تحفہ آزادی ایک عظیم نعمت

August 14, 2022

تحریر:آصف نسیم راٹھور ۔۔۔ بریڈفورڈ
آزادی ایک ایسی نعمت ہے جس کا متبادل کائنات میں کوئی چیز نہیں ہو سکتی، آزادی کے مقابلہ میں قیمتی سے قیمتی انمول موتی ہیرے اور جواہرات کی کوئی حیثیت اور قدر و منزلت نہیں ، آزادی کی قدر و قیمت پوچھنی ہے تو محکوم قوموں سے پوچھیں جن کی زندگی کا ہر ہر لمحہ اور ایک ایک سانس تکلیف و پریشانی ،ذلت و رسوائی میں برسوں کے برابر گزرتا ہے، یہ تو پروردگار عالم اللہ بزرگ و برتر کا کروڑہا شکر ہے کہ اس نے ہمیں یہ آزادی جیسی گراں قدر اور بیش قیمت دولت محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرما دی ہے تو ہمیں چاہئے کہ اس کی قدرو منزلت کو پہچانیں اور اللہ وحدہُ لاشریک کا شکر ادا کریں، آج جو ہم آزاد ملک اور آزاد فضا میں من مانی اور سکون کی زندگی گزار رہے ہیں، اپنے مذہبی فرائض و عبادات اور اسلامی رسومات کو آزادی سے ادا کر رہے ہیں در حقیقت یہ سب ہمارے آباو اجداد اور ان بزرگوں مجاہدوں ،غازیوں اور شہیدوں کی قربانیوں کی بدولت ہے، جنہوں نے اس وطن عزیز کے حصول کی خاطر جان ، مال ،اولاد ،عزت و آبرو ، تن من دھن سب کچھ قُربان کر دیا، اس مملکت خدا داد پاکستان کی تعمیر و ترقی اور بنیادوں میں لاکھوں مسلمانوں کی بے پناہ جدوجہد و قربانیاں اور شہداء کا خون شامل ہے۔ اس زرخیز مٹی اور پاک سر زمین کو ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کے آنسوؤں کی جگہ خون جگر ، غازیوں اور شہیدوں کے خون سے سیراب کیا گیا ہے، جب بھی کسی قوم نے آزادی حاصل کی ہے تو وہ آزادی اپنے پیچھے خون سے رنگین ہولناک اور درد ناک لازوال داستانیں چھوڑ جاتی ہے، آزادی خیرات میں یا پلیٹ میں رکھ کر کوئی نہیں دیتا، آزادی تو دلوں کو پگھلا دینے والی اور کلیجوں کو چیر دینے والی قربانیاں مانگتی ہے جو کہ ہمارے بزرگوں نے دی ہیں۔ ہمارے آباء و اجداد نسل در نسل ان تمام مشکل ترین مراحل اور گھاٹیوں کو عبور کر کے اس منزل تک پہنچے ہیں ، ہمارے مشاہیر اور اسلاف بالخصوص مشاہیر اسلام علمائے کرام نے انگریز کے غاصبانہ تسلط کے موقع پر پھانسی کے پھندوں کو جس جرات اور دلیری سے ہنستے مسکراتے ہوئے قبول کیا اور شہادت کی موت کو گلے لگایا ہے وہ بھی ایک تاریخ کا جزو لا ینفک ہے، اس جدوجہد آزادی میں چند مبارک ہستیوں کے نام ضرور لکھنا چاہوں گا ،، شاہ ولی اللہ محدث دھلوی ،شاہ عبد العزیز ،سید اسماعیل شہید ، سید احمد شہید ،شیر میسور ٹیپو سلطان شہید ،مولانا عنایت علی صادق پوری ، مولاناولایت علی صادق پوری ، و دیگر بے شمار علوم نبوت و رسالت کے چمکتے ہوئے ستارے اورعلماء کرام قابل ذکر ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ 1947 ء میں جس وقت مسلمان بے سرو سامانی کے عالم میں ہندوستان سے ہجرت کر کے ٹرینوں میں بیٹھ کر پاکستان آ رہے تھے تو ہندوؤں اور سکھوں نے راستے میں مسلمان مردوں عورتوں بوڑھوں نوجوانوں اوربچوں کو انتہائی بے دردی اور سفاکی سے قتل کیا تھا کہ اس درندگی اور ظلم کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی، ہندوستان کے گلی کوچوں اور بازاروں میں بھی خون کی بدترین ہولی کھیلی گئی اور ندی نالوں میں بہتی ہوئی مسلمانوں کی لاشوں اور خون سے رنگین پانی سے بھی آزادی کی صدائیں آتی تھیں ،ہندوستان کی خونی فضائیں بھی مسلمانوں پر ظلم کی وجہ سے ماتم کر رہی تھیں، اس سے پہلے شائد آسمان نے ایسا خونی ہولناک منظر زمین پر نہیں دیکھا ہو گا ،ہندوستان میں آج بھی مسلمانوں پر مسلسل ظلم ڈھائے جا رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر بھی ہندوستان کے مظالم میں سے ایک درد ناک اور وحشت ناک داستان ہے آج ہم جب مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ہندوستان کی بربریت اور فلسطین میں اسرائیل کی طرف سے ظلم و ستم دیکھتے ہیں تو روحیں کانپ اٹھتی ہیں، ان سب کو دیکھ کر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ آزادی جیسی دنیا میں کوئی نعمت نہیں ہے، تحریک پاکستان کے نامور رہنماؤں محسن پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ، نظریہ پاکستان کے خالق شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ، علامہ شبیر احمد عثمانی ،مولانا ظفر احمد عثمانی اور دیگر اُن کے مخلص ساتھیوں نے جو ہم پاکستانیوں پر احسان کیا ہے ہم تہہ دل سے ان کے ممنون و مشکور ہیں۔ ہم قائد اعظم محمد علی جناح کے اس احسان کا قرض قیامت تک نہیں اتار سکتے مگر ہم قائد اعظم کے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن اور اُن کے مشن کے مطابق مضبوط بنا کر قائد اعظم محمد علی جناح کی روح کو تسکین پہنچا سکتے ہیں۔ پاکستان کا جھنڈا اُس کا ہرا اور سفید رنگ چاند اور ستارہ یہ تمام قومیتوں اور مذاہب کے تحفظ کی دلیل اور ضمانت ہے۔ یہاں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے، اس مملکت خدا داد اور اس کے قانون کی حفاظت ہم تمام پاکستان میں رہنے والوں کی ذمہ داری ہے آزادی کی قدر و قیمت اُن قوموں سے پو چھیں جو ظلم و جبر کی دھکتی ہوئی آگ میں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سانس لینے پر مجبور ہیں مثلاً مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں سے پوچھنی چاہیئے جو ہر وقت ہٹلر نما ہندوستان اور فرعون نما اسرائیل کی بربریت اور ظلم و ستم کا شکار ہیں، آزادی کا جشن مناتے ہوئے ہمیں عہد کرنا چاہیئے کہ ہم سب مل جل کر وطن عزیز پاکستان کی ترقی کیلئے ہر ممکن کوشش کر یں گے۔ وطن عزیز کی سالمیت پر کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے اور وقت آنے پر پاک فوج ، پولیس ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے، ہم عہد کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ اپنے ملک پاکستان اور وطن عزیز کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، آزادی صرف ایک لفظ ہی نہیں ہے بلکہ اس کے اندر انسان کی دنیا کی ان گنت خوشیاں پوشیدہ اور پنہاں ہیں جو قومیں اس نعمت کی قدر نہیں کرتیں وہ صفحۂ ہستی سے مٹ جاتی ہیں، 14اگست کا دن ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ہمارے مشاہیر اور اسلاف نے حصول پاکستان کیلئے نصف صدی تک کن کن جانی ، مالی قربانیوں کے نذرانے پیش کیئے ہیں،جن کی بدولت آج ہم آزاد وطن میں پر سکون زندگی گزار رہے ہیں، ہم پاکستانی دنیا کے کسی ملک میں بھی چلے جائیں ہماری اصل شناخت اور پہچان پاکستان ہی ہے۔ پاکستان کلمۂ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا یہ واحد کلمہ تھا جس پر پوری مسلمان قوم نے اتفاق کیا تاکہ اس مُلک میں مسلمان پوری آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی فرائض سر انجام دے سکیں اور اللہ کے پسندیدہ دین اسلام کا نفاذ کر سکیں جبکہ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ ہمارے رہنما ایک ایسی آزاد فلاحی دفاعی ریاست کے ٹکڑے کے خواہشمند تھے، جہاں ہر مذہب کے ماننے والے افراد کو مذہبی آزادی حاصل ہو کوئی کسی کی عبادت گاہ میں دخل انداز نہ ہو انصاف کا بول بالا ہو معاشی اقتصادی اور سماجی طور پر ترقی ہو سکے اور اقوام عالم میں ہمارا شعور جمہوری طور پر مستحکم ممالک میں ہو بلا شبہ پاکستان کا ستائیس رمضانُ المبارک کو قیام نہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کیلئے ایک نایاب تحفہ تھا بلکہ تمام عالم اسلام کیلئے ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ انگریزوں کے برصغیر پاک و ہند پر غالب آجانے کے بعد مسلمانوں پر زمین اس قدر تنگ کرنے کی کوشش کی گئی کہ پورے ہندوستان کے مسلمان یہ سمجھ گئے کہ مخالف قوتیں خاص کر ہندو ہر ممکن طریقے سے غلام بنانے اور دین اسلام کو خیر باد کہنے پر مصر ہیں اور اس کی وجہ ان حالات و واقعات کا تسلسل تھا جو کہ مسلمانوں کے ساتھ جاری تھا۔ ہندوؤں کی ان ظالمانہ متعصبانہ اور معاندانہ تحاریک نے مسلمانوں کو علیحدہ مُلک بنانے پر مجبور کر دیا پھر علامہ محمد اقبال کے نظریہ پاکستان کو عملی جامہ پہنانے کیلئے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مختلف مکاتب فکر اور زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والوں کی قربانیوں نے آزادئ پاکستان کی تحریک کی آبیاری کی اور تحریک آزادی کو جلا بخشی، آخر اس جد و جُہد آزادی پاکستان کی وجہ سے چوہتر سال پہلے چودہ اگست کو پاکستان معرض وجود میں آیا، یہ دیکھنے میں نحیف اور کمزور جسم کا مالک شخص لیکن بہادر ،دلیر ،با رعب ،آئین اورقانون کی زبان میں کھل کر بات کرنے والا انتہائی زیرک انسان لیکن اپنی مسلمان قوم کا ہمدرد ، خیر خواہ ، مُربی ،مخلص اور دیانتدار ، ویل ایجوکیٹڈ جس کے حوصلے ہمالیہ پہاڑ کی بلندیوں سے بھی کہیں بلند و بالا اور ارادے پتھر اور لوہے سے بھی زیادہ مضبوط اللہ تعالی پر یقین و توکل مُحکم اور ایمان کامل کی طاقت تھی جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی شکل میں ہمیں آزاد مملکت عطا فرمائی ۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا