ہنگامی طبی سہولیات؟

October 30, 2022

میزبان: محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

رپورٹ: طلعت عمران

تصاویر: اسرائیل انصاری

ڈاکٹر شاہد رسول

سندھ حکومت کے تحت پچھلے دس برس میں جناح اسپتال نے بہت ترقی کی، بجٹ میں تقریباً تین گنا اضافہ ہوا۔ میرے پاس 2200 بیڈز اور 24 وارڈز ہیں۔ 2200 لوگوں کے لیے 50 کنسلٹنٹس بہت کم ہیں تعداد کم از کم تین گنا زیادہ ہونا چاہیے۔ اسٹاف کی کمی دور کر دی جائے تو باقی مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ مجھے 1100 بیڈز کا بجٹ مل رہا ہے جب کہ میں 2200 بیڈز چلا رہا ہوں۔ سندھ حکومت نے دوائوں پر کٹنے والا 17 فیصد ٹیکس خود ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو ایک اچھا فیصلہ ہے۔

سندھ حکومت بل منظور کر چکی ہے اور اس پر عمل درآمد ہونا ہے کہ اگر کسی حادثے کی صورت میں یا گولی لگنے کی وجہ سے کوئی مریض قریبی اسپتال میں جاتا ہے تو اس اسپتال کی ذمے داری ہے کہ وہ آپ کو علاج معالجے کی مفت سہولت فراہم کرے اور وہ آپ سے پیسے بھی نہیں طلب کر سکتا، بل پر عمل درآمد میں رکاوٹ کا سامنا ہے۔ امل ایکٹ کے بعد اب عوام کو بھی اس بارے میں سوچنا چاہیے اور حادثے کی صورت میں اپنے کسی قریبی اسپتال میں جانا چاہیے

ڈاکٹر شاہد رسول

ڈاکٹر صابر میمن

محدود وسائل کے باوجود سندھ اور کراچی میں بڑے سرکاری اسپتال بلکہ ٹریننگ سینٹرز بھی قائم ہیں۔ ٹراما سینٹر کا شمار جنوبی ایشیا کے بڑے لیول ون ٹراما سینٹرز میں ہوتا ہے۔ ہم روزانہ 400سے 500ایمرجینسی میں آنے والے مریضوں کو طبی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔ حکومت ٹراما کیئر سروسز کا باقاعدہ اعلان کرے۔ ریسکیو سروس سندھ حکومت کا اچھا کارنامہ ہے ۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں ریپڈ رسپانس یا اسٹیبلائزیشن سینٹرز قائم کرنے کی تجویز دی ہے۔

اندرون سندھ ٹرشری کیئر اسپتال کو فنکشنل کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ حکومت نے سندھ اینٹی گریٹڈ ایمرجینسی ہیلتھ سروسز کا سسٹم متعارف کروایا ہے۔ اس میں ون ونڈو کے تحت ساری ایمبولینس سروسز کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ جدید طبی آلات سے آراستہ ایمبولینسز ہیں۔ جناح اسپتال میں ہیلی پیڈ موجود ہے۔ نیپا میں ٹراما سینٹر پہلے ہی ڈکلیئرڈ ہے تو وہاں ہم ہیلی کاپٹر اور ایمرجینسی سروسز کو کسی بڑی تباہی کی صورت میں آسانی سے مینیج کر سکتے ہیں

ڈاکٹر صابر میمن

ڈاکٹر اے۔ حمید جمانی

حکومت سندھ نے 150 سے زائد ایمبولینسز فراہم کیں 65 کراچی کے لیے ہیں۔ ان کی تعداد میں مزید اضافہ کیا جائے گا ہیلپ لائن 1122 نمبر الاٹ ہو چکا ہے باقاعدہ کنٹرول روم اور ایک ٹریکنگ سسٹم بنایا گیا ہے۔ سندھ حکومت مختلف مقامات پر ریپڈ رسپانس سینٹرز بنانے پر بھی غور کر رہی ہے۔ ریسکیو 1122 میں صرف ایمبولینس سروس ہی نہیں بلکہ اس میں فائر بریگیڈ بھی ہے۔

صوبائی خود مختاری ملنے کے بعد سےسندھ میں ہیلتھ کے بڑے بڑے منصوبے شروع ہوئے، اندرون سندھ کئی ادارے برانڈ کے طور پر مثال کے طور پر گمبٹ میں گمز اور این آئی سی وی ڈی سکھرسامنے آئے ہیں۔ سکھر میں کینسر اسپتال اور ایس آئی یو ٹی، برنس سینٹر قائم کیا گیا ہے۔ اس وقت ڈینگی کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ اسپتالوں میں بیڈز نہیں مل رہے تو میرے پول پر روزانہ 400 سے 450 بیڈز خالی ہوتے ہیں لیکن مریض اپنے مرضی کے اسپتال میں جانا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر حمید جمانی

سندھ بالخصوص کراچی میں ہنگامی طبی سہولتوں کے فقدان پر کافی تنقید کی جاتی ہے۔ مریض، ان کے لواحقین اور عام افراد بھی اکثر و بیشتر یہ شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ سرکاری اسپتالوں میں ہنگامی طبی سہولتیں دستیاب نہیں اور اگر ہیں بھی تو بروقت مل نہیں پاتیں یا پھر بالخصوص سرکاری اسپتالوں میں ٹھیک طرح علاج معالجہ نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں اسپتالوں میں صفائی ستھرائی اور انفرااسٹرکچر کے مسائل بھی ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسپتالوں میں ہنگامی طبی سہولتوں کا کیا معیار ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آغا خان جیسے معیاری ہسپتالوں میں ہر فرد علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتا اور عموماً عام افراد کو علاج معالجے کے لیے سرکاری اسپتالوں ہی کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ طبی سہولتوں کا معیار بلند کرنے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کس قدر معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

پھر ہمیں یہ جاننے کی بھی ضرورت ہے کہ ہنگامی طبی سہولتوں سے کیا مراد ہے؟ ان کی منصوبہ بندی کس طرح کی جاتی ہے اور دنیا بھر میں اس حوالے سے کیا معیارات قائم ہیں؟ پھر پاکستان اس حوالے سے پڑوسی ممالک بھارت اور بنگلا دیش سے آگے ہے یا پیچھے ہے۔ نیز، پاکستان کے چاروں صوبوں کے مقابلے میں سندھ میں ہنگامی طبی سہولتوں کی کیا صورتحال ہے۔ آیا دیگر صوبوں سے مریض یہاں آتے ہیں یا پھر یہاں سے دیگر صوبوں کے اسپتالوں میں مریضوں کو منتقل کیا جاتا ہے اور سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں ہنگامی طبی سہولتوں کی بہتری کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ان تمام سوالات کے جواب جاننے کے لیے گزشتہ دنوں سندھ بالخصوص کراچی میں ہنگامی طبی سہولتوں کے موضوع پر شہید بے نظیر بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف ٹراما میں جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا۔ فورم میں جناح اسپتال کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر شاہد رسول، ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کراچی ڈاکٹر حمید جمانی اور چیف آپریٹنگ آفیسر شہید بے نظیر بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف ٹراما ڈاکٹر صابر میمن نے شرکت کی جب کہ فورم کی میزبانی ایڈیٹر جنگ فورم محمد اکرم خان نے کی۔ اس موقع پر ہونے والی گفتگو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔

