مسائل حل نہ ہونے پر متحدہ کی حکومت چھوڑنے کی دھمکی

September 22, 2022

الیکشن کمیشن نے کراچی ڈویژن کے تمام اضلاع میں بلدیاتی انتخاب 23 اکتوبر کو کرانے کا اعلان کردیا ہے۔ اعلان کے مطابق کراچی کے دو حلقوں این اے 237 کورنگی، اور این اے 239 ملیر میں حتمی الیکشن 16 اکتوبر کو ہوں گے یہ دونوںنشستیں پی ٹی کے ارکان کے استعفوں کی منظوری کے بعد خالی قرار دی گئی تھی جبکہ این اے 246 کاضمنی الیکشن پی ٹی آئی کے رکن شکورشاد کی جانب سے استعفیٰ کی تردید کے بعد روک دیا گیا ہے، الیکشن کمیشن کےاجلاس میں سندھ میںبلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے انعقاد پر غور کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ کراچی ڈویژن کے تمام اضلاع میں پولنگ 23 اکتوبر2022 کوہوگی۔

حیدرآباد ڈویژن کے اضلاع میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق رپورٹ صوبائی حکومت اور صوبائی الیکشن کمشنر سندھ سے منگوائی جارہی ہے تاکہ سیلاب کیصورتحال اور انتخابات کے انعقاد سے متعلق غور کیا جائے اور جتنا جلد ممکن ہوسکے حیدرآباد میں بھی پولنگ کی تاریخ مقرر کی جائے۔الیکشن کمیشن کے اعلان کے بعد بلدیاتی انتخاب کی مہم ایک بار پھر شروع کردی گئی ہے تاہم جماعت اسلامی نے بلدیاتی انتخابات موخر ہونے سے قبل جو ماحول بنایا تھا وہ قدرے سرد پڑچکا ہے۔

اس کے باوجود کراچی کے عوام گزشتہ حکومتوں اور موجودہ حکومتوں میں رہنے والی جماعتوں سے قدرے ناراض ہیں کراچی کے بڑھتے مسائل عوام کی ناراضگی کا سبب بن رہے ہیں تاہم اس کے باوجود پی پی پی کراچی کے صدر سعید غنی کادعویٰ ہے کہ کراچی کا بلدیاتی انتخاب پی پی پی جیتے گی کراچی کے دوقومی اسمبلی کے حلقوں میں زبردست جوڑپڑے گا۔ این اے 239 سے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے مقابلے میں ایم کیو ایم کے نیررضا الیکشن لڑیں گےجبکہ این اے 237 سے عمران خان کاسامنا پی پی پی کے عبدالحکیم بلوچ کریں گے۔

این اے 239 سے ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر عامر خان نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ این اے 237 پر پی پی پی جبکہ 239 پر موجودہ حالات کے پیش نظر پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری ہے ادھر ایم کیو ایم کے لاپتہ کارکنوں کی لاشیں کراچی کے مختلف علاقوں سے ملنے کے بعد ایم کیو ایم کے کارکنوںمیں اپنی جماعت کے لیے بھی اشتعال پایا جاتا ہےاور وہ پارٹی قیادت سے سوال کررہے ہیں کہ حکومتوں میں رہنے کے باوجود لاپتہ کارکن بازیاب تو نہیںہوئے اب ان کی لاشیں بھی ملنا شروع ہوگئی ہیں اپنی ناراضگی کا اظہار کارکنوں نے اپنے قائدین سے کیا۔

ماورائے عدالت کرنے والے ایم کیو ایم شاہ فیصل کالونی کے وسیم اخترراجو کی تدفین اور نمازجنازہ میں پہنچنے والے ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو مرحوم کے اہل خانہ اور کارکنوں کی شدید ناراضی کا سامنا کرنا پڑا، مشتعل افراد نے ان رہنماؤں کے خلاف نعرے بازی کی اور انہیں دھکے دیئے، سینئررہنما عامرخان اور دیگر کو دیکھ کر وہاں موجود افراد بہت زیادہ برہم ہوگئے، ایم کیو ایم کے کارکنان نے رہنماؤں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے کارکنان کی لاشیں مل رہی ہیں، لاپتہ کارکنان بازیاب نہیںہورہے، آپ حکومت کا حصہ ہیں، بعض لوگوں نے ہاتھاپائی کرنے کی کوشش بھی کی اور بعض رہنماؤں کی جانب چپل اور جوتے بھی اچھال دیئے جس پر سیکیورٹی کا عملہ ان رہنماؤں کو نکال کر لے گیا۔ کارکنان نے ایم کیو ایم رہنماؤںپر شدید تنقید کی۔

اس دوران سخت جملوںکا تبادلہ ہوا اور جنازے میں افراتفری مچ گئی۔ مشتعل افراد نے کہاکہ کارکنان مارے جارہے ہیں اور آپ حکومت کے مزلے لے رہے ہیں۔ عامرخان نمازجنازہ ادا کئے بغیر روانہ ہوگئے۔ اس صورتحال کے بعدایم کیو ایم نے وفاقی حکومت سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دے دی ہے ایم کیو ایم کے سینئررہنما وسیم اختر نے کہاہے کہ ایسی حکومت میں رہنے کا کیا فائدہ جس میں ہمارے کوئی مسائل حل نہیںہورہے ہیں، دوسری جانب ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹرخالد مقبول صدیقی نے اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی جس میں انہوںنے وزیراعظم سے دوٹوک انداز میں کہاکہ ایک ہفتے میں صورتحال واضح نہ کی گئی تو حکومت چھوڑ سکتے ہیں، خالد مقبول صدیقی نے وزیراعظم شہباز شریف کو کارکنان کی لاشیں ملنے اور اس کے بعد سامنے آنے والے عوامی ردعمل سے آگاہ کیا۔

ادھر شہرقائد میں بڑھتی ڈکیتوں اور اسٹریٹ کرائم کے دوران قیمتی جانوں کے ضیاع کو جماعت اسلامی نے صوبائی حکومت اور انتظامیہ کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کراچی کے 14 مقامات پر احتجاجی مظاہرے کئے ریگل چوک صدر میں مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کراچی کے امیرحافظ نعیم الرحمن نے کہاکہ سندھ حکومت اور محکمہ پولیس کی نااہلی وناکامی کے باعث شہر قائد میں ڈاکو دندناتے پھررہے ہیں۔ ڈکیتی کی وارداتوں میں دہشت گردی کا عنصر بھی بہت بڑھ گیا ہے۔ معمولی سی مزاحمت پر بھی شہریوں کو گولیاں مارنے سے گریز نہیںکیاجارہا۔

ایسا لگتا ہے کہ ڈاکوؤں کو پکڑے جانے کا معمولی سا بھی خوف نہیں۔ اگر شہر قائد میں چوری اور مسلح ڈکیتی کی وارداتیں ختم نہ ہوئیں تو آئی جی آفس اور پولیس ہیڈکوارٹرز پر بھی احتجاج کیا جائے گا۔ عوام سے کہاجاتا ہے کہ اپنی حفاظت کے لیے گارڈ رکھیں۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والےا دارے اگر عوام کو تحفظ نہ دے پائیں تو عوام اپنے تحفظ کے لیے کہاں جائیں؟ادھربارش اور سیلاب کے بعد گیسٹرو، ڈینگی، ملیریا میں سیلاب متاثرین کی بڑی تعداد مبتلا ہوگئی ہے حکومت کے طبی ریلیف کیمپ میں تادم تحریر گیسٹرواور ملیریا کے 4 لاکھ سے زائد افراد کا علاج کیا گیا ہے تاہم ان بیماریوں سے اموات میںبھی بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے شہر قائدمیں بھی وبائی امراض بڑھ رہے ہیں بلدیاتی اداروں اور کنٹونمنٹ نے اپنے اپنے علاقوں میں اسپرے مہم شروع نہیں کی ہے جبکہ سندھ ہائیکورٹ بارش میں ڈیفنس کی صورتحال پر برہم ہوئی ہے۔

دوسری جانب شہر قائد کی تمام سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، کراچی کا پورا نفراسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے سڑکوں پر حادثات روز کا معمول ہیں یہی حال حیدرآباد اور سکھر کا بھی ہے وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ کی سرزمین پر 120 ملین ایکڑفٹ پانی آیا ہے ، کہتے ہیں کہڈیمزبنادیں پانی کو گھمادیں، مجھے یہ بتائیں کہ پانی کو کس طرح گھماسکتے ہیں، یہاں11 سو ملی میٹربارشیں ہوئیں،یہ غیرمعمولی ہے، سند ھ میںجتنا پانی آیا ہے وہ 20 تربیلا ڈیم کے برابر ہے، عوام متاثرین سیلاب کی مدد کے لیے آگےآئیں۔ دوسری جانب شہر قائد کے باسیوں پر لوڈشیڈنگ اور فیول ایڈجسٹمنٹ کے عذاب کے بعد میونسپل یوٹیلیٹی چارجز ٹیکس بجلی کے بلوں میں لگاکرلینے کا عذاب بھی مسلط کردیا گیا ہے۔ جس پرشہری سخت مشتعل ہیں۔