میزبان: محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ: سلیم اللہ صدیقی
تصاویر: اسرائیل انصاری
کوئی بھی ریاست آئی ایم ایف کے پاس تب جاتی ہے جب ان کی اقتصادی حالات بہت بگڑچکی ہوتی ہے۔ یہ حالات کیوں خراب ہوتے ہیں، اس کے ذمے داری حکمراں اشرافیہ پر ہے، جس سے مراد وہ لوگ جو حکومتی فیصلہ سازی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان میں فوجی اورسول بیوروکریسی، ججز،کاروباری، جاگیر دار اور سرکاری مشینری سب شامل ہیں۔
یہ لوگ ٹیکس جمع نہیںکرتے ہمارے ٹیکس وصولی یا اکھٹا کرنے کے نظام میںبہتری میں مدد نہیں کرتے۔ اس ملک کا سب سے زیادہ ستیاناس عمران خان کی معاشی پالیسی کے سبب ہوا۔ اب وہ حفیظ شیخ ہوں، شوکت ترین یا عمران خان یہ ذمے دار ہیں۔ ملک تو بچا لیا لیکن اب عوام کا کیا ہوگا، آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوتے ہی بجلی پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیاعوام مشکل میںآگئی ہے۔
سید اکبر زیدی
آئی ایم ایف کو اسپتال سے تشبیہ دوں گا، جہاں علاج کےلیے آپریشن ،کڑوی گولیاںسب کچھ ڈاکٹر کے مشورے پر کرنا پڑتا ہے۔ ہمیںماضی میںکئی بار آئی ایم ایف کا پروگرام لینا پڑا، ان کی شرائط ہوتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ اپنے آمدنی کو نظم وضبط میںلائیں۔ حالیہ دنوںمیں سبسڈیزختم کرنےکا کہا گیا ہے، بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ سبسڈیز کے خاتمے سے یوٹیلٹیزکی قیمتوں میںبہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ ہم مہنگائی کامقابلہ اپنی آمدنی کو بڑھا کر کرسکتے ہیں۔ بڑا مسئلہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ ہے ہمیں ڈالر کی کمی کا سامنا ہے لیکن عوام کو ان مشکلات کا احساس نہیں ہے۔ان حالات میں بھی بین الاقوامی سفر کررہے ہیں،ذرمبادلہ خرچ کررہے ہیں، روزمرہ کی خریداری کے وقت بھی نہیںسوچ رہے کہ چیزغیر ملکی ہے۔
عارف حبیب
میںنے دسمبر 2021 جب عمران خان وزیراعظم اور میں ان کی ٹیم میںتھا یہ کہا کہ یہ دکان چلنے والی نہیںہےاور میں اس پرآج بھی قائم ہوں۔ ہمیںصرف درآمد و برآمد کی مد میں ملک چلانے کےلیے اگلے پانچ سالوں72بلین ڈالر چاہیے۔ اندازے کے مطابق51بلین ڈالر ہم لے آئیں گے لیکن اس کے بعد بھی 20 بلین ڈالر کا شارٹ فال ہے۔
یہ ریاست اپنی چادر سے زیادہ اخراجات کے ساتھ زندہ ہے، ہم درآمدی ملک بن کر رہ گئے ہیں۔ ہمارا درآمدی بل معیشت کے لیے ناقابل برداشت ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سے ہم اپنا کرنٹ اکاونٹ قابو نہیںکرپا رہے۔ دوسری طرف ہم نے برآمدات پر کوئی کام نہیںکیا۔ ہمارے مسئلے آئی ایم ایف کے چھوٹے چھوٹے انجیکشن سے حل نہیںہوں گے۔ ہم اپنے ملک کو معاشی تباہی سے نہیںبچا سکتے۔
شبر زیدی
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کے لئے آئی ایم ایف کے پاس جانا مسئلے کا حل نہیں ہے لیکن پاکستان کی موجودہ معاشی صورت حال میں آئی ایم ایف سے معاہدہ ناگزیر تھا، ایک دوسری رائے یہ بھی ہے کہ پاکستان کو اپنے وسائل پر انحصار کر کے آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنا چاہیے، پاکستان کی معیشت اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے، فارن ایکسچینج کا شدید مسئلہ درپیش ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی مسئلہ بنا ہوا ہے اور ڈالر کا حصول بہت مشکل امر بنا ہوا ہے، جس کے سبب روپیہ تیزی سے اپنی قدر کھو رہا ہے، ایک درآمدی ملک ہونے کے سبب بھی افراط زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔
آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے باعث بھی مہنگائی تیزی سے اوپر جا رہی ہے، بجلی اور پٹرول کے بلند نرخوں نے پاکستانیوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے، جس مزید اضافہ کے خدشات موجود ہیں، پاکستان کا سیاسی عدم استحکام بھی معاشی عدم استحکام کی بڑی وجہ ہے، پاکستان کے ملکی سیاسی صورت حال، اسٹریٹیجک پوزیشن اور خطے کے حالات کے سبب ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے لئے فضا سازگار نہیں، ایکسپورٹ میں اضافہ کرنے میں بھی ہم ناکام ہیں، ماہرین خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان کی معیشت، صنعت و زراعت اور عوام کے لئے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔
