کوا اور کوئل

September 25, 2022

ظفر کمالی

کسی کوے نے اک کوئل سے پوچھا

بتا بہنا کہ ہے یہ ماجرا کیا

غضب ہے یہ کہ ہم دونوں ہیں کالے

خدا کے فضل سے ہیں عقل والے

مگر دنیا کرے کیوں پیار تجھ سے

رہیں چھوٹے بڑے بیزار مجھ سے

ترا ہی نام ہے سب کی زباں پر

ترا جادو تو ہے سارے جہاں پر

جو شاعر ہیں لکھیں تیرا ترانہ

بتا تیرا ہے کیوں عاشق زمانہ

رہا کرتی ہے تو بچوں کے دل میں

مگر اک میں کہ چوہا جیسے بل میں

جہاں جا کر کروں میں کائیں کائیں

وہاں سے مار کر مجھ کو بھگائیں

نظر میں تیر اور تلوار بن کر

کھٹکتا ہوں دلوں میں خار بن کر

جسے دیکھو اسے مجھ سے ہے وحشت

سبھی کو نام سے میرے ہے نفرت

کہا کوئل نے کوے سے کہ بھائی

نہ کیوں تیری سمجھ میں بات آئی

جسے آتی نہ ہو شیریں بیانی

کرے کیا وہ دلوں پر حکمرانی

ہیں سب اس کے جو میٹھے بول بولے

جو لب کھول تو رس کانوں میں گھولے

کہاں میں بولنے میں چوکتی ہوں

مگر جب بولتی ہوں کوکتی ہوں

مری آواز میں پھولوں کی نرمی

تری آواز میں شعلوں کی گرمی

زباں سے میں بنی آنکھوں کا تارا

مگر تیری زباں نے تجھ کو مارا

تو جس دن سیکھ لے گا خوش کلامی

ملے گی ہر جگہ تجھ کو سلامی