جنگ :ڈاکٹر صاحب آپ شہید بے نظیر بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف ٹراما کے سی او او ہونے کے ناتے سندھ بالخصوص کراچی میں ہنگامی طبی سہولتوں کی صورتحال کے بارے میں کیا کہیں گے؟

ڈاکٹر صابر میمن: صحت اور تعلیم کسی بھی معاشرے کی سب سے اہم ضرورت ہوتی ہے اور حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے عوام کو یہ سہولتیں فراہم کرے۔ اگر کسی ریاست میں یہ دونوں سہولتیں مفت دستیاب ہوں تو یہ سب سے بہتر ہوتا ہے۔ اگرچہ ہمارا ملک ایک فلاحی ریاست نہیں ہے لیکن اس کے باوجود محدود وسائل کے باوجود سندھ اور کراچی میں نہ صرف بڑے سرکاری اسپتال بلکہ ٹریننگ سینٹرز بھی قائم ہیں۔ لیکن بعض مقامات پر خلا موجود ہیں اور اگر ان کو پر کر لیا جائے تو انہی محدود وسائل میں مزید بہتر طبی سہولتیں فراہم کی جا سکتی ہیں۔

ہنگامی طبی امداد یا ایمرجینسی کیئر سروسز یا ٹراما کیئر سروسز بنیادی حیثیت رکھتی ہیں اور اگر اس شعبے میں خلا موجود ہے تو پھر انسانی جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے یا پھر انسانی اعضا ضائع ہو سکتے ہیں۔ اگر اس وقت ٹراما سینٹر کی بات کی جائے تو اس کا شمار جنوبی ایشیا کے بڑے لیول ون ٹراما سینٹرز میں ہوتا ہے۔ یہاں علاج معالجے کے ساتھ تربیت اور تحقیق کی سہولتیں بھی موجود ہیں۔ ہم روزانہ 400سے 500ایمرجینسی میں آنے والے مریضوں کو طبی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔ اس میں ٹراما اور سرجیکل کے حوالے سے ایمرجینسز شامل ہیں جب کہ میڈیکل ایمرجینسز کو سول اسپتال طبی سہولتیں فراہم کرتا ہے۔

ہماری ٹیم نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ سیکنڈری لیول کے اسپتالوں میں ان کے وسائل کے مطابق کام ممکن نہیں ہو پا رہا ہے۔ اس کے علاوہ رابطے نہ ہونے کی وجہ سے بھی خلا پیدا ہوتا ہے۔ بڑے اداروں میں رابطے نہ ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ میں ہر پلیٹ فارم پر یہ مشورہ دیتا ہوں کہ حکومت ٹراما کیئر سروسز کا باقاعدہ اعلان کرے۔ یعنی فلاں فلاں ٹراما کیئر سروسز ہوں گی اور فلاں فلاں ادارے ان معاملات کو دیکھیں گے اور ان کا آپس میں رابطہ ہو گا۔ سندھ میں چند ایسے بڑے ٹیچنگ اسپتال موجود ہیں کہ جہاں ٹراما کی سروسز آج بھی موجود ہیں۔

اگر ان اسپتالوں کو باقاعدہ طور پر ٹراما کیئر سینٹر قرار دے دیا جائے تو ان کے قریبی اضلاع کے عوام کو بحسن و خوبی ہنگامی طبی سہولتیں فراہم کی جا سکتی ہیں۔ یہ ٹیچنگ اسپتال لاڑکانہ، سکھر، نواب شاہ، جام شورو، حیدر آباد وغیرہ میں قائم ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی میں جناح اسپتال ہے۔ اگر ان تمام اسپتالوں کو ریجنل سینٹر قرار دے دیا جائے، یہ آپس میں مربوط ہوں اور ٹیلی میڈیسن کے ذریعے ایک ایڈوائزری سروس بھی شروع کر دی جائے تو موجودہ وسائل میں بھی بہت اچھی طبی سہولتیں فراہم کر سکتے ہیں۔ دوسرا اہم مسئلہ ٹرانسپورٹیشن کا ہے۔

کسی حادثے یا قدرتی آفت کی صورت میں مریض کو جائے وقوع سے اسپتال تک پہنچانے کے دوران ہی کئی مریض جان سے چلے جاتے ہیں یا تاخیر ہونے کی وجہ سے ان کے اعضا کو نقصان پہنچتا ہے۔ لہٰذا اس سروس کو بھی بہت زیادہ بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اب ریسکیو سروس شروع کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایدھی اور چھیپا کی ایمولینس سروسز پورے صوبے میں کام کر رہی ہیں لیکن بد قسمتی سے ان ایمبولینس سروسز میں وہ تربیت یافتہ عملہ اور طبی آلات موجود نہیں ہوتے جو مریض کی منتقلی کے دوران موجود ہونے چاہئیں۔ فیصل ایدھی صاحب نے بڑی کوشش کی تھی کہ ایدھی کی ایمبولینسز میں تربیت یافتہ اسٹاف تعینات کیا جائے۔

انہوں نے اس سلسلے میں ایک تربیتی ادارہ بھی قائم کیا تھا اور ہمارے ادارے سے بھی ان کے اسٹاف نے تربیت حاصل کی تھی لیکن وہ بد قسمتی سے اس وقت کے حساب سے زیادہ موزوں نہیں ہے۔ ریسکیو سروس سندھ حکومت کا ایک اچھا کارنامہ ہے کہ شہریوں کو مفت ایمبولینس سروس فراہم کی جائے لیکن اس کا عملہ بھی پوری طرح تربیت یافتہ نہیں ہے۔ ہمیں ان کی ٹریننگ کے لیے کہا گیا تھا اور ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ دوسرا خلا ٹراما ہیلتھ کیئر سروسز میں یہ آتا ہے کہ جو اسٹاف مریضوں کا علاج کرتا ہے، ان کو بھی باقاعدہ تربیت نہیں دی گئی اور ٹریننگ نہ ہونے کی وجہ سے بھی مس ہینڈلنگ بھی ہوتی ہے۔ اس خرابی کو بھی حکومتی سطح پر دور کرنے کی ضرورت ہے۔

جنگ: کراچی جیسے ڈھائی کروڑ آبادی کے شہر میں مریضوں کا دبائو سول اسپتال، جناح اسپتال اور ٹراما سینٹر پر ہے۔ کیا ان اسپتالوں کے شہر کے مختلف علاقوں میں سیٹلائٹ سینٹرز قائم کرنے کا کوئی منصوبہ زیر غور ہے؟

ڈاکٹر صابر میمن: ہم نے اس حوالے سے ایک ورکنگ پیپر تیار کیا ہے جس میں کراچی کے مختلف علاقوں میں ریپڈ رسپانس یا اسٹیبلائزیشن سینٹرز قائم کرنے کی تجویز دی ہے۔ حب ریور روڈ پر ایک سینٹر ہم اس وقت تیار کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ملیر کی طرف بھی ہمارا ایک سینٹر قائم کرنے کا ارادہ ہے۔ علاوہ ازیں نیشنل ہائی وے، سپر ہائی وے اور کوسٹل ہائی وے سمیت دیگر ہائی ویز پر اس قسم کے ریپڈ رسپانس سینٹرز بنانے کی ضرورت ہے تاکہ حادثے کی صورت میں مریضوں کو بروقت طبی امداد فراہم کی جا سکے۔

اندرون سندھ بہت سارے سینٹرز پر طبی سہولتیں ناکافی ہیں جن میں ویسکیولر سرجری بھی شامل ہے اور یہ سہولت ان سینٹرز پر دستیاب نہیں ہے۔ میں حکومت یہ تجویز دینا چاہوں گا کہ ان ہیلتھ سروس سینٹرز پر بھی اس قسم کی سہولتیں فراہم کرے۔ جناح اسپتال ہمیشہ ایک اچھا ادارہ رہا لیکن گزشتہ دنوں اس کی سروسز کا معیار کم ہو گیا تھا لیکن شاہد رسول صاحب کے آنے کے بعد ان میں بہتری لائی جا رہی ہے۔ ہماری بھی کوشش ہے کہ ہم ان کے ساتھ مختلف سروسز کے حوالے ایم او یوز پر دستخط کریں تاکہ ہم ایک دوسرے سے تعاون کے ذریعے مریضوں کو بہتر علاج معالجے کی خدمات فراہم کر سکیں۔

جنگ :ایمرجینسی سروسز کے حوالے سے آپ سندھ کو کس طرح دیکھتے ہیں اور بہتری کی گنجائش کہاں کہاں موجود ہے؟

ڈاکٹر حمید جمانی: سندھ کے دیگر شہروں کے مقابلے میں کراچی میں طبی سہولتیں نسبتاً بہتر اور اپ گریٹڈ ہیں۔ اندرون سندھ کے مریضوں کو جب بھی سہولتوں کا فقدان نظر آتا ہے تو وہ کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ سکھر، لاڑکانہ، خیرپور، گمبٹ، نواب شاہ اور حیدرآباد میں کہیں ٹرشری کیئر اسپتالوں میں نیورو سرجری وارڈز قائم ہیں اور کہیں نہیں بھی ہیں۔ سکھر ٹیچنگ اسپتال میں میرا جانا ہوا تو وہاں پتا چلا کہ یہاں برنس وارڈ بلڈنگ بن چکی ہے، دو بار اشتہارات دے چکے ہیں لیکن کوئی اپلائی نہیں کر رہا۔ میں نے سید خورشید شاہ کے کہنے پر وہاں ایک ڈاکٹر کا بندوبست کیا۔ اندرون سندھ جتنے بھی ٹرشری کیئر اسپتال ہیں، ان کو فنکشنل کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ سیکنڈری کیئر اسپتالوں کو بھی ایکٹیویٹ کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اگر سیکنڈری کیئر اسپتال 24 گھنٹے خدمات فراہم نہیں کریں گے تو پھر ٹرشری کیئر اسپتالوں پر دباؤ بڑھے گا۔ لہذا پرائمری، سیکنڈری اور ٹرشری اسپتالوں میں ان کے معیار کے مطابق علاج معالجے کی سہولتیں موجود ہونی چاہئیں۔ اگر کوئی شخص صرف ایک ٹانکا لگوانے کے لیے ٹرشری کیئر اسپتال جائے گا تو اس سے اس اسپتال پر دبائو بڑھے گا۔ یعنی تینوں قسم کے اسپتالوں کے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ کراچی میں میرے پاس 144 ڈسپنسریز ہیں جو چل رہی ہیں۔ ان میں سے کم و بیش 13 سیکنڈری کیئر لیول کے اسپتال ہیں۔

میری کوشش ہے کہ ان میں 24 گھنٹے علاج معالجے کی سہولتیں میسر ہوں اور یہاں سے مریضوں کو دوسرے اسپتالوں میں نہ جانا پڑے۔ اس کے علاوہ ریفرل کا ایک باقاعدہ نظام بنانا ضروری ہے۔ پرائمری کیئر اسپتال سیکنڈری کو ریفر کرے اور سیکنڈری کیئر اسپتال ٹرشری کو۔ اگر یہ ریفرل سسٹم اسی طرح چلتا رہے تو پھر ٹرشری کیئر میں مریضوں کی اموات ہوتی رہیں گی۔ اب جہاں تک ٹرانسپورٹیشن کی بات ہے تو سندھ حکومت نے حال ہی میں سندھ اینٹی گریٹڈ ایمرجینسی ہیلتھ سروسز کا سسٹم متعارف کروایا ہے۔ اس میں ون ونڈو کے تحت ساری ایمبولینس سروسز کو شامل کیا گیا ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے شروع کی گئی ایمولینس سروس امید کی کرن ہے۔ یہ جدید طبی آلات سے آراستہ ایمبولینسز ہیں۔

جنگ: ان ایمبولینسز کی تعداد کتنی ہے؟

ڈاکٹر حمید جمانی: اس وقت سندھ حکومت نے 150 سے زائد ایمبولینسز فراہم کی ہیں اور ان میں سے 65 کراچی کے لیے ہیں۔ ان کا اسٹاف تربیت یافتہ ہے اور سب نے لائف سیونگ ٹریننگز کی ہوئی ہیں۔ ان ایمبولینسز کی تعداد میں مزید اضافہ کیا جائے گا جن میں 100 سے 150 کراچی کے لیے ہوں گی۔ ان کو 1122 نمبر الاٹ ہو چکا ہے جو ہیلپ لائن ہے۔ اس سلسلے میں باقاعدہ کنٹرول روم اور ایک ٹریکنگ سسٹم بنایا گیا ہے۔ اگر یہ سسٹم چلتا رہا اور اس میں کوئی خلل نہ آیا تو یہ ہیلتھ کیئر سسٹم میں ایک اچھا اضافہ ہو گا۔ ہم ریسکیو سروس کے ساتھ مل کر ایک جوائنٹ پروپوزل بنا رہے ہیں کہ جتنی بھی پرائیویٹ ایمبولینسز ہیں، ان کا لائسنسنگ سسٹم بنایا جائے۔

اس کے علاوہ ان ایمبولینس سروسز کے اسٹاف کے لیے تربیت کا بندوبست بھی کیا جائے۔ اس کے علاوہ ہم ان کے چارجز بھی ریگولیٹ کرنے کا سوچ رہے ہیں کہ کتنے کلومیٹر کے چارجز ہونے چاہئیں۔ اگر سندھ حکومت کی ریسکیو سروس اسی طرح چلتی رہی اور پرائیویٹ ایمبولینس سروس کو ریگولیٹ کر دیا جائے تو ٹرانسپورٹیشن کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ سندھ حکومت مختلف مقامات پر ریپڈ رسپانس سینٹرز بنانے پر بھی غور کر رہی ہے۔ اس حوالے سے میں نے اور ڈاکٹر صابر میمن نے حب ریور روڈ کا دورہ بھی کیا تھا۔ ہم نے ایک پلاٹ بھی دیکھ لیا تھا لیکن وہاں پہلے ہی سے کے ایم سی ایک اسپتال ویران پڑا ہے۔

وہ اسپتال چل نہیں رہا اور اگر وہی اسپتال چل گیا تو وقت کی بچت ہو جائے گی۔ اس کی صرف مرمت اور تزئین و آرائش کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ سندھ کا اے ڈی پی اور وفاق کا اے ڈی پی بھی اس حوالے سے شامل ہے اور پی سی ون تیار کیا جا رہا ہے اور وہاں اچھے لیول کے ریپڈ رسپانس سینٹر بھی بن جائے گا۔ اس کے علاوہ رزاق آباد میں شہید بے نظیر بھٹو کمپلیکس کے نام سے ایک میڈیکل سٹی قائم ہے۔ وہاں چار، پانچ بلاک ہیں اور اس کا 70 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے گمبٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر بھٹی صاحب سے ایک میٹنگ بھی کی ہے۔ انہوں نے یہاں کے دورے بھی کیے اور وہ اسے چلانا چاہتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک ڈائیلاسز سینٹر ہے اور پھر پوری بلڈنگ میڈیکل کمپلیکس ہے۔ ریجنل انٹیگریٹڈ سسٹم پہلے ہی بنا ہوا ہے۔ اس کو صرف فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ ریسکیو 1122 میں صرف ایمبولینس سروس ہی نہیں بلکہ اس میں فائر بریگیڈ بھی آتی ہے، اس کے علاوہ بلڈنگ گرنے کی صورت میں لوگوں کو ریسکیو کروانا بھی ان کا کام ہے۔ اس کے حوالے سے کے ایم سی کا ایک ٹریننگ سینٹر بھی قائم ہے لیکن وہ بے کار ہے اور اس کے ٹرینڈ اسٹاف کے بارے میں بھی کچھ نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہے۔ ہمارے پاس وسائل بھی ہیں۔ اگر ہم ان وسائل کا درست استعمال کریں تو ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

جنگ: اٹھارہویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں ملنے والی صوبائی خود مختاری کے بعد صوبوں کے ہیلتھ بجٹ میں اضافہ ہوا ہے اور صوبوں کی ذمے داری بھی بڑھی ہے تو کیا اس سے طبی خدمات کے معیار میں بہتری آئی؟

ڈاکٹر حمید جمانی: جی بالکل۔ صوبائی خود مختاری ملنے کے بعد سندھ میں ہیلتھ کے بڑے بڑے منصوبے شروع ہوئے۔ آپ این آئی سی وی ڈی اور جناح اسپتال کی فنڈنگ ہی کو دیکھ لیں۔ اس کے علاوہ این آئی سی ایچ اور سول اسپتال کے صوبائی مختاری سے پہلے کے بجٹ کو دیکھیں اور موجودہ بجٹ کو دیکھیں۔ پھر شہید بے نظیر بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف ٹراما بذات خود ایک بہت بڑا ادارہ ہے۔ اس کے علاوہ اندرون سندھ کئی ادارے برانڈ کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ مثال کے طور پر گمبٹ میں گمز اور این آئی سی وی ڈی سکھر ہے۔ سکھر میں این آئی سی وی ڈی اور کینسر کا اسپتال اور ایس آئی یو ٹی قائم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں برنس سینٹر بھی قائم ہے۔

جنگ: دور دراز علاقوں سے مریضوں کی منتقلی کے لیے کیا ایئر ایمولینس کا منصوبہ بھی زیر غور ہے؟

ڈاکٹر حمید جمانی: ہم اس حوالے سے تجاویز دیں گے اور اسے عملی شکل دینے کی کوشش بھی کریں گے لیکن اگر ہم گھر کی دہلیز پر طبی سہولتیں فراہم کر رہے ہوں تو پھر ہمیں ایئر ایمبولینس کی ضرورت نہیں ہے۔

جنگ: جناح اسپتال کراچی کا سب سے بڑا اسپتال ہے اور سب سے زیادہ شکایات بھی اسی اسپتال سے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

ڈاکٹر شاہد رسول: شکایت اسی سے ہوتی ہے کہ جو کام کرتا ہے۔ ہمارے پاس بہت زیادہ کام ہے۔ میرے پاس یومیہ 1600 مریض ایمرجینسی میں آتے ہیں۔ رات 9 سے صبح 7 بجے تک 600 سے 700 مریض آتے ہیں۔ جناح اسپتال میں سول اسپتال سمیت پورے سندھ سے ریفرل آتے ہیں۔ سب سے زیادہ شکایات ہمارے اسٹاف کی کمی سے متعلق ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ 2011ء میں یہ اسپتال ڈیوالو ہو گیا تھا اور اس کے بعد سے اسٹاف کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا۔ اس وقت بیڈز کی تعداد 1100 تھی اور افرادی قوت 2800 سے 3000 تھی۔ آج بیڈز کی تعداد 2200 سے ہے اور افرادی قوت صرف 1400 ہے۔ اگر مختلف اداروں کی طرف سے ہمیں لوگ نہ دیے جاتے تو شاید ہم اسپتال چلا نہیں سکتے۔ 11،12 برس تک اتنے بڑے اسپتال کی اونرشپ کا فیصلہ نہ ہونا ایک المیہ تھا۔

البتہ اب یہ فیصلہ ہو گیا ہے کہ اگلے 25 سال تک ہم سندھ حکومت کے ساتھ ہیں۔ اگر ہم بیڈز کی تعداد کے اعتبار سے افرادی قوت پوری کرلیں تو کافی شکایتوں کا ازالہ ہو جائے گا۔ ہمیں ایک فائدہ یہ حاصل ہے کہ ہمیں بہت زیادہ عطیات ملتے ہیں۔ جب تک جناح اسپتال فیڈریشن میں تھا تو ایک نئی عمارت نہیں بنی لیکن سندھ حکومت تحت ہونے کے بعد پچھلے دس برس میں اس اسپتال نے بہت زیادہ ترقی کی۔ اس کے علاوہ اسپتال کے بجٹ میں تقریباً تین گنا اضافہ ہوا۔ میرے پاس 2200 بیڈز اور 24 وارڈز ہیں۔ فیکلٹی میں 12 افراد ایسے ہیں جو جناح کے پے رول پر ہیں اور 34 جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے پے رول پر ہیں۔

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 2200 لوگوں کے لیے 50 کنسلٹنٹس بہت کم ہیں۔ اس تعداد کو کم از کم تین گنا زیادہ ہونا چاہیے۔ بجٹ تو ہمیں کافی ملتا ہے لیکن اگر اسٹاف کی کمی دور کر دی جائے تو باقی مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ مجھے 1100 بیڈز کا بجٹ مل رہا ہے جب کہ میں 2200 بیڈز چلا رہا ہوں۔ سندھ حکومت نے دوائوں پر کٹنے والا 17 فیصد ٹیکس خود ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو ایک اچھا فیصلہ ہے۔

جنگ :این آئی سی وی ڈی کی طرح کیا جناح اسپتال کے شہر بھر میں مراکز قائم نہیں کیے جا سکتے؟

ڈاکٹر شاہد رسول:پہلے جناح اسپتال کو اپنی ضروریات پوری کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم شہر بھر میں اپنی خدمات کو توسیع دینا چاہتے ہیں۔ ہم ایک میڈیکل ٹاور تعمیر کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایشیا کا سب سے بڑا اونکالوجی کمپلیکس تعمیر کرنے کا بھی ادارہ ہے۔ لیکن جناح کو پھیلانا ہی مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اب ہر مریض ایڈمٹ ہونے کے لیے جناح اسپتال آ جاتا ہے۔ میں نے جمانی صاحب سے بھی کہا ہے کہ ہمیں کوئی ایسا سسٹم تیار کرنا چاہیے کہ مریضوں کو سیکنڈری کیئر اسپتالوں میں ایڈمٹ کیا جائے۔

البتہ شدید امراض میں مبتلا مریضوں کو جناح اسپتال ہی میں رکھا جائے۔ آخر کار ہم نے آپ کے بتائے ہوئے فارمولے ہی پر کام کرنا ہے لیکن ہمیں جناح اسپتال کے نام پر کوئی سینٹر قائم کرنے کے بجائے پہلے سے قائم اسپتالوں کو فعال کرنا چاہیے۔ شہر کے تین علاقوں میں جناح میڈیکل یونیورسٹی سے ملحقہ ادارے قائم کر دیے گئے ہیں اور تینوں اداروں میں اگر فیکلٹی تعینات کر دی جائے تو علاج معالجے کا معیار بڑھ جائے گا کیوں کہ فیکلٹی ہو گی تو علاج معالجے کا معیار بھی بلند ہو جائے گا۔ اگر ہم نے میڈیکل آفیسر رکھنے ہیں تو پھر وہ پیراسٹامول سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔

ان اسپتالوں کو یونیورسٹی ٹیک اوور کرے اور یہاں اپنے اسٹوڈنٹس بھیجے تو خود بخود حالات درست ہونا شروع ہو جائیں گے۔ این ایم آئی اسپتال بنیادی طور پر سندھ حکومت کا ٹراما سینٹر تھا لیکن وہ ٹراما سینٹر نہیں بن سکا۔ ٹرشری کیئر اسپتالوں کو چاہیے کہ وہ سیکنڈری کیئر اسپتالوں کی اونر شپ لیں یا پھر ان کی بہتری میں کوئی کردار ادا کرے۔ جب وہ بہتر ہو جائیں گے تو بہت سے مریضوں کو یہاں آنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اگر شہریوں کو ناظم آباد میں اچھا اسپتال دستیاب ہے تو وہ جناح اسپتال کیوں آئیں گے۔

ماضی میں کے ایم سی کے بہت سے اسپتال ایسے تھی جن کی سروسز بہت اچھی تھیں۔ میں نے خود انہی اسپتالوں میں تربیت حاصل کی ہے۔ مگر پھر کے ایم سی کے اسپتالوں کی تعداد میں اضافے کی بجائے ان کا معیار گرتا گیا۔ اس وقت عباسی شہید اسپتال کا ایمرجینسی سروسز میں عملی طور پر کوئی کردار نہیں ہے۔ ان اسپتالوں کو بہتر کرنے کے بعد نئے منصوبے بنائے جائیں۔ ہمیں ہیلتھ سروسز کے آئندہ 20برس کے مسائل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

سول اسپتال کے ساتھ ٹراما سینٹر بننے کے بعد سول اسپتال نے اپنی ایمرجینسی سروسز کم کر دیں۔ یہ ٹراما سینٹر کے قیام کا مقصد نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد خدمات کے دائرے کو بڑھانا تھا۔ جناح اسپتال میں ٹراما سینٹر نہیں ہے اور وہ ہم بنائیں گے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس برن سینٹر نہیں ہے۔ اس کے لیے ہم نے جگہ دیکھ لی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کارڈیالوجی بھی نہیں ہے۔

جنگ: ڈاکٹر ندیم قمر کا کہنا ہے کہ ٹرانسپورٹیشن کے مسائل کی وجہ سے این آئی سی وی ڈی میں پورے کراچی سے لوگ نہیں پہنچ جاتے۔ کیا جناح اسپتال کو بھی یہ مسئلہ درپیش ہے؟

ڈاکٹر شاہد رسول: جناح اسپتال تو شاہراہ فیصل پر واقع ہے اور یہاں پہنچنا نسبتاً اسان ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ سول اسپتال میں لوگ کس طرح پہنچتے ہیں۔ ہمیں مزید اسپتالوں کے قیام کے لیے نئے مقامات تلاش کرنے چاہئیں اور حکومت کو بھی آبادی کے اعتبار سے اس چیز کا تعین کرنا چاہیے کہ اسے کتنے پرائمری، سیکنڈری اور ٹرشری کیئر اسپتال قائم کرنے ہیں۔ آج کراچی سپر ہائی وے سے بھی آگے تک پھیل چکا ہے۔ اس وقت تمام اسپتالوں میں رابطہ کاری کی ضرورت ہے۔ موجودہ 1122 ریسکیو بہت اچھے انداز سے چل رہی ہے۔

میں اس کی ایک مثال بھی پیش کر سکتا ہوں۔ ایک شخص نے 1122 پر فون کیا کہ اس کے گھر ایک مریض ہے اور اسے اسپتال لے کر جانا ہے۔ پھر 1122 کا آپریٹر اس وقت تک آن لائن رہا کہ جب تک ایمبولینس گھر نہیں پہنچ گئی اور وہ یہ بھی بتاتا رہا کہ اب فلاں فلاں کام کرنا ہے۔ مجھے جب یہ پتا چلا تو بڑی حیرانی ہوئی کیوں کہ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس لیول کی ریسکیو سروس شہر میں کام کر رہی ہے۔ اس سروس کو اسپتالوں سے انٹیگریٹ ہونا چاہیے۔ ہم یہ کوشش کر رہے ہیں کہ جب یہ ایمبولینس روانہ ہو تو ہمیں اطلاع مل جائے۔

ڈاکٹر حمید جمانی: اس قسم کی انٹیگریشن پر کام ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں ہر اسپتال کو آن بورڈ لیا جائے گا اور ہم ایک سسٹم تیار کریں گے۔ جب ریفرل کسی اسپتال سے چلے گا تو دوسرا اسپتال بھی اس سے رابطے میں ہو گا۔

ڈاکٹر صابر میمن: فیصل ایدھی صاحب میرے پاس آئے تھے تو اس بارے میں میری ان سے بات ہوئی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایمبولینس سروسز کی لائسنسنگ کی بات کی تھی۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ ایمبولینس کا سپورٹ سٹاف تربیت یافتہ ہونا چاہیے۔ ہمیں ریسکیو 1122 سروس کے اسٹاف کی ٹریننگ کے لیے بھی کہا گیا ہے۔ پرائیویٹ ایمبولینس سروسز کی رجسٹریشن، لائسنسنگ کے علاوہ اگر ایمولینس کا اسٹاف اور ڈرائیور لائسنس یافتہ نہ ہو تو انہیں آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہیلتھ کیئر کمیشن کے سامنے یہ ساری چیزیں رکھے اور ان سروسز کو ریگولیٹ بھی کیا جانا چاہیے۔ دوسرا اہم مسئلہ روڈ سیفٹی کا ہے۔ روڈ سیفٹی کے حوالے سے جہاں ٹریننگ کی ضرورت ہو گی تو ان کو ٹریننگ بھی دی جا سکتی ہے۔ اگر سندھ حکومت باقاعدہ طور پر ان تمام چیزوں کو ایمرجینسی ہیلتھ سروسز ڈکلیئر کرے گی تو خود بخود ہی چیزیں بہتر ہونا شروع ہو جائیں گی۔ پھر اس میں مزید اضافہ کیا جائے گا اور بہتری آتی رہے گی۔

جنگ: اس سلسلے میں ٹیلی میڈیسن کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟

ڈاکٹر صابر میمن: جب رابطہ کاری ہو جائے گی یعنی مریض لاڑکانہ میں حادثے کی صورت میں آٹھ گھنٹے میں کراچی پہنچے گا تو ہم ٹیلی میڈیسن کے ذریعے راستے میں ایمبولینس کے اسٹٓاف کو مشورے دے سکتے ہیں۔ یعنی مریض کے فلاں فلاں ٹیسٹ، ایکسرے اور سی ٹی اسکین وغیرہ کروائیں اور ہم تک بھیج دیں۔ ہمارے ڈاکٹرز اور وہاں کے ڈاکٹرز بیٹھ کر اس پر بات کر سکتے ہیں اور آدھے گھنٹے میں یہ فیصلہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے آپریٹ کرنا چاہیے یا نہیں۔

ڈاکٹر شاہد رسول: آج سے 20 برس پہلے ہمارے پاس ٹیلی میڈیسن کا شعبہ قائم تھا۔ اس سلسلے میں کوئی ڈیپارٹمنٹ بنانے کی ضرورت نہیں۔ اب موبائل فون ہی پر سارے کام ہو رہے ہیں۔ جتنی دیر میں مریض ہم تک پہنچتا ہے، اس سے پہلے ہی اس کی ساری رپورٹس ہمیں تک پہنچ چکی ہوتی ہیں اور ہم فیصلہ کر چکے ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں واٹس ایپ گروپس ضرور بنائے جاسکتے ہیں جن میں اسپتالوں کے اعلیٰ سطح کے لوگ شامل ہوں۔ اس کے علاوہ تمام اسپتالوں کے ایمرجینسی سربراہان ایک دوسرے سے رابطے میں رہیں۔ ان کی مہینے میں کم از کم ایک میٹنگ ہو۔ اس کے ساتھ ہی آپس میں خدمات کا تبادلہ بھی کریں۔

جنگ: اگر آگہی کی بات کی جائے تو دنیا بھر میں ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ شوگر، بلڈ پریشر، مرگی کے دورے وغیرہ سمیت دوسرے امراض سے خود ہی نمٹ لیتے ہیں اور اسپتالوں کا رخ نہیں کرتے۔ کیا اس حوالے سے حکومت کی جانب سے کوئی مہم نہیں چلائی جا سکتی؟

ڈاکٹر شاہد رسول: جناح اسپتال میں بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگہی مہم چل رہی ہے۔ دوسری طرف ڈینگی نے شہر میں خوف پھیلا رکھا ہے۔ ہم نے اس حوالے سے بھی آگہی مہم چلائی کہ فلاں فلاں علامات ڈینگی کی ہیں اور اگر یہ علامات آپ میں نہیں پائی جاتیں تو آپ کو ڈینگی نہیں ہے۔ اگر ہنگامی طبی خدمات کے حوالے سے بات کی جائے تو آوے کا آوا کا بگڑا ہوا ہے۔ ہیلمٹ کوئی نہیں پہنتا۔ بغیر لائسنس کے گاڑیاں چلائی جا رہی ہیں اور مخالف سمت سے گاڑیاں چلائی جا رہی ہیں تو اس صورت میں حادثات کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔

ہمیں لوگوں میں شعور بیدار کرنا ہو گا۔ ہمارے یہاں پی ایچ ڈی کرنے والے افراد کو بھی نیوٹریشن کا نہیں معلوم۔ اگر ہمارے اسکولوں میں پہلی سے دسویں کلاس تک منشیات کے نقصانات اور نیوٹریشن کے بارے میں پڑھایا جائے تو شاید کچھ اثر ہو۔ اسی طرح روڈ سیفٹی وغیرہ کو بھی نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے۔اصغر: میرا سوال ڈاکٹر حمید جمانی سے ہے کہ کیا حکومت این آئی سی وی ڈی کے طرز پر ٹراما سینٹر کے سیٹلائٹ سینٹرز قائم کرنے پر بھی غور کر رہی ہے؟

ڈاکٹر حمید جمانی: جی بالکل۔ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ ریپڈ رسپانس سینٹرز کا۔ یہ بنیادی طور پر ٹراما سینٹر کے سیٹلائٹ سینٹرز ہی ہوں گے۔ کراچی کے مختلف اضلاع میں ایک ایک ٹراما سینٹر قائم کیا جائے گا۔ یہ سینٹرز مرکزی ٹراما سینٹر سے منسلک ہوں گے۔ سیٹلائٹ سینٹرز ایمرجینسی میں آنے والے مریض کو طبی امداد دینے کے بعد ضرورت پڑنے پر یہاں بھیج سکتے ہیں یا پھر وہیں ان کا علاج کر کے انہیں فارغ کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے مزید بہتر انداز میں ڈاکٹر صابر میمن بتا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر صابر میمن: میں نے سندھ حکومت کو یہ تجویز دی ہے کہ سب سے پہلے شہر بھر کے ٹراما سینٹرز کو فعال کرنا ضروری ہے اور اس کے بعد ان کی انٹیگریٹ کیا جائے۔ چارٹر کے اعتبار سے ہمارا ٹراما سینٹر حب ہو گا۔ ہم انہیں رہنمائی دے سکتے ہیں اور انہیں انٹیگریٹ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم انہیں ٹریننگ بھی فراہم کر سکتے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر ٹریننگ ایکسچینج پروگرام بنا سکتے ہیں۔

دوسری تجویز ہم ورکنگ پیپر کی صورت میں حکومت کو دینے والے ہیں کہ ریجنل سینٹرز ڈکلیئر کیے جائیں تاکہ مریض کی منتقلی میں وقت کی بچت ہو اور ضائع ہونے والے قیمتی وقت کو کم سے کم کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ کراچی سمیت ملک بھر کے بڑے اسپتالوں اور ریسکیو سروس 1122کو بھی آپس میں انٹیگریٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر شاہد رسول:میں یہاں یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر کسی حادثے میں ایک شخص زخمی ہو جائے تو وہاں 40 ایمبولینسیں پہنچ جاتی ہیں اور یہ سراسر وسائل کا زیاں ہے۔

ڈاکٹر حمید جمانی: ریسکیو 1122 کی سروس کہیں فراہم کی جا چکی ہے اور کہیں اسے فراہم کیا جانا ہے۔ ضلع شرقی میں سندھ حکومت کا ایک اسپتال مکمل ہو چکا ہے اور یہ منصوبہ زیر غور ہے کہ وہاں ان کو ایک کال سینٹر بنا کر دیا جائے۔ اسی طرح ضلع وسطی میں ہم نے انہیں جگہ فراہم کی تھی اور کے ایچ ڈی میں بھی جگہ دی تھی لیکن انہوں نے زیادہ جگہ کا مطالبہ کیا ہے تاکہ وہ زیادہ ایمبولینسز کھڑی کر سکیں۔ اس ضمن میں انچولی میں انہیں شفٹ کرنے کا منصوبہ ہے۔ اسی طرح ڈسٹرکٹ ویسٹ، لانڈھی، شاہ فیصل میں انہیں جگہ دی گئی ہے۔ کوشش یہی ہے کہ ریسکیو 1122 کو ہر ضلع میں ایسے مقامات پر جگہ دی جائے جہاں شہریوں کی باآسانی رسائی ہو۔

ڈاکٹر صابر میمن: نیپا پر ہمارے سینٹر کا چارٹر بھی حکومت کی طرف سے منظور کیا گیا تھا۔ کووڈ کی ایمرجینسی میں وہ استعمال ہوا اور اس نے بڑی اچھی سروسز فراہم کیں اور آج بھی وہ انفیکشیئس ڈیزیزز کے نام پر سروسز فراہم کر رہا ہے لیکن یہ بڑے رقبے پر مشتمل ہے اور اس کے باقی بلاکس خالی پڑے ہیں جب کہ یہاں میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے بیڈز بھرے ہوئے ہیں اور پھر یہاں تک مریضوں کو پہنچنے میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

میری حکومت سے یہ گزارش ہے کہ جو ادارے ٹراما سینٹر ڈکلیئرڈ ہیں، انہیں فعال کیا جائے۔ ہم ان کو زیادہ بہتر انداز میں چلا سکتے ہیں۔ آپ نے ہیلی کاپٹر سروس کی بات کی تو ڈسٹرکٹ ایسٹ میں ہیلی پیڈ بنا ہوا ہے لیکن وہ فعال نہیں ہے۔ اس پر سول ایوی ایشن کو بہت سے اعتراضات تھے کیوں کہ وہاں جب ہیلی کاپٹر لینڈ کرتا ہے تو اس کا پریشر اتنا ہوتا ہے کہ ارد گرد کی عمارتیں متاثر ہو سکتی ہیں۔ جناح اسپتال میں بھی ہیلی پیڈ موجود ہے۔ نیپا میں ٹراما سینٹر پہلے ہی ڈکلیئرڈ ہے تو وہاں ہم ہیلی کاپٹر اور ایمرجینسی سروسز کو کسی بڑی تباہی کی صورت میں آسانی سے منیج کر سکتے ہیں۔

جنگ: حادثات کی صورت میں خون کی کمی کا بڑا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو کیا اس حوالے سے بلڈ بینک کا کوئی منصوبہ زیر غور ہے؟

ڈاکٹر شاہد رسول: میرا تو بلڈ بینک کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ جب سے ڈینگی آیا ہے تو بلڈ بیگز کا مسئلہ ہے۔ کمپنیاں ریٹ فکس کر لیتی ہیں اور سپلائی کا وعدہ بھی کر لیتی ہیں مگر مجھے جتنے بیگز کی ضرورت ہوتی ہے، اتنے نہیں ملتے لیکن مجھے منع بھی نہیں کیا جاتا۔ اگر مجھے روزانہ 500 بیگز کی ضرورت ہوتی ہے تو 50 دے دیتے ہیں اور 450 مارکیٹ میں تین گنا قیمت پر فروخت کر دیتے ہیں۔

ڈاکٹر صابر میمن: سندھ حکومت نے ریجنل بلڈ بینک کے حوالے سے ایک سروس شروع کی ہے اور اس کے تحت میرے اسپتال میں بھی ایک بلڈ بینک قائم ہے۔ ہم نے خون کی فراہمی کے لیے صرف یہ شرط لگائی ہے کہ ڈونر پیشنٹ فراہم کیا جائے۔ ٹراما انسٹی ٹیوٹ اور سول اسپتال میں اسکریننگ اور بیڈ چارجز لیے بغیر خون لگایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ 5 سے 10 فیصد مریضوں کو ڈونر پیشنٹ کے بغیر بھی خون فراہم کیا جاتا ہے۔

جنگ: آزاد کشمیر میں یہ سروس شروع ہوئی ہے کہ ایمرجینسی کی صورت میں آپ کسی بھی قریب ترین اسپتال میں مریض کو لے جائیں اور ادائیگی حکومت کرے گی۔ اس حوالے سے کراچی میں کیا صورتحال ہے؟

ڈاکٹر حمید جمانی: کراچی میں فی الحال تو ایسا نہیں ہے۔ البتہ ماضی میں کووڈ کے کافی مریض تھے تو بہت سارے اسپتالوں کو ان کے علاج کے لیے کہا گیا تھا۔ اسی طرح ڈینگی کے مریضوں کا علاج بھی مفت کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ آئی ڈی پیز مریضوں کے لیے بھی علاج معالجے کی مفت سہولتیں دی گئی ہیں۔ ڈائو میں بھی مفت علاج معالجے کی سہولت فراہم کی گئی۔

ڈاکٹر شاہد رسول: سندھ حکومت یہ بل منظور کر چکی ہے اور اس پر عمل درآمد بھی ہونا ہے کہ اگر کسی حادثے کی صورت میں یا گولی لگنے کی وجہ سے کوئی مریض قریبی اسپتال میں جاتا ہے تو اس اسپتال کی ذمے داری ہے کہ وہ آپ کو علاج معالجے کی مفت سہولت فراہم کرے اور وہ آپ سے پیسے بھی نہیں طلب کر سکتا۔ البتہ اس بل پر عمل درآمد میں رکاوٹ کا سامنا ہے۔ امل ایکٹ کے بعد اب عوام کو بھی اس بارے میں سوچنا چاہیے اور حادثے کی صورت میں اپنے کسی قریبی اسپتال میں جانا چاہیے۔

