نظیر اکبر آبادی

June 08, 2022

محمد ذکی الدھلوی

نظیر اکبر آبادی کا اصل نام ولی محمد اور تخلص نظیر تھا۔ ان کے والد کا انتقال بچپن ہی میں ہوگیا تھا جب دہلی پر احمد شاہ ابدالی کے حملے شروع ہوئے اور اہل دہلی کے لئے اپنے عزیز وطن میں سکون سے رہنا ناممکن ہوگیا تو ان کا خاندان دہلی کو چھوڑ کر آگرہ چلا گیا اور وہیں مستقلاً سکونت پذیر ہوگیا۔

یتیمی اور بے اطمینانی کی حالت میں رہتے ہوئے نظیر اکبر آبادی باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ تاہم فارسی، اردو اور ہندی زبانوں پر انہیں بڑی دسترس حاصل تھی۔ عربی زبان سے بھی وہ بے بہرہ نہیں تھے۔ ان کا مشاہدہ اور عام زندگی کا مطالعہ بڑا گہرا اور نہایت وسیع تھا۔ نہایت دارستہ مزاج انسان اور دولت دنیا سے قطعاً بے نیاز تھے۔ امراء کے درباروں، سرکاروں سے انہوں نے کبھی کوئی تعلق نہیں رکھا اور نہایت درویشانہ زندگی بسر کی۔ انہوں نے معلمی کو اپنا پیشہ اور ذریعہ معاش بنایا۔

لالہ بلاس رام کے بچوں کے معلم اور اتالیق رہے اور ہندوانی رسوم و رواج، ہولی، دیوالی وغیرہ پر انہوں نے جو نظمیں لکھیں ان میں ان بچوں کی فرمائشوں کا بہت دخل تھا۔ ان بچوں کی فرمائش پر جو نظمیں لکھتے وہ ان ہی کو دے دیتے تھے اور اپنے پاس کوئی نقل نہیں رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام کا بہت سا حصہ لالہ بلاس رام کے یہاں سے ملا۔

میاں نظیر نہایت وسیع المشرب انسان تھے۔ ان کے پاس تعصب نام کی کوئی چیز نہیں تھی، نہ وہ امیر غریب کے درمیان کوئی فرق و امتیاز روا رکھتے تھے۔ ہر مذہب و مسلک کے لوگوں سے نہایت خلوص اور آزادی سے ملتے تھے۔ تمام میلوں ٹھیلوں اور ناچ رنگ کی محلفوں میں شریک ہوتے، ہر چیز کی جزئیات و تفصیلات کا گہری نظر سے مطالعہ و مشاہدہ کرتے پھر اپنی معلومات کو نظموں کا موضوع بناتے۔

یہی وجہ ہے کہ انکی نظموں میں عوامی رنگ بہت زیادہ نمایاں ہے۔ لیکن اس طرز عمل کا یہ بھی اثر ہوا کہ ان کی شاعری نے وسعت حاصل کرکے زندگی کے مختلف پہلوئوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا ان کی نظموں میں موضوعات کے تنوع کے ساتھ ساتھ الفاظ کا بھی اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ اس معاملہ میں اردو کے بہت کم شعراء ان کے مقابلہ میں لائے جا سکتے ہیں۔

نظیر کی غزلیات کا معیار بھی بہت اونچا ہے۔ ان کے بعض اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں اور اردو شاعری کے گنج گرانمایہ میں لعل و جواہر سے کم نہیں۔ اردو زبان کے بے نظیر شاعر تھے زندگی میں ان کی جتنی بے قدری ہوئی، موجودہ زمانہ میں ان کو اتنا ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ وہ ایک اردو شاعری کو اتنا وافر سرمایہ دے گئے کہ وہ کبھی بھی ان کے احسان سے سبکدوش نہ ہوسکے گی۔

