ریلوے انجن کا موجد

October 02, 2022

انگلستان کے شمالی مشرقی علاقے کے ایک گاؤں ویلام میں 1781ء میں ایک لڑکاجارج سٹیفن سن پیدا ہوا ،اس کا باپ ایک کان میں کوئلہ ڈھونے کا کام کرتا تھا۔ بڑی مشکل سے گزر بسر ہوتی تھی۔ وہ بچپن ہی سے اپنے باپ کے ساتھ کوئلے کی کان پر محنت مزدوری کرنے جایا کرتا تھا اور وہاں کام کرتے انجنوں کو بڑے غور سے دیکھا کرتا تھا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ اسے کسی انجن کا نگران مقرر کیا جائے۔ جب وہ سترہ سال کا ہوا تو اس کی یہ خواہش پوری ہو گئی اور اسے ایک انجن کی دیکھ بھال پر ملازم رکھ لیا گیا۔ یہ انجن کان سے پانی نکالا کرتا تھا۔

جب کبھی اس میں خرابی پیدا ہوتی تو وہ خود اسے ٹھیک کر لیتا۔ اس طرح وہ رفتہ رفتہ انجن کے کل پرزوں کو پہچاننے لگا۔ اس زمانے میں کنویں سے پانی نکالنے والا ایک بڑا انجن خراب ہو گیا اور ایسا خراب ہوا کہ بڑے سے بڑے انجینئر بھی اسے ٹھیک نہ کر سکے۔ جارج نے اپنی خدمات پیش کیں۔ انجن کے مالک نے اسے فوراً بلایا۔ جارج نے سارا انجن کھول کر صاف کیا اور پھر سارے پرزوں کو جوڑ کر تیسرے دن اسے چلا دیا۔ مالک بہت خوش ہوا اور اس نے سٹیفن سن کو نہ صرف معقول اجرت دی بلکہ دس پونڈ انعام بھی دیا، ساتھ ہی اسے انجن کا نگران بھی مقرر کر دیا۔

جب روزی کی طرف سے اسے اطمینان ہوا تو اس نے ایسا انجن بنانے کا ارادہ کیا جو گاڑی کھینچ سکے۔ بڑی محنت کے بعد اس نے ایک ایسا انجن بنا لیا، جسے جنوری 1814ء میں ریل کی پٹری پر چلایا گیا۔ بڑی مشکل سے انگلستان میں ریل چلانے کا قانون منظور ہوا اور سٹیفن سن کو اس کا انجینئر مقرر کیا گیا۔وہ اپنے انجن کو بھی برابر ترقی دیتا رہا۔

اس کام میں اس کے بیٹے نے بھی اس کی مدد کی اور ایسا انجن بنایا جس کے ایک حصے میں ایندھن اور دوسرے میں پانی بھرا جاتا تھا۔ 1830ء میں ریل گاڑی کا افتتاح ہوا۔ انجن کو سٹیفن سن خود چلا رہا تھا۔ رفتار بیس میل فی گھنٹہ تھی۔ اپنی محنت کی بدولت اسے بڑی شہرت ہوئی اور دولت نے بھی اس کے قدم چومے۔