جولائی1963ءمیں لکھا گیا ایک انشائیہ ’آرام کرسی‘

May 11, 2022

خداوند کریم بس اتنا روپیہ دے دے کہ انسان آرام کرسی خرید لے تو پھر چاہے گھر میں چوہے یا پیٹ پر پتھر باندھا جائے، لیکن آرام کرسی خوامخواہ بڑا آدمی بنادیتی ہے او رآرام کرسی والا دنیا کی نظروں میں معزز ہوکر رہتا ہے۔ خدا نے آرام کرسی کو عجیب شرف بخشا ہے کہ خود تو وہ خیر سب کرسیوں سے ممتاز ہوتی ہے لیکن اس پر بیٹھنے والا بھی صدر منتخب نظر آنے لگتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دوسرے کے گھر جاکر اس کو آخر کار اپنی اوقات پر اس طرح آنا پڑتا ہے کہ صاحب خانہ آرام کرسی پر دراز ہوتے ہیں اور وہ معمولی کرسی پر بیٹھنے کے لئے مجبور ہوتا ہے لیکن خود اپنے گھر پر تو اس کو یہ مرتبہ حاصل ہوتا ہے کہ آرام کرسی پر نہایت شان سے خانہ ساز خلد اللہ ملکہ بنے پڑے ہیں اور باقی تمام آئے گئے نہایت ادب سے حلقہ کئے ہوئے چاروں طرف بیٹھے ہیں۔

اس وقت آرام کرسی پر بیٹھنے والے کو اپنی قدر و قیمت خود معلوم ہوتی ہے اور اپنے عالی مرتبہ ہونے کا خود احساس ہونے لگتا ہے جس کے بعد قدرتی طور پر ایک شان ایک دبدبہ ایک رعب ایک وقار اور ایک وجاہت پیدا ہوجاتی ہے، خواہ ان باتوں سے ایک بات بھی غریب کو عمر بھر نصیب نہ ہوئی ہو لیکن یہی کیا کم ہے جب تک وہ آرام کرسی پر رہے گا۔ یہ تمام چیزیں اس میں اس طرح موجود رہیں گی گویا خاندانی خصوصیات میں سے ہیں یہی وجہ ہے کہ تہذیب جدید نے اس بات کی اجازت دیدی ہے کہ ہر صاحب خانہ اپنے دولت خانہ یاغریب خانہ میں جہاں لوگوں کے بیٹھنے کے لئے چھ سات معمولی کرسیوں کا انتظام کرے وہاں اپنے لئے ایک آرام کرسی کا بھی انتظام ضرور کرے تاکہ جس وقت اس کے دوست احباب یا دوسرے ملنے والے اس کے گھر میں آئیں وہ بہ حیثیت میزبان کے ان کو تو معمولی کرسی پر بٹھا دے اور خود وہ مہمانوں کے سامنے ٹانگیں پھیلا کر اس انداز سے آرام کرسی پر پڑرہے کہ ’’ہمارا گھر ہے ہم آرام کرسی پر لیٹے ہیں۔

کسی کے باپ کا اجارہ ہے تم کو اگر غرض ہوتو معمولی کرسیوں پر بیٹھو ورنہ اپنے گھر کا راستہ لو‘‘ وہ اپنے مہمانوں کی ہر طرح خاطر تواضع کرے گا۔ پان دے گا، سگریٹ پلائے گا، چائے شربت سے تواضع کرے گا، مگر آرام کرسی کے معاملہ میں وہ مروت کو دخل نہیں دے گا، اور اس استحقاق کو کسی قیمت پر بھی ہاتھ سے نہیں دے گا۔ اس کے مہمان معزز لاٹ صاحب ہی کیوں نہ ہوں، آنے والے بزرگ نہیں باپ دادا ہی کیوں نہ ہوں مگر وہ اپنی آرام کرسی پر ٹانگیں پھیلائے پڑا رہے گا اور اس کے مہمان حاشیہ نشینوں یا مریدوں یا حلقہ بگوشوں یا حکیم کے مطب کے مریضوں یا مکتب وغیرہ کے طالب علموں یا گول میز کانفرنس کے نمائندوں کی طرح نہایت ادب سے آرام کرسی کے چاروں بیٹھے ہوں گے اور سب کو اسی طرح بیٹھنا پڑے گا۔

مشرقی تہذیب کو جانے دیجئے اگر اس کی پابندی کی جائے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ دس پانچ آرام کرسیوں کا اور ایک معمولی کرسی کا انتظام کیا جائے تاکہ مہمان تو آرام کرسیوں پر لیٹیں اور میزبان فدوی بن کر معمولی کرسی پر بیٹھے اور سب مہمانوں کے ساتھ اس طرح پیش آئے گویا ہر ایک کے یہاں فرداً فرداً پانچ روپیہ ماہوار اور کھانے پر ملازم ہے تو اب آپ یہ بتائیے کہ میزبان نہ ہوا بلکہ خدمت گار ہوگیا۔ اسی وقت کو دور کرنے کے لئے تہذیب جدید نے میزبان کے لئے آرام کرسی ایجاد کی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ جب ہم اور آپ اور دوسرے مشرقی تہذیب کے عادی دقیانوسی قسم کے لوگ کسی ایسے مہذب آدمی کے یہاں جاتے ہیں جس کو خدا نے آرام کرسی دی ہے اور وہ ہم کو بدتمیز آمیز تپاک سے مونڈھے نما کرسیوں پر بٹھا کر خود آرام کرسی پر دراز ہو جاتا ہے تو اس کی اس بدتمیزی پر بس خون ہی کھول جاتا ہے لیکن ذرا غور تو فرمایئے کہ جب آپ کے یہاں لوگ آتے ہیں اور آپ ان کو بٹھا کر خود دراز ہو جاتے ہیں توکس قدر خون بڑھتا ہے اور ان آنے والوں کا کس قدرخون کھولتا ہو گا۔ اس دنیا میں تو بس یہی ہے کہ۔

کیا خوب سودا نقد ہے۔ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔ اگر آپ کی ناک ایسی ہی بارہ ہاتھ کی ہے تو کیوں جائیے کسی کے یہاں اپنے ہی گھر پر آرام کرسی لئے پڑے رہیے جس کو غرض ہو گی خود آئے گا۔ اور آپ کی دربار داری کرے گا۔

آرام کرسی کا نام تو آرام کرسی ہے لیکن اس پر بیٹھ کر یا لیٹ کر آرام سے زیادہ مرتبہ حاصل ہوتا ہے اور اس حساب سے اس کا نام کرسی تشخص ہونا چاہیے۔ اس لئےکہ ہمارے نزدیک اس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہوتا کہ اس پر بیٹھنے یا لیٹنے والوں کو امتیازی درجہ حاصل رہے۔ آرام کرسی خود ہی کرسی صدارت یعنی اعزاز کی جگہ ہوتی ہے لیکن اس کو اور بہت سی چیزوں سے معزز تر بنایا جا سکتا ہے مثلاً اسی کے قریب لگا ہوا حقہ یا اسٹک اس کے پاس رکھا ہوا گالدان اس کے ہتھے پر رکھا ہوا خاصدان ، اسی کے آگے رکھی ہوئی چھوٹی سی میز اور اسی پر پڑے ہوئے مخل یا کروشیایا… زردوزی کے گدے وغیرہ۔ اگر ان چیزوں کا بھی انتظام ہو جائے تو کیا کہنا۔ سونے میں سہاگہ والا معاملہ ہو جاتا ہے اور اسی طرح آرام کرسی کو ترقی دے کر تخت شاہی کے درجہ تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

لیکن سوال تو یہ ہے کہ ہمارے ایسے بدتمیز گھر میں آرام کرسی کس طرح رکھی جا سکتی ہے کہ جب کبھی باہر سے آکر دیکھئے یا توکے صاحب اس پر تشریف فرما نظر آتے ہیں یا مرغی انڈا دیتی ہوئی اور اگر کچھ نہیں لونڈے اس کی ڈھال پر سے پھسلنے کش مشق کرتے ہوئے ملتے ہیں چنانچہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہماری آرام کرسی تھوڑے ہی دنوں کے مختلف طریقہ ہائے استعمال سے خدا جانے یا سے کیا ہو گئی ہے اس کے ٹوٹے ہوئے؟؟ اس کو اچھا خاصہ کموڈ بنا دیا ہے اور اب وہ سوائے رفع حاجت کے کسی کام کی نہیں رہی ہے۔

شوکت تھانوی

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی