اب مائیں بھی بدل گئیں ہیں

May 06, 2022

’’ماں ‘‘ دنیا کا وہ واحد رشتہ ہے جو بچے کی پیدائش کے وقت اس کے ساتھ ہوتا ہے، کیوں کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے کسی بچے کے والد اس کی پیدائش سے پہلے ہی وفات ہوچکے ہوتے ہیں ، بہت سے بچوں کے بہن بھائی نہیں ہوتے ، دادا دادی، نانا نانی نہیں ہوتے، ان کے علاوہ بھی کوئی خونی رشتہ نہیں ہوتا لیکن صرف اور صرف ماں اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ ’’مدرز ڈے ‘‘ ہر سال منایا جاتا ہے اور ہم جیسے لوگ اس دن ماں کی عظمت اُجاگر کرنے کےلئے مشکل مشکل الفاظ و اقوال زریں والے مضامین لکھ کر ماں کی اہمیت کے بارے میں قارئین کو بتا کر اپنا حصہ ڈالتے ہیں ۔یعنی وہی ایک جیسی باتیں جو ظاہر ہے کہ حقیقت ہیں۔ مثلاً

’’ماں ‘‘ کے قدموں تلے جنت ہے۔

’’ماں ‘‘کے بغیر گھر قبرستان لگتا ہے۔

’’ماں ‘‘ نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔

اور آخر میں ’’ ماں ‘‘ کی عزت کرو ان کا خیال رکھو جیسی نصیحتیں کرکے ہم اپنے مضمون کا اختتام کردیتے ہیں۔ اس سال جب لکھنے بیٹھی تو بار بار یہ خیال آیا کہ سالوں سے ایک جیسی باتیں پڑھ کر لوگ بھی عاجز آگئے ہوں گے، پتہ نہیں پورا مضمون پڑھتے بھی ہوں گےیا نہیں ؟ اگر ہم غور کریں تو وقت بدل چکا ہے، سائنس نے ترقی کرلی ہے زندگی تیز رفتار ہو گئی ہے وقت کے ساتھ ساتھ جب اولاد کی ترجیہات اور پسند ناپسند بدلی ہے تو ماؤں کی کیوں نہ بدلی ہوں گی۔ یقینا ًاب مائیں بھی بدل چکی ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے ان کے شوق اور دلچسپیاں بھی بدلی ہیں لیکن اگر نہیں بدلیں تو ان کی ترجیہات نہیں بدلی ہیں۔

ان کی پہلی ترجیح آج بھی ان کی اولاد ہے جو سوشل میڈیا کے دور میں اتنی مصروف ہوگئی ہے کہ اب ان کے پاس اپنی ماں کو دینے کے لئے وقت نہیں ہوتا۔ جب ماؤں نے پورے گھر کے ہاتھ میں موبائل دیکھے تو ماؤں کے ہاتھ میں بھی موبائل آگیا ہے لیکن اب اور مشکل ہوگئی ہے، کیوں کہ بہت سی ماؤں کو ابھی اینڈروئیڈ موبائل چلانا نہیں آتا اس فون کے کئی فنکشنز سیکھنے کے لئے وہ بچوں کے پیچھے پیچھے پھرنے لگی ہیں اور بچے چاہے وہ کسی بھی عمر کے ہوں خود اتنے مصروف رہتے ہیں کہ انہیں ماں کا یوں بار بار سوالات پوچھنا پسند نہیں آتا۔

ان میں اتنا تحمل و برداشت نہیں ہوتی کہ بار بار ماں کو سکھائیں کہ موبائل کیسے چلتا ہے، زیادہ تر بچے بےزاری سے ان کے ہاتھ سے موبائل کھینچتے ہیں اور جو وہ چاہ رہی ہوتی ہے کرکے دوبارہ انہیں پکڑا دیتے ہیں ان کے پاس ماں کو موبائل کے فنکشنز سکھانے کا وقت نہیں ہوتا اور یہ دیکھ کر مجھے اکثر خیال آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ماں کو کتنا صبر و تحمل عطا کیا ہے کہ وہ اپنے ننھے ننھے بچوں کے بار بار پوچھے جانے والے سوالات کا ہر مرتبہ تحمل سے جواب دیتی ہے اور جب ایک بچہ کچھ سمجھداری کی عمر تک پہنچتا ہے تو دوسرا آجاتا ہے اور پھر اس کے وہی معصومانہ سوال شروع ہوجاتے ہیں ۔

ماں ایک بچے کو ABCD اور’’ ا سے انار ب سے بکری ‘‘سکھا کر اسکول روانہ کرتی ہے تو دوسرا یہ سب سیکھنے کے لئے تیار کھڑا ہوتا ہے۔ بچوں کی تعداد کے لحاظ سے یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے لیکن ماں نہیں تھکتی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ گھریلو ذمہ داریاں بھی تندہی سے ادا کررہی ہوتی ہے۔ اگر غور کریں تو ہر ماں کی زندگی کا محور صرف اس کے بچے ہوجاتے ہیں۔ بچوں کے بعد ماں اپنی راحت ، اپنا چین ، اپنا آرام ،اپنا سکون سب کچھ بھول جاتی ہے وہ نہ کبھی احسان جتاتی ہے اور نہ ہی صلہ مانگتی ہے۔ گھر میں کھانے وہی پکتے ہیں جو بچے شوق سے کھالیں، بچوں کو کپڑے جوتے اور کھلونے وہی دلوائے جاتے ہیں جنہیں وہ پسند کریں ، بچوں کی پڑھائی ، ان کا آرام ، ان کی نیند ، ان کی دلچسپیاں ہر ماں کی پہلی ترجیح ہوتی ہے اور جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں تب بھی ماں کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہوتیں۔

بچے دیر تک جاگ کے پڑھ رہے ہیں تو ماں بھی جاگ رہی ہوتی ہے ، دوستوں میں رات دیر تک بیٹھے ہیں تو ماں پریشان ہے، کاموں کے سلسلے میں کبھی شہر سے باہر گئے ہیں تو ماں دعاؤں کا حصار کھینچ رہی ہے ، بچوں کے بڑے ہونے کے بعدجسمانی مشقت کے کاموں کا بوجھ تو کچھ ہلکا ہوجاتا ہے لیکن ماں کے دعاؤں کے لئے پھیلے ہاتھ اب اور دیر تک پھیلنے لگتے ہیں ،کیوں کہ اب اس کے بچوں کا عملی زندگی میں قدم رکھنے کا وقت ہوتا ہے۔ بچوں کے بہترین روزگار لگ جائیں ، ان کی شادیاں بخیر و خوبی انجام پائیں ہر ماں کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے اور اس کے لیے ہر ماں دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ سے دعا گو رہتی ہے۔

پھر یہ وقت بھی گذر جاتا ہے کمزور اولاد اپنے پیروں پر کھڑی ہوکر مضبوط و توانا ہوجاتی ہے ، بیٹیاں اپنے اپنے گھر سدھارتی ہیں اور اپنی گھر گھرستی کے دھندوں میں مصروف ہوجاتی ہیں ، بیٹے بھی شادی شدہ ہوجاتے ہیں لیکن اب ماں کمزور و ناتواں ہوجاتی ہے ہر وقت پھرکی کی طرح گھومنے والی عورت کا چلنا پھرنا محدود ہوجاتا ہے اب وہ بیٹھی اپنی لگائی ہوئی فصلوں کو پھلتے پھولتے دیکھ رہی ہوتی ہے، آہستہ آہستہ سب بھولنے لگتے ہیں کہ ماں بھی ہے ، اگر خوش قسمتی سے بچوں کو قدر دان جیون ساتھی اور سسرال مل جائے تو ہر جگہ ماں اپنے بچوں کی تعریف سن رہی ہوتی ہے اس کے بہویں، داماد رشک کررہے ہوتے ہیں کہ انہیں کتنا اچھا جیون ساتھی ملا، سسرال والے پھولے نہیں سماتے کہ ان کا داماد اتنا لایق فایق ہے۔

اس وقت کسی کو اس ہستی کا خیال ہی نہیں آتا، جس نے ننھے سے بیج کو تناور درخت بنانے میں اپنی جوانی لگائی ہوتی ہے کبھی کبھی تو بچے بھی بھول جاتے ہیں کہ ان کی ماں نے اپنی کتنی خواہشات، اپنے شوق، اپنا آرام تج کر انہیں اس قابل کیا ہے ،پھر اگر خداناخواستہ جیون ساتھی ہمیشہ کی جدائی دے کر پہلے اللہ کو پیارا ہو جائےتو زندگی بہت ہی مشکل ہوجاتی ہے۔ بچے اپنے اپنے آشیانے الگ کر چکے ہوتے ہیں کوئی ملک سے باہر ہوتا ہے تو کوئی الگ شہر میں۔ اولاد تابعدار ہو تو ماں کبھی ایک کے پاس کبھی دوسرے کے پاس بظاہر خوشی خوشی چلی جاتی ہے لیکن زیادہ تر اس ہی بچے کے ساتھ رہنا پسند کرتی ہے جو ماں کی ضروریات بن کہے سمجھ جاتا ہو ، جو بہو بیٹی سے بڑھ کر اس کا خیال رکھے اور پھر آخر کار آبائی گھر فروخت کرنے کی باری آجاتی ہے وہ آشیانہ جو تنکا تنکا کرکے ماں باپ نے بڑی محنت و کوشش سے اپنے بچوں کے لئے بنایا ہوتا ہے۔

اب اس پرانے بوسیدہ ہوتے گھر کی کسی کو ضرورت نہیں ہوتی ،ضرورت ہوتی ہے تو پیسے کی، تاکہ اپنے نئے آشیانے تعمیر کئے جاسکیں۔ ٹھیک ہے دنیا اسی کا نام ہے اور دنیا ایسے ہی آگے چلتی ہے لیکن وہ وقت ماں کے لئے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے بقول شاعر

سناٹا چھا گیا بٹوارے کے قصے میں

جب ’’ماں‘‘ نے پوچھا میں ہوں کس کے حصے میں

جن کی مائیں سلامت ہیں وہ ان کی قدر کریں ۔ یہ نعمت ایک بار چھن جائے تو پھر واپس نہیں آتی۔ دعائیں دینے والی ہستی دنیا میں صرف ایک ہے اور وہ ’’ ماں ‘‘ ہے۔

لاکھ گرد اپنے حفاظت کی لکیریں کھینچو

ایک بھی ان میں نہیں ماں کی دعاؤں جیسی

مدرز ڈے اور فادرز ڈے پر بہت لوگ طنزیہ گفتگو کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ ہمارا کلچر نہیں ہے ہمارے لئے تو ہر دن مدرز ڈے اور فادرز ڈے ہے ۔ بےشک ایسا ہی ہونا چاہئے لیکن افسوس کہ بیشتر گھرانوں میں ایسا نہیں ہے۔ کبھی کبھی ہمارے والدین ہماری نظر التفات کے منتظر بیٹھے ہوتے ہیں اور ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا کہ ہم انہیں خصوصی توجہ دے سکیں۔ اگر ہمارے ملک میں کسی بھی ملک کے کلچر سے متاثر ہو کر یہ دن منانا شروع ہو ہی چکا ہے تو کیوں نہ ہم بھی اس مدرزڈے پر اپنی ماؤں کو خصوصی اہمیت دے کر دیکھ لیں جو بلاشبہ روز دینی چاہئے لیکن اگر ہم کسی بھی وجہ سے نہیں دے پا رہے تھے تو س سال کا مدرزڈے ’’ ماں ‘‘ کے نام کردیں ۔

ان کے ساتھ وقت گذاریں، کہیں باہرلےکر جائیں،ان کی پسند کا کوئی تحفہ دے دیں ، ان کی پسند کا کھانا کھلادیں ، انہیں ان کے کسی دوست، رشتے دار سے ملوانے لے جا ئیں اور کچھ نہیں تو ان کے ساتھ بیٹھ کر کچھ پرانے قصے ہی سن لیں چاہے وہ قصے پہلے بھی بےشمار بار سن چکے ہوں یقین کریں آپ کی ’’ماں ‘‘ اس سے ہی خوش ہوجائے گی اور بدلے میں بن مانگے ڈھیروں انمول دعائیں مل جائیں گی۔

جن کی مائیں دور ہیں وہ انہیں ایک لمبی کال کرلیں اور جن کی مائیں انہیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر اللہ کو پیاری ہوچکی ہیں وہ اپنی پیاری ماں کی مغفرت کی خصوصی دعا کرنے کے بعد ان کی طرف سے کچھ صدقہ کردیں اور اپنے ایسے کسی رشتے سے ملنے چلے جائیں جسے دیکھ کر انہیں اپنی ماں کا تھوڑا سا بھی خیال آجاتا ہو۔ ماں جیسا تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت سے پیارے پیارے رشتے عطا کیے ہیں کوئی نہ کوئی تو ایسا رشتہ ضرور ہوگا جو ماں سے قریب محسوس ہوتا ہوگا یا کم ازکم آپ کی کام یابیوں سے خوش اور آپ کو دعائیں دینے والا ہی ہوگا تو بس اس مرتبہ یہ دن اسی کے نام کردیں۔

بس اک خدا نہیں ہوتی

ورنہ ماں کیا نہیں ہوتی

نوجوان ہوں یا ادھیڑ عمر ، جوان ہوں یا ضعیف تمام پیاری پیاری ماؤں کو…’’ ہیپی مدرز ڈے ‘‘