اداس بلبل

October 23, 2022

جاوید بسام

سورج غروب ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی۔ افق پر نارنجی روشنی ابھی باقی تھی۔ آبادی سے دور خشک ہوتے تالاب میں مینڈک ٹرٹرا رہے تھے۔ جھینگر بھی وقفے وقفے سے اپنا راگ الاپتے اور چپ کر جاتے جیسے رات کے لئے اپنے آلات چیک کر رہے ہوں۔ قریب ہی ایک سوکھے درخت کی شاخ پر ایک بلبل اداس بیٹھا تھا۔ وہ نہ تو ہل جل رہا تھا نہ کچھ بول رہا تھا، ایسا لگتا تھا کہ جیسے چہچہانا بھول گیا ہو، اس کی آنکھوں میں اداسی تیر رہی تھی۔

تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ دور ایک جگنو اُڑتا نظر آیا۔ بلبل پر نظر پڑتے ہی وہ سیدھا اس کے پاس چلا آیا اور پرجوش لہجے میں بولا،’’پیارے بلبل! مجھے معلوم ہے تم کیوں اداس ہو، تمہیں اپنے گھر جانا ہے لیکن اندھیرا ہوگیا ہے، آؤ میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔ ایک عرصے بعد آج مجھے نیکی کمانے کا موقع مل رہا ہے، میں تمہاری مدد کے لئے حاضر ہوں‘‘۔

’’نہیں مجھے کہیں نہیں جانا، اس لئے کہ میرا گھر برباد

ہوچکا ہے‘‘۔

’’تمہارے گھر کو کیا ہوا؟‘‘ جگنو نے حیرت سے پوچھا۔

’’جس درخت پر میرا گھونسلا تھا ،اسے کاٹ دیا گیا ہے، بلکہ آس پاس کے سب درخت کٹ گئے ہیں‘‘۔ بلبل بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔

’’ہاں، یہاں تو بہت سے درخت تھے لیکن اب ایک بھی نظر نہیں آرہا، آخر درخت کیوں کاٹے گئے ہیں‘‘۔ جگنو نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’تمہیں وہ شاہراہ نظر آرہی ہےناں بس اس کو چوڑا کرنے کے لئے‘‘۔ بلبل نے کچھ دور سے گزرتی سڑک کی طرف اشارہ کیا۔

’’اوہ! اب میری سمجھ میں آیا لیکن دوسری طرف اتنی زمین بھی کوئی دینے پر تیار نہیں تھا ،لہٰذا حکومت نے ان تمام پرانے پیڑوں کو کاٹ ڈالا جو گزرنے والوں کو سایہ فراہم کرتے تھے اور ہزاروں پرندوںاس پر بسیرا کرتے تھے‘‘۔ بلبل نے کہا۔

جگنو نے افسوس سے گردن ہلائی اور بولا،’’انسان زمین کا دشمن بن گیا ہے۔ وہ دن بدن اس کو برباد کر رہا ہے۔

جنگل کاٹے جارہے ہیں، جس سے موسم بدل رہے ہیں اور جگہ جگہ تباہی آ رہی ہے۔

انسان کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے لیکن اسے اس کا احساس ہی نہیں‘‘۔

بلبل نے آہ بھری اور بولا، ’’میرے سب ساتھی یہ علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں کل میں بھی یہاں سے چلا جاؤں گا‘‘۔ دونوں خاموش ہوگئے اور افق پر اس بدلی کو تکنے لگے جس میں ابھی روشنی کی کچھ کرنیں باقی تھیں، پھر جگنو دھیرے سے بولا۔

’’حالات بہت خراب ہیں لیکن ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہئے۔ انسانوں میں ابھی ایسے لوگ موجود ہیں، جنہیں اس تباہی کا احساس ہے اور وہ اسے روکنے کی کوشش کر یں گے، خاص طور پر بچے، انہیں تو درخت اور پودے بہت اچھے لگتے ہیں‘‘۔

بلبل نے گردن ہلائی اور بولا،’’ہاں تم ٹھیک کہتے ہو، ہماری بقا انسانوں کی نئی نسل کے ہاتھوں میں ہے‘‘۔ دونوں خاموش ہوگئے۔

جب اندھیرا بڑھ گیا تو جگنو روشنی پھیلاتا ایک طرف اڑ گیااور بلبل نے اپنی چونچ پروں میں چھپا کر آنکھیں موند لیں۔