نظیر اکبر آبادی نے بعض اواقعات اور پرآہنگ الفاظ کی صوتی کیفیت سے مزاح کا رنگ رچایا ہے، اس کی ان کے یہاں بے شمار مثالیں ہیں۔ جانوروں کی بولیاں انسان کے اضطراری بولیوں کی طرح مضحک ہوتی ہیں صوتی اعتبار سے بھی اور معنوی اعتبار سے بھی نظیر نے ان سے کام لیا اور چوں چوں، کوں کوں، کڑکڑ، سی سی، ہاہا، ہوہو سے کلام کو چٹپٹا بنایا۔ لفظی رعایتوں کی بھی ان کے یہاں کمی نہیں۔ ’’کلجگ نہیں کہ جگ ہے یہ۔‘‘ ’’پیسہ نہیں تو آدمی چرخے کی مال ہے۔‘‘ ’’کوڑی نہ ہو تو کوڑی کے پھر تین تین ہیں۔‘‘ اس کی چند مثالیں ہیں۔

انوکھی تشبیہات کے استعمال سے بھی ظرافت پیدا کرتے ککڑی کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔

فرہاد کی نگاہیں شیریں کی نہلیاں ہیں

مجنوں کی سرد آہیں لیلیٰ کی انگلیاں ہیں

………

نظیر کے کلام میں الفاظ کا چنائو اور خیالات کی تازگی عجب لطف دیتی ہے۔ ان کی طویل نظموں کے جستہ جستہ ٹکڑے ملاحظہ کریں۔

…آدمی نامہ…

دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی

اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

زردارد بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

ٹکڑے چبا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

ابدال غوث قطب دلی آدمی ہوئے

منکر بھی آدمی ہی ہے اور کفر کے بھرے

کیا کیا کرشمے کشف و کرامان کے کئے

حتیٰ کہ اپنے زور و ریاضت کے زور سے

خالق سے جا ملا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

فرعون نے کیا تھا جو دعویٰ خدائی کا

شداد بھی بہشت بنا کر ہوا خدا

نمرود بھی خدا ہی کہاتا تھا برملا

یہ بات ہے سمجھنے کی آگے کہوں میں کیا

یاں تک جو ہو چکا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں

بنتے ہیں آدمی ہی امام اور خطبہ خواں

پڑھتے ہیں آدمی ہی قرآن اور نمازیاں

اور آدمی ہی ان کی چراتے ہیں جوتیاں

جو ان کو تاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

……روٹیاں……

جب آدمی کے پیٹ میں جاتی ہیں روٹیاں

پھولے نہیں بدن میں سماتی ہیں روٹیاں

آنکھیں پری رخوں سے لڑاتی ہیں روٹیاں

سینہ اپر بھی ہاتھ چلاتی ہیں روٹیاں

جتنے مزے ہیں سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں

پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے

یہ مہر و ماہ حق نے بناتے ہیں کاہے؟؟

وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیردے

ہم تو نہ چاند سمجھے نہ سورج ہیں جاتا؟؟

بابا ہمیں تو یہ نظر آتی میں روٹیاں

…………

کوڑی ہے جن کے پاس وہ اہل یقین ہیں

کھانے کو ان کے نعمتیں سو بہترین ہیں

کپڑے بھی ان کے تن پہ نہایت مہین ہیں

سمجھیں ہیں اس کو وہ جو بڑے نکتہ ؟؟

کوڑی کے سب جہان میں نقش ونگیں ہیں

کوڑی نہ ہو تو کوڑی کے پھر تین تین ہیں

……………

پیسہ ہی کا امیر کے دل میں خیال ہو

پیسے ہی کا فقیر بھی کرتا سوال ہے

پیسہ ہی فوج پیسہ ہی جاہ و جلال ہے

پیسے ہی کا تمام یہ رنگ و زوال ہے

پیسہ ہی رنگ و روپ ہے پیسہ ہی مال ہے

پیسہ نہ ہو تو آدمی چرخے کی مال ہے

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔

تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہے آپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی