عمران خان کی حمایت ؟؟؟

May 21, 2022

روز آشنائی… تنویرزمان خان، لندن
پاکستان میں انقلاب آرہا ہے، لوگ بیدار ہوگئے ہیں، ملک چھوٹی موٹی تبدیلی کے عمل سے بہت آگے نکل گیا ہے، یہ باتیں ہم سابق وزیراعظم عمران خان سے روزانہ سنتے ہیں بلکہ اب تو ان کے فین کلب کے ممبران بھی نہ صرف ایسا ہی سمجھنے لگے ہیں بلکہ یہاں تک کہنے لگ گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عمران خان سے بڑا کام لینا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ اسے مخصوص امتحان سے گزار رہا ہے، ماننے والے تو عمران خان میں وہ خصوصیات بھی دیکھنے لگے ہیں اور عقیدت کے اس دائرے میں داخل ہوچکے ہیں جہاں تنقید برداشت کرنے کا مرحلہ تقریباً ختم ہونے کو ہے اور گستاخِ عمران واجب السرزنش ٹھہرنے کا مقام تقریباً آ ہی چکا ہے، آپ کا مقام ایک ہی ہوسکتا ہے یا تو آپ عمران کے ساتھ ہیں یا پھر ملک کے خلاف ہیں، آپ کے محب وطن ہونے کا درجہ ایک ہی ہے کہ آپ عمران خان کی حمایت کریں، یہ وہ یہ مقام ہے جو نارتھ کوریا کے کم ینگ (بقول ٹرمپ راکٹ مین) کو حاصل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اسے اقتدار میں آئے ہوئے 11 برس ہوچکے ہیں اور اس کا باپ بھی نارتھ کوریا کا نمبر2 سپریم لیڈر تھا جب کہ اس کا دادا کم ال سنگ نارتھ کوریا کا بانی تھا،کم ینگ بھی آج اپنے عوام پر اپنے ہیرو ازم کو اسی طرح مسلط کیے ہوئے ہے کہ اس کی مرضی کے خلاف نارتھ کوریا میں چڑیا بھی پَر نہیں مار سکتی، مزاجاً عمران خان کی بھی اسی طرح کی ملتی جلتی صورتحال ہے اور ہم نے ایسا گزشتہ ساڑھے تین سال کے اقتدار میں دیکھ بھی لیا ہے اور یہ بھی سمجھ لیا ہے کہ عمران خان کو اپنے گزرے ہوئے وقت کا احتساب بھی پسند نہیں، اتفاق دیکھیے اسے عمران خان کی خوش قسمتی ہی کہنا چاہئے کہ کسی نے اس کے ساڑھے تین سال کے دوراقتدار پر کوئی سوال تک نہیں اٹھایا، سب نے اس کے پیچھے ایک نئی اور نئے سرے سے دوڑ کا آغاز کردیا ہے، پورے کا پورا بیانیہ نئے سرے سے، وہی نعرے جو2018ء سے پہلے تھے اور ان ہی نعروں کا ورد پورے ساڑھے تین سال بھی چلتا رہا لیکن ملک کی ترقی کی جانب نہ تو کوئی پلان نظر آیا اور نہ ہی کوئی ارادہ، دراصل کوئی منصوبہ بندی تھی ہی نہیں، اپنی ساخت اور ہیئت میں پی ٹی آئی نہ تو کسانوں کی جماعت ہے، نہ ہی مزدوروں کی بلکہ وہ خود بھی ایسا کبھی کہتے بھی نہیں، وہ ہر جگہ برملا خود کو محض مڈل کلاس کی پارٹی کہتے ہیں جو صرف اقتدار میں آنا اور رہنا چاہتی ہے جس کے پاس نہ تو کوئی اصلاحاتی پروگرام ہے، نہ ہی ویلفیئر کا کوئی پلان ہے، عمران خان یہ تو کہتا ہے کہ مجھے انہوں نے کچھ کرنے نہیں دیا لیکن کبھی یہ نہیں کہا کہ کیا نہیں کرنے دیا، ہم نے گزشتہ ساڑھے تین برس میں عمران خان کی زبان سے کبھی کوئی ایسا پروگرام نہیں سنا جو وہ کہتا ہو کہ میں یہ کرنا چاہتا تھا لیکن ان چوروں، ڈاکوئوں نے ایسا کرنے نہیں دیا تو پھر اب لوگ اس کے باوجود اس کی باتوں کے سحر میں مبتلا ہیں، اسے مسیحا سمجھ بیٹھے ہیں جس نے گزشتہ دو مہینوں میں جب سے اقتدار سے اترا ہے، آج تک اقتدار میں آنے کے بعد کے کسی پروگرام کا ذکر نہیں کیا لیکن لوگ انقلاب کی توقع لگائے بیٹھے ہیں، اگر کوئی ایسی بڑی معاشی تبدیلی کا پروگرام ہوتا تو پوری اس لوٹ کھسوٹ میں ملوث کلاس پر ہاتھ ڈالتا، بالائی طبقے سے لوٹ مار کی دولت واپس لینے کے لیے کوئی اقدامات اٹھاتا لیکن اس نے دو خاندانوں کے علاوہ کسی پر کبھی ہاتھ ڈالنے کا ذکر تک نہیں کیا جس کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ عمران خان خود اسی اشرافیہ کا حصہ ہے جو دراصل پاکستان کے ان حالات اور غربت کی ذمہ دار ہے، دوسری اہم بات یہ ہے کہ نہ تو پہلے کبھی اس کے پاس کوئی عوام دوست ٹیم تھی، نہ اب ہے، نہ ہی اس نے آئندہ کوئی ایسی ٹیم بنانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، نہ ہی اس کے دماغ میں کسی قسم کی انقلابی ٹیم کے کوئی خدوخال ہیں، اس لیے میں تو سمجھتا ہوں کہ لوگ صرف اس کے چکمے میں بری طرح پھنس چکے ہیں اور اس کے بیانیے کو سچ سمجھ بیٹھے ہیں جس بیانیے کا نہ تو کوئی سر پیر ہے، نہ کوئی بنیاد، اس تمام تر ہنگامہ آرائی میں سے کوئی طالع آزما تو برآمد ہوسکتا ہے لیکن کوئی ویلفیئر اسٹیٹ کے قیام کا دور، دور تک کوئی نام و نشان نہیں، عوام کسی دھوکے میں نہ رہیں۔