چین بھارت کشیدگی

September 01, 2022

انڈیا اپنے ہمسایوں سے چھیڑ چھاڑ سے کسی صورت بھی بعض نہیں آرہا ہے۔جب دو ہزار بیس میں ڈوکلام کے مقام پر چینی اور بھارتی افواج ایک دوسرے کے دو بدو ہو گئے تو بھارتی فوجیوں کی پٹائی کے باوجود چین نے بھارت سے مذاکرات کا آغاز کر دیا۔ مگر بھارت اس حوالے سے عسکری سرگرمیوں پر ہی گزارہ کر رہا ہے۔ بھارت اور امریکا کے مابین ایم کیو نائن بی پریڈیٹر ڈرون طیاروں کی خریداری کا معاملہ بہت قریب آ گیا ہے بھارت تیس کی تعداد میں یہ ڈرون خریدنے کے لیے امریکا سے بات چیت کر رہا ہے جن کی مالیت کوئی تین ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔

یہ وہی ڈرون ہیں، جن کے ذریعے سے حال ہی میں ایمن الظواہری پر امریکا نے کابل میں حملہ کیا تھا۔ یہ 450 کلو گرام گولا بارود اور چار ہیل فائر میزائل کے ہمراہ 35 گھنٹے تک فضا میں رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بھارتی دفاعی مبصرین کھل کر اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان ڈرون طیاروں کو خریدنے کا بھارتی مقصد یہ ہے کہ ان کو چین کے خلاف استعمال کیا جائے۔ بھارت ان کے ذریعے مشرقی لداخ کی سرحد پر موجود چینی افواج کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کا منصوبہ رکھتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ بحر ہند میں چینی جہازوں پر بھی اپنی نگاہ رکھنا چاہتا ہے، بحر ہند ویسے بھی امریکا کی غیر معمولی دلچسپی کی وجہ سے مزید اہم ہو چکا ہے اور بھارت وہاں پر امریکا کے آلۂ کار کے طور پر کردار ادا کرنے کا جو خواہش مند تھا، وہ کردار امریکا بھارت کو دے رہا ہے۔

بھارت چین کے قریب دھیرے دھیرے مگر کھلے عام فوجی نوعیت کے اقدامات بھی کر رہا ہے۔ وہ گزشتہ برس فرانس سے حاصل کیے گئے رافیل طیاروں کے ایک سکواڈرن کو مغربی بنگال کے شیمارا ایئر بیس پر تعینات کرچکا ہے ۔ یہ ایئر بیس چین ، بھوٹان اور سکم کے سنگم پر سب سے قریب کا فضائی اڈہ ہے۔ اس اقدام نے ہی یہ ظاہر کر دیا تھا کہ بھارت چین سے کشیدگی کو ہوا دینا چاہتا ہے، پھر امریکا اور بھارتی افواج نے اگست میں تھنڈر اٹیک کے نام سے ہماچل پردیش میں مشترکہ فوجی مشقیں کیں۔ یہ مشقیں یہیں تک محدود نہیں ہیں بلکہ دونوں ممالک اکتوبر میں پھر دوبارہ مشترکہ فوجی مشقیں کریں گے جو چین کی سرحد سے کوئی 62 میل کے فاصلے پر دس ہزار فٹ کی بلندی پر اتراکھنڈ میں یدھ ابھیاس کے نام سے کی جائیں۔

ان مشقوں کے حوالے سے چین کی وزارت دفاع نے بہت سخت ردعمل کیا ہے۔ چینی وزارت دفاع نے 1993 اور 1996میں کیے گئے چین اور بھارت کے درمیان معاہدوں کی خلاف ورزی، ان مشقوں کو قرار دیا ہے۔ ان معاہدوں میں یہ واضح طور پر درج ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی سرحدوں کے قریب فوجی مشقیں نہیں کریں گے، پر یہاں تو سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ بھارت کے فوجیوں کے ساتھ امریکا کی بھی فوج شامل ہوں گی جس کو چین نے بجا طور پر تیسرے فریق کی مداخلت سے تعبیر کیا ہے مگر بھارت اپنے اس اقدام سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں دکھائی دیتا، بلکہ خیال ہے کہ بھارت روس سے زمین سے فضا میں مار کرنے والے ایس 400 میزائل سسٹم کی دوسری کھیپ کو بھی چینی سرحدوں کے قریب ہی نصب کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

ان تمام بھارتی اشتعال انگیزیوں کے باوجود کے بھارتی وزیر خارجہ ایس شنکر ان تمام اقدامات کا دفاع یہ کہتے ہوئے کر رہے ہیں کہ اس وقت چین بھارت تعلقات مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں مگر چین ابھی تک صبر و تحمل کی پالیسی کو اختیار کیے ہوئے ہے۔ مثال کے طور پر چین ڈوکلام میں ایک سڑک کی تعمیر کر رہا تھا جب بھارتی اعتراضات بڑھے تو اس نے سڑک کی مزید تعمیر روک دی اور اس جگہ تک اپنی فوجی تنصیبات کو محدود کر دیا۔

پینگونگ تساؤ جھیل پر پل کی تعمیر کی، مگر اس کے آگے تعمیرات کرنے سے گریز کیا۔ صورتحال کو بہتر بنانے کی غرض سے چین نے بھارت سے گفتگو میں اتفاق کیا کہ گوگرہ ہاٹ سپرنگس کی چیک پوسٹ نمبر سترہ سے دونوں فریقین پیچھے ہٹ جائیں۔ 16 بار دونوں طرف کے کور کمانڈرز کی سطح کی میٹنگیں ہو چکی ہیں، مگر بھارت ناصرف اشتعال انگیز بیانات دے رہا ہے بلکہ وہ اقدامات بھی اسی نوعیت کے کررہا ہے۔

ان بھارتی بیانات کے باوجود جو وزیر خارجہ تک کی جانب سے دیے گئے چین کی وزارت خارجہ نے بہت محتاط بیان دیا ہے کہ دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات اختلافات سے بڑھ کر ہیں اور دونوں ممالک میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو کامیاب بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔ اس بیان میں استعمال کی گئی سفارتی زبان یہ واضح طور پر بتا رہی ہے کہ رافیل طیاروں کی تعیناتی ، ڈرون طیاروں کی خریداری میں پیش رفت، ایس 400 میزائل سسٹم کی ممکنہ تنصیب اور فوجی مشقوں کے باوجود چین کشیدگی کو مزید بڑھاوا دینے سے روک دینا چاہتا ہے۔

مگر بھارت ادھر تھانے دار بننے کی غرض سے ہر وہ اقدام کر رہا ہے جو اقدام اشتعال انگیز ہے۔ اسے اس وقت اس بات کا بہت زعم ہے کہ وہ امریکا کے shared vision for a free and open indo pacific region کے تصور میں ایک اہم پیادہ بن چکا ہے ۔ حالانکہ امریکا کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ بھارت کی فوجیں چین تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس کا اصل ہدف پاکستان ہے اس لیے پاکستان بھی اس سے سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