ملتان میں ضمنی انتخابات کی ’’تپش‘‘ سب سے زیادہ

June 23, 2022

پنجاب کے حلقوں میں ضمنی انتخاب جوں جوں قریب آرہا ہے، فضا میں کشیدگی کی صورتحال بڑھتی جا رہی ہے، لاہور میں جو پرتشدد واقعات پیش آئے، وہ اس شدید سیاسی پولرائزیشن میں کہیں بھی پیش آ سکتے ہیں ،اگر کوئی ضمنی انتخاب پورے سیاسی منظرنامے پر چھایا ہوا نظر آتا ہے ، تو وہ ملتان کے صوبائی حلقہ 217 کا انتخاب ہے، اس کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے نتیجہ پر تحریک انصاف کی فتح کا انحصار ہے اور اگر مسلم لیگ ن شاہ محمود قریشی کے بیٹے کو شکست دینے میں کامیاب رہتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تحریک انصاف کا بیانیہ پٹ گیا ہے۔

تحریک انصاف نے مہنگائی مارچ کے حوالے سے اتوار کو جو احتجاجی مظاہرے کئے، شاہ محمود قریشی نے اس کے لیے اس حلقہ کے علاقے چوک شاہ عباس کا انتخاب کیا ،جو ایک گنجان آباد علاقہ ہے اور پہلے کبھی پی ٹی آئی نے وہاں اپنے کسی احتجاجی مظاہرے کی کال نہیں دی ،اس سے پہلے چونگی نمبر 9 کے کشادہ چوک پر پی ٹی آئی کے جلسے اور مظاہرے ہوتے رہے ہیں، اس مظاہرے کے ذریعے شاہ محمود قریشی نے دو اہداف حاصل کیے ہیں ، ایک تحریک انصاف کا مہنگائی کے خلاف ایک بڑا شو اور دوسرا اپنے بیٹے کی انتخابی کمپین لیکن ان سب کے باوجود یہ انتخابی معرکہ اتنا آسان نظر نہیں آتا ، کیونکہ دوسری طرف پی ڈی ایم کا امیدوار سلمان نعیم ہے جس کا ذاتی ووٹ بینک بھی موجود ہے۔

اگرچہ اس کے خلاف پارٹی تبدیل کرنے پر پی ٹی آئی کی مہم جاری ہے ، مگر اس حلقہ میں سلمان نعیم کے گزشتہ چار برسوں میں کام اس کے لیے ایک بڑی طاقت بنے ہوئے ہیں، ایک عام خیال یہ ہے کہ اس حلقہ میں بھی کسی بھی وقت کشیدہ فضا پیدا ہو سکتی ہے،اگرچہ ملتان کے دو مخدوم بھی اس ساری الیکشن مہم میں ایک دوسرے کے متحارب کھڑے ہیں، یعنی سلمان نعیم کی طرف سے سید یوسف رضا گیلانی اور پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود قریشی اپنے بیٹے زین قریشی کے لئے سرگرم عمل ہیں، ان دونوں کی موجودگی میں اگر چہ کشیدہ صورت حال پیدا ہونے کا امکان کم ہے ، مگر کچھ ایسے نوجوان عناصر بھی ہیں کہ جو دونوں طرف سے کسی بھی وقت کسی اشتعال کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔

چوک شاہ عباس پر تحریک انصاف نے جو شوکیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس چوک پر ایک دن پہلے ہی مسلم لیگ ن کے امیدوار سلمان نعیم کے بڑے بڑے ہورڈنگز ز لگا دئیے گئے اور یوں لگ رہا تھا کہ جیسے یہ جلسہ سلمان نعیم کے لئے ہو رہا ہے، ملتان کی سیاسی فضا میں اس الیکشن کی تپش ہر طرف محسوس کی جارہی ہے، جو با اثر شخصیات اس حلقے سے تعلق نہیں رکھتیں، دونوں طرف سے ان کے ساتھ بھی رابطہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اس حلقہ میں اپنا اثرورسوخ استعمال کریں، دلچسپ امر یہ ہے کہ جہاں شاہ محمود قریشی پہنچتے ہیں۔

