردی ہے کہ بڑے ترقیاتی منصوبوں پر کام کی رفتار کو تیز تر کیا جائے، ظاہر ہے کہ وزیر اعلیٰ محمود خان جنہوں نے کئی میگا منصوبوں کی تکمیل کے بعد ان افتتاح اپنے ہاتھوں کرنا تھا وہ ہر صورت یہ افتتاح اپنے ہاتھوں سے کرنا چاہیں گے، اگلے انتخابات سے قبل بعض منصوبوں کی تکمیل کیساتھ ساتھ اہم منصوبوں پر کام کا آغاز بھی تحریک انصاف کیلئے اہم ہوچکا ہے۔