پاکستان ان مشکلات سے کیسے نکل سکتا ہے، حکومت کو کیا بنیادی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے اور کیا یہ فیصلے کم زور سیاسی حکومت کے بس میں ہیں کیا وہ بنیادی اصلاحات کرنے میں بااختیار بھی ہے، آئی ایم سے معاہدہ پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کرے گا یا مسائل کم ہوں گے؟ یہ جاننے کے لئے روزنامہ جنگ کراچی کے زیر اہتمام "آئی ایم ایف، مسئلہ یا حل" کے موضوع پر جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا، آئی بی اے، کراچی میں منعقدہ جنگ فورم میں اکبر زیدی، (ڈائریکٹر، آئی بی اے، کراچی) عارف حبیب (چیئرمین، عارف حبیب گروپ) اور سید شبر زیدی (سابق چیئرمین ایف بی آر نے شرکت کی، میزبانی کے فرائض جنگ فورم کراچی کے ایڈیٹر محمد اکرم خان نے سر انجام دئیے، فورم کی تفصیلی رپورٹ پیش خدمت ہے۔
جنگ: پاکستان میں جب کوئی نئی حکومت آتی ہے اسے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا یا اسے لے جایا گیا ہے ۔کیوںکہ آئی ایم ایف سے بعض معاہدے نگراں حکومت نے کیے پھر اس اسے منتخب حکومت کے حوالے کیا گیا جس پر عمل کردرآمد کرنا اس حکومت مجبوری بن جاتی ہے۔حکومتیں خود بھی ان سے رجوع کرتی ہیں گزشتہ عمران خان حکومت بھی معاشی حل کے لیے تاخیر سے آئی ایم ایف کے پاس گئی تھی لیکن موجودہ حکومت نے ان سے رجوع کی فوری کوششیںکی ۔ایک طرف یہ کہاجارہا ہے کہ اگر آئی ایم ایف سے مدد نہ لی گئی تو ہماری معیشت چل نہیںسکتی دیوالیہ ہوجائے گاہم ڈیفالٹ سری لنکا بن جائیں گے۔
دوسری طرف رائے ہے کہ آئی ایم ایف ہی ہماری مشکلات کی وجہ ہے ،اس کی شرائط سے ہم خود انحصاری کی طرف نہیںجاپارہے،ہمارا قرض کم کے بجائے بڑھ رہا۔قرضوں کے گرداب میںپھنس کر رہ گئے ہیں، ہمیں اب کڑی شرائط کے ساتھ جو قرض ملتا ہے وہ رقم بھی ہم پچھلے قرض کی ادائیگی کے لیےلے رہے ہیں۔تو کیاآئی ایم ایف ہمارا مسئلہ ہے یا مسائل کا حل ہی ہمارا آج کا موضوع ہے کہ اسی پر گفتگو کریں گے۔ہمارا جو موجودہ معاہدہ ہوا اس کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کے خیال میں آئی ایم ایف ہمارے مسائل کا حل ہے یا خود مسئلہ۔
اکبر زیدی: پہلے میں جنگ فورم کا شکریہ ادا کروں گا۔میری اس پر کوئی دو رائے نہیں کہ آئی ایم ایف مسئلہ ہے،میں ہمیشہ سےاس کا مخالف رہا ہوں،آئی ایم ایف کی آمد آفت ہے،اور یہ ہی میری مستقل سوچ ہے۔لیکن دوسری طرف یہ حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف نہیں بلاتا لوگ خود اس کے پاس جاتے ہیں،جس کی وجہ ہمارے حکمرانوں کے ایسے فیصلے ہیں جو ہمیں آئی ایم ایف جانے پر مجبور کرتی ہے،یہ حکمراں سول اور فوجی دونوں حکومتیں ہیں۔ آئی ایم ایف حل ہے یا مسئلہ بظاہر سادہ سوال ہے لیکن اس کاجواب پیچیدہ ہے۔
آئی ایم ایف کے پاس وہی ملک گئے ہیں جنہیں تباہی نظر آرہی ہوتی ہے۔پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں 22 مرتبہ گیا ہے۔تو اس کا مطلب آپ سمجھ لیں کہ 22مرتبہ تباہی ہمارے سر پر تھی۔ لیکن ہم اس کے باوجود بار بار جائیںگے حالانکہ اب تو آئی ایم ایف ہم سے جان چھڑانا چاہ رہا ہے۔لیکن اب ہم اس کا دامن چھوڑنے کو تیار نہیں۔ کوئی بھی ریاست آئی ایم ایف تب جاتی ہے جب ان کی اقتصادی حالات بہت بگڑچکی ہوتی ہے۔معاشی حالات انہیں وہاں لے جانے پر مجبور کردیتے ہیں۔
یہ حالات کیوں خراب ہوتے ہیں۔ اس کے ذمے داری حکمراں شرافیہ پر ہے، حکمران اشرافیہ سے مراد وہ لوگ جو حکومتی فیصلہ سازی کا کردار ہیں۔ان میں بیوروکریسی،کاروباری ،جاگیر داراوردیگر سرکاری مشینری آسان الفاظ میں طاقتور بااختیار افراد ۔یہ لوگ ٹیکس جمع نہیںکرتے ہمارےٹیکس وصولی یااکھٹا کرنے کے نظام میںبہتری میں مدد نہیں کرتے۔
میں سمجھتا ہوں میں پاکستان معیشت میں خرابی کی بڑی بنیادی وجہ ہماری آمدنی میں کمی (lack of revenue)ہے۔ آپ اسے ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کہہ دیں۔ ابھی شاید9.2،سے9.5 فیصد ہے ایک زمانے میں14 یا 15فیصد کہتے ہیں لیکن وہ بھی بہت کم تھا۔حالانکہ ہر پاکستانی ٹیکس دیتا ہے،ایس ایم ایس سے لے کر پانی کی بوتل تک پر۔ روزمرہ معمول کی کئی چیزوں پر ہم سب ٹیکس دے رہے ہیں۔لیکن جو انکم ٹیکس ہے وہ قریبا22کروڑ میںسے صرف ایک سے دوفیصد لوگ دیتے ہیں۔
دو فیصد پاکستانی ہی یہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس میں بھی زیادہ تر وہ جن سے جبراً ٹیکس وصولی ہوتی ہے۔جیسے تنخواہ دار طبقہ ،ان کی ٹیکس کٹوتی تنخواہ ملنے سے پہلے ہوجاتی ہے، ہم میںکوئی رضاکارانہ ٹیکس دینے کی ذمہ داری ادا نہیں کررہا۔ عالمی بینک کے مطابق اندازاً ہم سے صرف 20فیصد ریونیو جمع ہوتا ہے اوراخراجات کئی گنازیادہ ہیں۔ جب آپ کے پاس آمدنی نہیں ہوگی تو ریاست کام کیسے کرےگی۔ بنیادی ضرورت کے ترقیاتی کام کیسے ہوں گےتعلیمی ادارے، اسپتال ،پانی ،بجلی ،سڑکیں جن کی ہمیںضرورت رہتی ہے۔ ان بنیادی منصوبوں کی تکمیل قرضوں کے سوا دوسرا راستہ نہیںبچتا۔ قرض لینا کوئی بری بات نہیں ہے، سب لیتے ہیں پھر واپس بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم قرض لے کر اسے اس مد میں یا ٹھیک جگہ خرچ نہیں کریں گے۔
تو منصوبہ بھی کھٹائی میںاور قرض میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ پھراعتماد کےمسائل جنم لیتے ہیں ہمارا مسئلہ بھی یہی ہے۔ جب کوئی ہمیں قرض نہیںدیتا تو پھرہم آخری در آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف بہت کم شرح سود پر ابھی ایک اعشاریہ پانچ فیصد تک پر قرض دیتا ہے۔سود حرام ہے، سپریم کورٹ کہہ چکی ہے شریعت کورٹ میں معاملہ ہے۔ایک طرف تو اسے حرام کہتے ہیں لیکن جب آئی ایم ایف یا کوئی ملک جو زیادہ شرح سود پر قرض دیتا ہے تو وہ حلال ہوجاتا ہے۔ آئی ایم ایف قرض دیتے وقت شرائط لگاتا ہےجو ان کا پورا حق ہے۔
مجھ سے بھی کوئی اگر ادھار مانگے گا تو ا پنی رقم کی محفوظ واپسی کے لیے یہ پوچھنے کا حق رکھتا ہوں اس رقم کا کیا کروگے، آج نہیں ہے تو کل یہ کیسے دوگے۔اپنےاطمینا ن کے بعدہی ادھار دینے کا فیصلہ کروں گا۔ آئی ایم ایف بھی یہ ہی کرتا ہے۔ ہم مجبور ہوکر ہی آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں۔ ایک بار ہو تو غلطی سمجھا جائے لیکن کوئی غلط کام باربار دہرایا جایا تو پھر شرم آنی چاہیے لیکن وہ ہمیں نہیںآرہی۔
جنگ:ہم آئی ایم ایف کے پاس ماضی میںبارہا جاتے رہے ہیںلیکن اس وقت اور ابھی جانے میں کیا فرق ہے۔ کیوں ابھی ہمیں سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ ہوجانے کی بات کی جارہی تھی۔
اکبر زیدی: کیوں کہ ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں تھے اس لیے ڈیفالٹ نہیںکرتے، تو وہ ہونا مشکل تھا لیکن ناممکن کچھ بھی نہیں۔ سری لنکا آئی ایم ایف کے پروگرام میں نہیں تھا۔ اسی لیے وہ ڈیفالٹ ہوا ان کی دیگر وجوہات بھی تھیں۔ میں ویسے میںکبھی یہ نہیںکہوں گا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ ٹھیک ہے۔ لیکن اس وقت کہنا پڑا۔
میں آجیہ کہنے پر مجبور ہوں اس ملک کا سب سے زیادہ ستیاناس عمران خان کی معاشی پالیسی کے سبب ہوا۔اب وہ حفیظ شیخ ہوں،شوکت ترین یا عمران خان یہ ذمے دار ہیں۔ہم آئی ایم ایف سے آخری معاہدے میں ہم کوویڈ کی وجہ سے سخت شرائط سے بچ گئے تھے، کوویڈ حالات کے سبب اس نے اپنی شرائط نرم کرتے ہوئے لینے کے بجائے مزید رقم دی تھی۔ کوویڈ ختم ہوتے ہی صورت حال معمول پرآئی تو آئی ایم ایف کے پروگرام کو کرنا تھا۔
تو رواں سال جب انہیں اندازہ تھا کہ ان کی حکومت جانے والی ہے توعمران خان نے پٹرول قیمت کے حوالے سے کہ دیاکہ وہ جون تک قیمت میں اضافہ نہیں کروں گا۔ان ہی دنوں روس یوکرین جنگ شروع ہوچکی تھی ، دنیا کو پتا چل گیا تھاپٹرول کی قیمتیں بڑھیں گی۔ تومیں سمجھتا ہوں کوئی بھی ماہر اقتصادیا ت اس قسم کے اعلان کی حمایت نہیںکرسکتا تھا۔
چار مہینوں میںصورت حال بدترین ہوگئی۔ تو اس خراب یا بگڑے حالات ہمارا آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری بن گیا تھا۔دوہزار اٹھارہ الیکشن کے بعد جوبھی حکومت آتی اسے حالات کے سبب آئی ایم ایف کا پاس جانا ہی تھا۔اس موقع پر تحریک انصاف کےسابق وزیرخزانہ اسد عمر صاحب کے تاخیری فیصلے نے معیشت کاستیا ناس کیا وہ ہم بھگت رہے ہیں،اس سے پہلے عمران خان کہہ چکے تھے کہ وہ خود کشی کرلیں گے لیکن کسی سے پیسے نہیںمانگوں گا۔