اگلے دن اس شخصیت کے پاس سید یوسف رضا گیلانی موجود ہوتے ہیں، یوں ایک غیر اعلانیہ مقابلہ جاری ہے، سلمان نعیم کو کچھ لوگ خوش قسمت قرار دے رہے ہیں کہ اس کے لئے نہ صرف ن لیگ بلکہ پیپلز پارٹی پوری طاقت کے ساتھ الیکشن مہم چلا رہی ہے، اس حلقہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 14 جولائی کو عمران خان اس حلقہ کا دورہ کریں گے، دوسری طرف مسلم لیگ ن کی طرف سے مریم نواز کی آمد متوقع ہے ، یوں یہ صوبائی حلقہ قومی سطح کے الیکشن کا درجہ حاصل کر چکا ہے ،شاہ محمود قریشی اس نکتہ پر الیکشن مہم چلا رہے ہیں کہ ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی اگر 15 سیٹیں لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے ، تو پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہو جائے گی۔

اس لیے عوام اگر چاہتے ہیں کہ اس حکومت سے نجات ملے ، تو انہیں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ووٹ دینا ہوگا ،وہ اپنے بیٹے کی انتخابی مہم میں ہر کارنر میٹنگ کے دوران مہنگائی ،پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ اور موجودہ حکومت کی عوام دشمنی کے نعرے لگا کر شرکاء کا لہو گرماتے ہیں، اگرچہ مسلم لیگ ن کے پاس ان باتوں کا فی الوقت کوئی توڑ نہیں ہے، کیونکہ مہنگائی ایک سامنے کی حقیقت ہے، تاہم اس کے باوجود پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور سلمان نعیم خود ایک اچھی مہم چلا رہے ہیں،جس کے نتائج اس طرح بھی سامنے آرہے ہیں کہ شاہ محمود قریشی اپنی تمام تر مصروفیات چھوڑ کر اس حلقہ میں بیٹھ گئے ہیں اور ان کی ساری توجہ ایک صوبائی الیکشن جیتنے پر مرکوز ہو چکی ہے۔

اس صوبائی حلقہ کی اہمیت یہ بھی ہے کہ اگر سلمان نعیم جیت جاتے ہیں تو ملتان کو ایک اور صوبائی وزارت مل جائے گی، دوسری طرف اگر زین قریشی صوبائی اسمبلی میں پہنچتے ہیں، تو شاہ محمود قریشی ان کے ذریعے وزارت اعلی کا اپنا دیرینہ خواب پورا کرنے کی کوشش کریں گے،جہاں تک ک ووٹرز کے موڈ کا تعلق ہے، تو اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، دونوں طرف کی کارنر میٹنگز بھرپور طریقہ سے جاری ہیں، جلسے ہو رہے ہیں، ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، تحریک انصاف کو البتہ یہ برتری حاصل ہے کہ اس کا خواتین ونگ بہت متحرک ہے اور پی ٹی آئی کی خواتین گھر گھر جا کر نہ صرف انتخابی پمفلٹ پہنچا رہی ہیں بلکہ خواتین کو بلے پر مہر لگانے کی ترغیب بھی دے رہی ہیں۔

سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ پنجاب کے ضمنی انتخاب کے موقع پر رینجرز کی تعیناتی ضروری ہو جائے گی، کیونکہ جس قسم کی صورتحال لاہور میں پیدا ہوئی ہے ،ان 20 حلقوں میں بھی ہوسکتی ہے، ماحول اتنا تناؤ والا ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنا مشکل ہو رہا ہے، اس لئے پولنگ والے دن امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لئے فول پروف انتظامات ضروری ہیں ، یہ خیال بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان ضمنی انتخاب میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ بہت زیادہ رہے گا، کیونکہ اس میں تحریک انصاف حکومت سے نکلنے کے بعد حصہ لے رہی ہے اور اس کا ووٹر بہت زیادہ متحرک اور سرگرم ہے، اگر ٹرن آ ؤٹ زیادہ رہا، تو تحریک انصاف کی جیت کے امکانات زیادہ ہو جائیں گے، یہی وجہ ہے کہ عمران خان ان انتخابات پر بھر پور توجہ دے رہے ہیں، دوسری طرف مسلم لیگ ن بھی غافل نہیں ہے، وزیر اعظم شہباز شریف نے ملتان کے تمام لیگی رہنماؤں کو متحرک کر دیا ہے۔