لیکن پھر وہ گئے لیکن خود کشی نہیںکی۔اسد عمر نے فیصلے میںتاخیر کی لہذا حفیظ شیخ صاحب کو لایا گیا تھا۔وہ ایم ایف کے پاس گئے، لیکن جب آپ بروقت فیصلے نہیں کرتے تو مسائل بڑھ جاتے ہیں ،پیسوں کی مزید ضرورت پڑجاتی ہے تو ان کی شرائط مزید سخت ہوجاتی ہیں۔ عمران خان حکومت آنے کے بعد پاکستان کے ساتھ یہ ہی ہواہے۔ہماری حکومتیں چاہے وہ سول یا فوجی ان کی طرز حکمرانی ٹھیک نہیں۔یہ مناسب ٹیکس جمع نہیں کرپاتے ۔ہمارے مسائل کی وجہ آئی ایم ایف نہیں 70سال سے حکمرانی کرنے والے ہیں۔ ٹیکس جمع نہیںکرتے تو آمدنی ویسے ہی کم ہوجاتی ہے۔
تو یا حکمران بدلیں کوشش جاری ہے یا ایسے لوگ ہوں جو ٹیکس مناسب جمع کرسکیں ورنہ مسائل یوںہی رہیں گے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بعد بھی ہمارے روپے کی قدر پر کوئی فرق نہیںپڑا۔ وہاں جا کر ملک تو بچا لیا لیکن اب عوام کا کیا ہوگا ۔معاہدے ہوتے ہی بجلی پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ،عوام مشکل میںآگئ ہے۔ شاید مبینہ ملکی معیشت بہتر ہورہی ہےلیکن عوام برے حال میںہیں ۔اس میںآئی ایم ایف کا ہاتھ ہے لیکن وہ ذمہ دار نہیں ہے۔
جنگ: موجودہ حکومت نے جبرا ً آئی ایم ایف شرائط قبول کی ہیں جس کی وہ سیاسی قیمت بھی اداکررہے ہیں۔ جس میں بجلی ،پٹرول کی قیمتوں میںاضافہ اور روپے کی قدر میں کمی اس کاعوام پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔
اکبر زیدی: اس کا برا اثرابھی بھی ہے اور عوام پرآگےبھی پڑے گا۔بنیادی چیزوں کی قیمتیں بڑھ گئیں، کساد بازاری عالمی سطح پرہے۔ امریکا میں شرح سود بڑھ گی ہے تو اس کے نتیجے میںدنیا بھر سے لوگ اپنےڈالر کو منتقل کرکےاس کی امریکا میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔آپ خود جائزہ لیں کہ ڈالر کے مقابلے میںدنیا کی تمام کرنسی کی قدر میں کمی دیکھی جارہی ہے۔تواس وقت ہمیں ایک سے زائد مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ایک تو ہم آئی ایم ایف کے ساتھ گئے ،عالمی کساد بازادی، ہماری روپے کی قدر میںکمی تو ہر طرح سے بہت مشکل حالات کا شکار ہیں۔ امید ہے صورت حال بہتر ہوگی لیکن کتنے عرصے میں اس کا کہنا مشکل ہے۔
جنگ: شبرزیدی آپ کے خیال میں آئی ایم ایف حل ہے یا مسئلہ۔
شبر زیدی: سب جانتے ہیں آئی ایم ایف کسی مسئلے کا حل نہیں۔ریاست پاکستان 1947 سے2022 تک اپنا کرنٹ اکاوئنٹ بیلنس نہیں کرسکی ہے، ہمارے پاس ڈالر کم آتارہا اور جاتا زیادہ رہا ہے۔ اسے میں اپنی اکاونٹنگ کی زبان میںکہتا ہوں ہم vibal country نہیںہے ۔ میںنے دسمبر 2021جب عمران خان وزیراعظم اور میں ان کی ٹیم میںتھا یہ کہا کہ یہ دکان چلنے والی نہیںہےاور میں اس پرآج بھی قائم ہوں۔ آئی ایم ایف کی تازہ رپورٹ کے مطابق اس میں شیڈول نمبر تھری اے ہوتا ہے،تھری اے ہمارے فارن کرنسی اکاوئنٹ بیلنس کا شیڈول ہے۔اس میں یہ ذکر ہوتا ہے ہمارے پاس کتنے ڈالر آئیںگے اور کتنے جائیں گے۔کتنا بیلنس ہوگا وغیرہ وغیرہ۔
اگر ہم صرف تھری اے شیڈول کا ہی جائزہ لیں،تومیں صاف لفظوں میںکہہ دوں اسی شیڈول کے مطابق یہ دکان چلنے والی نہیںہے۔اس میںسال23 سے لے کر 27 تک پانچ سالوں کا کل بنیادی خسارہ، بنیادی خسارے سے مراد درآمد، منفی درآمدات ، منفی ترسیلات زر۔ریمی ٹینس کا پرائمری کل خسارہ ہی 53بلین ڈالر ہے۔ قرض کے اعداد وشمار ہی12 بلین سے بڑھ رہے ہیں۔یعنی ہم کوئی قرض ادا نہیںکررہے بلکہ مزید حاصل کریںگے۔ ریزرو میں آئی ایم ایف 6بلین ڈالر جمع کرے گا۔تو اگر ہم صرف ان کو جمع کرلیں تو ہمیںصرف درآمد و برآمد کی مد میں ملک چلانے کےلیے اگلے پانچ سالوں72بلین ڈالر چاہیے۔ان کے اندازے کے مطابق51بلین ڈالر ہم لے آئیں گے لیکن اس کے بعدبھی20بلین ڈالر کا شارٹ فال ہے۔ تو مجھے تو سمجھ نہیںآرہی کہ آگے دکان کیسے چلے گی۔
لیکن مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، ہمارے یہ اعداد وشمار 50 کی دہائی سےاب تک ایسے ہی ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ان برسوں میں ہمارے پاس بیچنے کے لیے کچھ ہوتا تھا، ان برسوں میں سب سے بڑی چیز ہم نے اپنی عزت بیچی۔کبھی ہم نے سرد جنگ کے زمانے میں امریکا کا ساتھ دیا، کہا روس یا لیفٹ کو یہاں نہیںآنے دیں گے۔ہمیں اس کے ڈالرملے۔
پھر ہم نے کہا روس کویہاں نہیں آنے دیں گےپھر ڈالر ملے،پھر ہم نےکہا ہم طالبان کے خلاف جنگ میںساتھ ہیں پھر ڈالر ملے، پھر ہمیں وار اینڈ ٹیرر میں ڈالر ملے اس طرح ہمیں سو ڈیڑھ سو بلین ڈالر ملتے رہے ہیں۔ یہ ریاست اپنی چادر سے زیادہ اخراجات کے ساتھ زندہ ہے، ہم درآمدی ملک بن کر رہ گئے ہیں۔ ہمارا درآمدی بل معیشت کے لیے ناقابل برداشت ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سے ہم اپنا کرنٹ اکاونٹ قابونہیںکرپارہے۔ دوسری طرف ہم نےبرآمدات پر کوئی کام نہیںکیا تو وہبڑھ نہیںپا رہیں۔ ہمارے مسئلے آئی ایم ایف کے چھوٹے چھوٹے انجیکشن سے حل نہیںہوں گے۔
میں آسان لفظوں میں دہراتے ہوئے یہ کہہ رہا ہوںیہ دکان بند کریں اور اس کی تنظیم نو کریں۔ عمران خاں یا وزیراعظم شہباز شریف فارن کرنسی اکاونٹس کے متعلق یا آئی ایم ایف کے متعلق بیان بازی میں جو بھی کہتے رہیں اس کی کوئی اہمیت نہیںہے۔ اب انہیں جس کاغذیا شرط پر کہا جائے گا یہ دستخط کریں گے۔ یہ ان کے کہنے پر رات کو دن اور شام کو صبح کہنےپر مجبور ہیں۔30جون 2018 میں ہماری آج تک کی تاریخ کا کرنٹ اکاوئنٹ میں سب سے بڑا تجارتی خسارہ 18بلین ڈالر تھا جب مفتاح اسماعیل صاحب وزیرخزانہ تھے۔
یہ ن لیگ دور حکومت کا تھا۔ میں سمجھتا ہوں ملک کودرآمدی معیشت بنانے کا سب سے بڑی ذمے دار نواز شریف خاندان ہے ان کا مائنڈسیٹ ہیimport Basedہے وہ مینوفیکچرنگ پر پر یقین ہی نہیںرکھتے۔ آئی ایم ایف جانے میںتاخیر کی وجہ یہ رہی کہ صورت حال عمران خان یا اسد عمر کی سمجھ میں نہیں آئی۔ چھ مئی2019 کو میں اور عارف نقوی عمران خان سے ملنے گئے ہم نے ان سے کہا آپ کی یہ دکان بند ہونے والی ہے، انہیںیقین نہیںآیا۔ہم نے انہیں تین کاغذ دکھائے۔ ایک بیلنس کا، دوسرا رریزو کا اورتیسرا خراجات کا۔ہم نے کہا آپ کس دنیا میں بیٹھے کیا سوچ رہے تو انہوں نے کسی کو فون کیا اور کہا یہ تویہ کہہ رہے ہیں تم نے مجھے کیوں نہیںبتایا وہاں سے جواب آیا یہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے تھا۔
صورت حال کا ادراک ہوتے ہی عمران خان نے کہا ہم کل سے آئی ایم ایف میںچلے جائیں گے۔ سابق وزیراعظم حقائق سے بے خبراندھیرے میں تھے اسی لیے فیصلے میں تاخیر ہوئی۔ہم نے دوہزار اٹھارہ کے آئی ایم ایف پروگرام پر دستخط کے وقت چیئرمین ایف بی آر تھا۔آئی ایم ایف نے کہا آپ کی ٹیکس وصولی پانچ ہزار پانچ سو بلین ہوگی اور آپ درآمدات کو contain کریں گے۔میں نے عمران خان سے کہاکہ میںپانچ ہزار پانچ سو ٹیکس حدف پر اتفاق نہیںکرتایہ مجھے منظور نہیںہے۔
دلچسپ بات دیکھیںکہ آئی ایم ایف پالیسی اس میٹنگ میں جو لوگپاکستان کی جانب سے بیٹھے ہوئے تھے وہ مجھے اس شرط پرہ قائل کرنے کی کوشش کررہے تھے،نہ کہ وہ جو باہر سے آیا تھا۔ہماری بیورو کریسی کا یہ بھی بڑا مسئلہ ہے۔ دوسرے دن عمران خان نے مجھے فون پر کہا اگر وہ 8500 کہیںگے تو ہمیں اس پر بھی دستخط کرنا پڑےگا۔ تویہ ہے ہماری حقیقی صورت حال، کوئی بھی مائی کا لا ل آجائے کوئی بھی آئی ایم ایف پروگرام آجائے ہم اپنے ملک کو معاشی تباہی سے نہیںبچا سکتے۔
جنگ: آپ کی طرف سے ٹوئیٹر پر بھی بات آئی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کرچکا ہے،اس کی وضاحت کردیں۔
شبر زیدی: آپ کا 53بلین ڈالر کا پرائمری خسارہ ہے۔ اگلے پانچ سال میں 22 بلین کا لون بڑھانے جارہے ہو،اور چھ بلین کا آپ ریزرو بڑھ رہا ہے۔یہ کل ٹوٹل 73بلین روپے ہے۔ جس میں سے آپ اندازہ لگا رہے ہو کہ ہمارے پاس 50بلین ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی تو سوال یہ ہے کہ 22کہاں سے آئےگا۔آپ لوگ سمجھ دار لوگ ہوں آئی ایم ایف کی ویب سائیڈ پرجاکر تھری اے کا شیڈول نکا لیں اور تخمینہ نکال لیں۔ اسلام آباد Q بلاک میںہمارےوزارت خزانہ کا دفتر ہے۔ اس کے بائیں جانب وزیرخزانہ بیٹھتے ہیںاور دائیں جانب پاکستان میںآئی ایم ایف کے نمائندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ہم نے ایسا دور بھی دیکھا جب دونوں بات نہیں کرتے تھے۔
میرا تجربہ کہتا ہے وہ لوگ جو وہاں سے آتے ہیںنہ انہیںپاکستانی معیشت کو معلوم ہوتا ہے نہ وہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر انہیں سمجھایا بھی جائے تو وہ جب بھی ایک انچ بھی آگے پیچھے نہیںہوتے۔یہ مائنڈ سیٹ ہے کہ ہماری کوئی بات تسلیم نہیں کرنی۔ آئی ایم ایف کے حوالے سے اٹھنے والا سوال فضول ہے کیوں کہ مجھے تو مستقبل میں بھی ان حالات سے نکلنےکا کوئی فوری راستہ نظر نہیںآرہا۔
جنگ: اس سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے۔
شبر زیدی: سیدھے دو راستے ہیں۔ ہمار ی رقم بڑی نہیںہے ۔50ہزار بلین ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری دنیا کی نظر میں موجودہ دورمیں کوئی بڑی نہیںہے۔ اگر آپ روز یہ خبر پڑھیںیا سنیں کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ معاہدہ ہوگیا یا نہیںہوا۔ بدامنی یا دہشت گردی کےواقعات سے متعلق خاص طور پر ٹی ٹی پی یا افغانستان کے حوالے سے یا یہ جو سیاسی عدم استحکام ہے اس مائنڈ سیٹ اور حالات کے ساتھ غیرملکی سرمایہ کاری کو اپنے ملک کیسے لاسکتے ہیں، وہ ان حالات نہیںآسکتا۔ہم کچھ بیچنے سے بھی کوئی بڑی رقم نہیںملنے والی۔ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے اگر آپ سمجھتے ہیںکہ آئی ایم ایف اچھا ہے یا برا یہ سوال ہی غلط ہے۔کیوں کہ وہ مجبوری ہے اور ہمیں یہ کرنا ہے۔
آپ نے loan liabilities ادا کرنی ہے۔ ہم امید کررہے ہیںہماری برآمدات کا حجم اگلے پانچ سالوں میں44بلین تک ہوگا۔ ان میںچالیس فیصد سے زیادہ امریکا اور اس کے اتحادی کو جاتا ہے تو یہ بھی ممکن نہیںہے کہ امریکا کے مخالف جاکر اپنی برآمدات کو سنبھال سکیں۔ آپ لوگ جب بھی آئی ایم ایف کی بات کریں تو پاکستان کے زمینی حقائق کو دیکھ کر کریں۔ پاکستان پر 140بلین ڈالر کا قرض ہے۔ میں نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ پاکستانیوں کے بیرون ملک 120بلین ڈالر کے اثاثے رکھے ہیں، بعد میںانہوں نے اس کی ڈیکلریشن بھی کرائی ہے۔
ہم نے اور خاص طور پرنواز شریف صاحب نے1992 سے لے 2018 تک جو foreign exchange regime چلایا۔ اس نے پاکستان سے سرمایہ سارا آوٹ فلو کردیا،آج پاکستان کا سرمایہ باہر استعمال ہورہا ہے،یہ ٹھیک یا غلط یہ اب تاریخ ہے۔ پاکستانیوں نے یہ اثاثہ کوقانونی طور پر ملک سے باہر منتقل کیا۔1992 سے2018 تک پاکستان میںجو foreign exchange regime رہا وہ دنیا کی بدترین مثال ہے۔ یہ سلسلہ تیس سال چلا پھر ہم کہتے ہیںہم غریب ہیں۔
جنگ: آئی ایم ایف مسئلہ یا حل آپ کا اس پر کیا نقطہ نظر ہے۔
عارف حبیب: قدرت نے پاکستان کو بے تحاشا نعمتوں سے نوازا ہے۔ہمارا سب بڑا مسئلہ خراب مینجمنٹ ہے،اگر ہم حالیہ دنوں کے معاملات کا جائزہ لیں،ہمارا ڈالر 165 کے لگ بھگ تھا پھر اچانک اسے 240تک جاتے دیکھا، میںجو اس کی وجہ سمجھا ہوں اس کے مطابق پچھلی حکومت یا وزیراعظم نے جاتے ہوئےاپنی معیشت کی حیثیت سے زیادہ سبسڈیز دے دی تھی جو غلط فیصلہ تھاکیوں کہ ہمارا پچھلے سال کا بجٹ خسارہ ہی سات فیصد سے زیادہ تھاجبکہ وہ 5فیصد سے زیادہ پر ہی ناقابل برداشت ہوتا ہے۔موجودہ حکومت آئی تو اس نے مقبولیت کے لیے دعویٰ کردیا کہ ملک بھر میں لوڈشیڈنگ صفر کردیں گے۔
اسی جوش میں جب بین الاقوامی مارکیٹ میںآئل کی قیمتیں 125ڈالر پر تھیں تو انہوں نے دو تین مہینے کا زیادہ خرید لیا جس سے صرف جون کے مہینے میں2.7بلین ڈالرکا کرنٹ اکاونٹ خسارہ آیا۔ان دو فاش غلطیوں سے حالیہ مشکلات پیدا ہوئیںہیں۔اب مسئلہ بڑھتی مہنگائی ہے۔اشیا کی قیمتوں میںاضافے میں روس یوکرین جنگ کا بھی کردار ہے۔ لیکن بڑی وجہ ہماری کرنسی کی قدر میںکمی ہے اس سے کاروبار کو تو فائدہ ہوتا ہے لیکن عوام کی مشکلات بڑھ جاتی ہے تیزی سے بڑھتی مہنگائی کے مقابلے میں عام آدمی کی آمدنی بڑھنے کی رفتار بہت کم ہوتی ہے۔
سبسڈیز کا خاتمہ بھی ہوا ہے تو مجھے اب ڈر ہے کہ اب گیس اور بجلی کے بل لوگوں کے ملیںگے توکہیں فسادات نہ شروع ہوجائیں۔جس کی ہلکی سی جھلک ہم نے تازہ بل آنے پر دیکھی تو حکومت نےکچھ حد تک فیصلہ واپس لیا۔لیکن ابھی بھی مڈل کلاس بہت دباو میں ہیں۔ تو جو سوال ہے کہ آئی ایم ایف مسئلہ ہے یا حل میںآئی ایم ایف کو اسپتال سے تشبیہ دوں گا،جہاں صحت یابی کے علاج کےلیے آپریشن ،کڑوی گولیاںسب کچھ ڈاکٹر کے مشورے پر کرنا پڑتا ہے تو جب آپ آئی ایم ایف جاتے ہیںتو سمجھ لیں آپ کی حالت بہت خراب ہےاور اس کے ذمے دار ہم خود ہیں۔
ہمیںماضی میںکئی بار آئی ایم ایف کا پروگرام لینا پڑا تو پھر ان کی شرائط ہوتی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ آپ اپنے آمدنی کو نظم وضبط میںلائیں۔ میں خاص طور پر پاکستان میںیہ دیکھتا ہوں کہ ہماری سرکاری آمدنی بہت کم ہوجاتی ہے۔ کاروبار تو ٹھیک چل رہے ہوتے ہیں۔ حکومتی آمدنی میںکمی سے ہماری ریٹنگ بہت گرجاتی ہے،وہ گرنے سے غیر ملکی سرمایہ کار ہماری طرف نہیںآتے ہمارے رسک پریمیم بڑھ جاتے ہیں۔جس کے بعد ہمیںکوئی قرضہ ملتا ہے تو بہت مہنگا ملتا ہے۔ تو ہم انتہائی مجبوری میںآئی ایم ایف جانے پر مجبور ہوتے ہیںاور آئی ایم ایف اس کا حل نکالتا ہے جو سیاسی طور پر غیر مقبول ہوتے ہیں۔حالیہ دنوںمیں سبسڈیزختم کرنےکا کہا گیا ہے، بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔
سبسڈیز کے خاتمے سے یوٹیلٹیزکی قیمتوں میںبہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔پی ٹی آئی کے زمانے سے سب نے سنا ہوگا کہ اس مرتبہ آئی ایم ایف شرائط ابتدا سے ہی سخت تھیں اس کی وجہ پاکستا ن کا ماضی کا خراب ریکارڈ ہے، پاکستان کی کامیاب حکومتیںبھی اپنے دستخط شدہ معاہدہ پر پوری نہیںاتریں۔ تو ابھی کڑی شرائط پر معاہدے ہونے کی وجہ ہمارا ٹریک ریکارڈ ہے۔دوسرا ہم نے دیکھا ہے جو لوگ آئی ایم ایف سے بات چیت کے لیے جاتے ہیں ان کے پاس کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔
میں تویہ کہتا ہوں کہ گلی چھوکروں کو ہماری قسمت کے فیصلہ کا اختیار مل گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے آنے سے چیزیں بہتر ہوتی ہیںلیکن اس کے پروگرام سے نکلتے ہی ہم پرانے ڈگر پر چلے جاتے ہیں۔ تو میرے خیال میں ہم اگر بیمار ہیںتوآئی ایم ایف حل ہے۔ لیکن ہمیںکوشش کرنی چاہیے کہ وہ وقت نہ آئے کیوںکہ پھر جب ہم وہاں جائیںگے تو وہ علاج کے لیے سبسڈیز ختم کرنے کی بات کریں گے۔ ٹارگٹڈ پر و ہ کچھ حد تک آپ کی بات سن لیتے ہیں۔
جنگ: ہماری صنعتیں جن سے عوام کا روزگار وابستہ ہے ، اوربلند سطح کی مہنگائی۔تو آپ کے خیال میںصنعتوں اور عوام کےلیے مسائل گھٹیں گے یا بڑھیں گے۔
عارف حبیب: حالات سے لگتا ہے مشکلات باقی ہیں،جس کی ہمیں تیاری کرنی چاہیے۔ یہ تیاری حکومت کے ساتھ عوام کو بھی کرنی پڑے گی۔ عوام کو مثلا گھر سے ایک کے بجائے دوافراد کام کریں، آمدنی میںاضافے کے نئے ذرائع ڈھونڈیں وغیرہ وغیرہ ہم مہنگائی کامقابلہ اپنی آمدنی کو بڑھا کر کرسکتے ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ ہے ہمیں ڈالر کی کمی کا سامنا ہےلیکن عوام کو ان مشکلات کا احساس نہیں ہے۔
ان حالات میں بھی بین الاقوامی سفر کررہے ہیں۔ چار پانچ مرتبہ عمرہ اور حج پر جارہے ہیں ذرمبادلہ خرچ کررہے ہیں۔پھر ہم روزمرہ کی خریداری کے وقت بھی نہیںسوچ رہے کہ چیز غیر ملکی ہے۔ پاکستانیوں اب اس تبلیغ کی ضرورت ہے کہ وہ زیادہ سے ملکی تیاراشیا کوفروغ دیتے ہوئے اسے خریدیںاور استعمال کریں۔ غیرملکی اشیا سےگریز کریں۔
جنگ: ہماروہ اقدامات کیا ہوں جس سے آئندہ کبھی پاکستان آئی ایم ایف کے پاس نہ جائے ،کیا ایسا ممکن ہے۔
عارف حبیب: ممکن ہے،اس میں سب سے پہلے ہمیں غیرملکی سرمایہ کمانے کی کوشش کرنی پڑے گی ۔اور صنعتوں پر یہ لازم کریں کہ وہ جوبھی چیز تیار کرتی ہے اس میں برآمدات کا حصہ زیادہ رکھے، ہمیںاس کے لیےاپنے لوگوں تعلیم اور تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے بیرون ملک ہم وطن ہیں میری نظر میں ایک بڑا پول ہے،اندازاًان کی سالانہ آمدنی 60 بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔
اس میں سے 30بلین ترسیلات زر کے ذریعے پاکستان میںآتے ہیں باقی کے 30بلین ڈالر وہ اپنے پاس رکھتے ہیںیا اس کی سرمایہ کاری باہر ہی کرتے ہیں،ان کے لیے یہاں دلچسپی پیدا کرنا ضروری ہے۔ اس میںمیڈیا کو کردار ادا کرنے کی بہت ضرورت ہے۔بدقسمتی سے وہ اس طرح اپنا کردارادا نہیںکررہے۔
ڈاکٹر اقدس صفدر(حبیب یونی ورسٹی):آئی ایم ایف ایک نظریاتی ادارہ ہے تو اس کی شرائط کیوں چیلنج نہیںکی جارہیں وہ نظریاتی مزاحمت ہمیں نظر کیوں نہیں آرہیں۔
اکبر زیدی: آئی ایم ایف کی شرائط کے خلاف مزاحمت ہے لکھا جارہا ہے لیکن فیصلہ ساز کوئی اور لوگ ہیں۔ ہم خود آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں۔1995 میں بھی ایک بحران آیا تھا تو اس موقع پر دنیا بھر سے لوگ گئے لیکن ملائشیا کے مہاتیر محمد نے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اپنے مسائل خود حل کریں گے۔ موجودہ وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی کہاکہ ہمیں نہیںپسند لیکن مجبوری ہے جانا پڑے گا۔ لہذا ہمارے پاس کوئی اور حل نہیں ہے۔
شبر زیدی:ہم آئی ایم ایف کے نظریاتی جھکاو کو جانتے ہیںلہذا ان کو تو ہم مجبور نہیںکرسکتے کہ وہ اپنے نظریات بدلیں ۔اور ہمارے پاس کوئی دوسرا حل نہیں، ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس سب کچھ تبدیل کرنے کا وقت بھی نہیںہوتا۔ ہمارا اپنا کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہمارا سب سے بڑا عذاب مسئلہ افغانستان ہے،پاکستان کا بنیادی مسئلہ علاقائی حالات ہیں تو ایسے حالات میں کون سرمایہ کاری کرے گا۔ ہمیں یہ حالات بہتر کرنے پڑیں گے۔
عارف حبیب: میں سمجھتا ہوں آئی ایم ایف حل ہے۔ابھی ہم سب پریشان تھے لیکن پروگرام میں جانے کے بعد اعتماد بہتر ہوا ہے۔کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے اس کی شرائط ماننا خودکشی کے مترادف تھی لیکن موجودہ حکومت نے مانی ۔اگروہ یہ نہ کرتی تو پاکستان ڈیفالٹ کرجاتا۔ ہم اپنی زبان میںکہتے ہیںآئی ایم ایف نے موت دکھا کر بخار دے دیا۔لہذا کم ازکم جب تک آپ آئی ایم ایف پروگرام میںہیں انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہآپ ڈیفالٹ نہیںکریں گے۔
مصطفیٰ نقوی(طالب علم): ہم ٹیکس کے ذریعے آمدنی بڑھانے کی مستقل بات کرتے ہیں،ہم صنعتوں پر ٹیکس لگاتے ہیں ۔تو کیا ہم ٹیکس لگاکر اپنی برآمدات میںنقصان کررہے ہیں۔پراپرٹی سمیت دیگر شعبوں کو نظرانداز کررہے ہیں۔
شبرزیدی:برآمدات پر ہماری یہاں کوئی ٹیکس نہیںہے۔ بہت ہی معمولی سا ایک فیصد ٹیکس ہے کوئی ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ ٹیکس نہیں ۔پراپرٹی ٹیکس کے حوالے سے آپ نے ٹھیک کہا لاہورمیںپراپرٹی کے حوالے سے آخری سروے 1971میںہوا ہے۔ اب لاہور کتنا بڑھ چکا ہے لیکن پچھلے52سال سے کوئی سروے ہی نہیںہے۔اس خرابی کی ذمہ داری صوبائی حکومتیں ہیں۔
سارہ(طالب علم): یہ دکان نہیںچل سکتی،ہمارے درآمدی بل کا بڑا حصہ ایندھن کا ہے۔یہاں کہا گیا یہ عوام کا قصور ہے۔وہ کیسے۔
شبر زیدی: دکان داربھی عوام میں سے ہوتے ہیں سوائے پاکستان کے دنیا کے کسی شریف ملک میں بازار رات گئے تک نہیںکھلتے، دنیا بھر میںبازار صبح آٹھ بجے کھلتے اور شام چھ بجے بند ہوتے ہیں۔ میں نے تخمینہ لگا یا تھا اگر ہمارے بازار چھ بجے بند ہوجائیں تو ساڑھے تین بلین ڈالرکی بچت ہوسکتی ہے تو یہ قصور حکومت کا نہیں عوام کا ہے۔ حالات بتارہے ہیں ہماری معیشت اس طرح نہیں چل سکتی۔ معاشی حکمت عملی کے تحت پاکستان آپ کو دو حصوں میں تقسیم کرنا پڑےگا، ایک برآمدی مصنوعات کا اور دوسرا اندرونی ضروریات کا۔ آپ یہ نہیںکرسکتے خام مال کراچی میں اترے وہ مال ساہیوال میں لگے پھر بجلی بنا کر واپس کراچی لائیںایسا دنیا میںکہیںنہیںہوتا۔
یہ سراسر حماقت ہے۔ فیصل آباد ایکسپورٹ سیکٹر کبھی نہیںہوسکتا کیوں کہ ٹرانسپورٹ کے اخراجات مال کی لاگت مہنگا کررہاہے ۔تو آپ کو پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنا پڑے گا ایک سدرن پاکستان تود وسرا نادرن پاکستان۔ نادرن پاکستان ہماری تمام ضروریات کی پیداوار دے گا۔
سدرن پاکستان ایکسپورٹ کرے گا۔ آپ نے ایک پالیسی کے تحت سدرن پاکستان کو تباہ کیا ہے۔ اس لیے کہہ رہا ہوں یہ دکان بند کرکے اس کی ری اسٹرکچرنگ کریں۔ جب تک کراچی یا سدرن پاکستان کی ایکسپورٹ نہیںبڑھائیںگے ۔ہم لاکھ کوشش کرلیںدنیا میںہماری ایکسپورٹ نہیں بڑھے گی دنیا کے تمام ممالک وہ چاہے بنگلہ دیش، بھارت یا چین ہوں ان کا ایکسپورٹ سینٹر ساحلی علاقے کے قریب ہیں۔ہمارے یہاں سب الٹا ہے ۔ہمارا یک نقاطی ایجنڈا ہونا چاہیے ہر صورت اپنی برآمدات بڑھائیں۔
محمد صارم(طالب علم): وہ کون سے فوری حکومتی اقدامات ہونے چاہیے جس سے ہم مسائل سے نکلیں۔
شبرزیدی: ابھی وزیراعظم صاحب نےدکان داروں سے صرف 300روپے مہینے کو مانگے تھے لیکن فیصلہ واپس لینا پڑا۔ پاکستان کے سارے عذاب لفظ سے ٹی سے شروع ہوتے ہیں ٹی ٹی پی، ٹریڈرز، طالبان، میںنے اپنے زمانے میںایک ڈیٹا شائع کیا تھا جس کے مطابق کراچی کے صرف لیاقت آبادعلاقے کا ٹیکس پورے لاہور سے زیادہ ہے۔
نبیلہ احمد(طالب علم): کیا ہم صرف بلوچستان کی معدنی دولت استعمال کرتے ہوئے اپنے قرضے نہیں اتار سکتے۔
عارف حبیب: جی ہاں ہم اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
شبرزیدی:سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