جنگ: اس حوالے سے حکومت کو آگہی مہم بھی چلانی چاہیے۔

ڈاکٹر شاہد رسول: جی بالکل، اس سلسلے میں آگہی مہم بھی چلائی جا سکتی ہے۔

ڈاکٹر صابر حسین: اس میں ایک رکاوٹ یہ آتی ہے کہ بڑے اسپتال مریض کو لے لیتے ہیں لیکن ان کا بلنگ کا عمل بہت طویل ہو جاتا ہے۔ بنیادی طور پر ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہم مریض کو نہ لیں۔ جب سانحہ کارساز ہوا تو ہم نے 34 مریضوں کو آغا خان اور ایل این ایچ بھیجا۔ ان کی کوشش تھی کہ مریضوں کی تعداد کم کر دی جائے۔ میں تب ایڈیشنل سیکرٹری تھا اور تین چار سال تک ان کے بلوں کا عمل مکمل نہیں ہوا۔ یہ ادارے مجبوراً مریض کو لے لیتے ہیں لیکن ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان اسپتالوں کے بلز کی ادائیگی کے مسائل حل کرے تاکہ مریضوں کو یہاں مفت علاج معالجے کی سہولت ملتی رہے۔

ڈاکٹر شاہد رسول: ہم ان اسپتالوں کو سروسز کے لیے پیسے کیوں دیں۔ کیا وہ کافی نہیں کما رہے۔ اگر نہیں مہینے میں چند روڈ ایکسیڈنٹ کے مریض ٹریٹ کرنا پڑ جائیں تو وہ کر سکتے ہیں۔ یہ ان کے لائسنس کا حصہ بھی ہے۔

ڈاکٹر حمید جمانی: لیکن پھر ایسا ہو گا کہ کوئی بھی مریض سول، جناح کی بجائے آغا خان کو جانے کو ترجیح دے گا۔ اس وقت ڈینگی کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ اسپتالوں میں بیڈز نہیں مل رہے تو میرے پول پر روزانہ 400 سے 450 بیڈز خالی ہوتے ہیں لیکن مریض اپنے مرضی کے اسپتال میں جانا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر اظہر شیخ: ٹراما سینٹرز میں کام کرنے والے ڈاکٹرز، پیرا میڈیکس اور دوسرے اسٹاف کو مراعات دینے کے لیے بھی کوئی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے؟

ڈاکٹر حمید جمانی: ایک ڈاکٹر ہونے کے ناتے میری ہمدردیاں ڈاکٹرز اور دیگر میڈیکل اسٹاف کے ساتھ ہیں لیکن ساری بات وسائل کی ہے۔ جب تک حکومت کے پاس وسائل تھے تو کووڈ کے دوران اسٹاف کو کوویڈ الائونس ملتا رہا۔ اب کووڈ ختم ہو رہا ہے۔ فیڈرل میں بہت سارے الائونسز ہوتے ہیں لیکن یہاں نہیں ہیں اور حتیٰ کہ ہمیں ہائرنگ کی سہولت بھی نہیں ہے۔ مراعات ملنی چاہئیں لیکن اس کے لیے وسائل کی ضرورت ہے اور حکومت سارے وسائل اسی شعبے پر خرچ نہیں کر سکتی۔ ڈاکٹر شاہر رسول: مراعات کی بات درست ہے لیکن ایک پولیس اہلکار کیا رسک پر نہیں ہے۔ جب ہم انصاف کی بات کرتے ہیں تو صرف ڈاکٹروں کو الگ نہیں کر سکتے۔ کوویڈ میں کام زیادہ تھا تو اس دوران الائونس دیا گیا لیکن اس دوران زیادہ بیمار ہونے کے چانسز تھے۔

ڈاکٹر صابر میمن: میرا ماننا ہے کہ ہنگامی طبی خدمات فراہم کرنے والوں کے لیے رسک الائونس ہونا چاہیے۔ ہم نے جناح اسپتال کو دیکھتے ہوئے رسک الائونس منظور کروایا ہے۔ ہم ایمرجنسی میں کام کرنے والوں کو الائونس بھی دیں گے۔ اگر حکومت کے پاس وائل ہیں تو ایمرجیسنی کیئر کی خدمات دینے والوں کو رسک الائونس ضرور ملنا چاہیے۔

جنگ: ڈائو ایک نیم سرکاری ادارہ ہے۔ یہاں کچھ چاجرز لیے جاتے ہیں اور وائٹ کالر افراد وہاں جانے کو ترجیح دیتے ہیں تو کیا ٹراما سمیت دیگر اسپتالوں میں ایسے ماڈل کا اطلاق نہیں ہو سکتا؟

ڈاکٹر صابر میمن: اچھی سروسز کے لیے بہت زیادہ وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم پبلک سیکٹر ہونے کے ناتے کسی مریض کو واپس نہیں بھیج سکتے۔ وائٹ کالر مریض بھی ڈائو کو افورڈ نہیں کرسکتے اور وہ یہاں آ جاتے ہیں۔ نچلے طبقے کے لیے سرکاری وسائل موجود ہیں لیکن ان کو باقاعدہ طریقے سے ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ جن اداروں کے پاس فنڈنگ کی کمی ہے، انہیں انڈس اور ایس آئی یو ٹی کی طرح اپنی فنڈنگ بڑھانی چاہیے اور اگر وہ اپنی سروسز کو مفت فراہم کریں تو زیادہ بہتر ہے۔

ڈاکٹر شاہد رسول: اگر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ نہ کی جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے، کیوں کہ اس سے مفادات کا تصادم ہوتا ہے۔

جنگ: ایمرجینسی کی صورت میں بڑی تعداد میں مریض آپ کے پاس آتے ہیں۔ اس دوران مریضوں کی اموات بھی ہوتی ہیں تو کیا ان میں وقت گزرنے کے ساتھ کمی ہو رہی ہے یا اموات میں اضافہ ہو رہا ہے؟ کیا اس سلسلے میں آپ کے پاس اعداد شمار موجود ہیں؟

ڈاکٹر شاہد رسول: ہمارے پاس ڈیٹٓا موجود ہے لیکن کبھی موازنہ نہیں کیا۔ ہمارے پاس میڈیکل کی شرح اموات زیادہ ہے، سرجیکل کی کم ہے۔

ڈاکٹر صابر میمن: اس حوالے سے آغا خان والوں نے ریسرچ کی تھی۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ 80 فیصد مریضوں کو ٹرانسپورٹیشن نہ ہونے کی وجہ سے نہیں بچایا جا سکا۔ اس میں زیادہ مسائل ہینڈلنگ کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر اسٹٓاف تربیت یافتہ ہو تو مریضوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ باقی ٹرانسپورٹیشن کی وجہ سے اموات ہوتی ہے۔ ہم اس حوالے سے اسٹڈی کر رہے ہیں جو بہت منظر عام پر آ جائے گی۔

جنید شاہ: سندھ حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی ان سروسز کے بارے میں عوام کو آگہی فراہم کیوں نہیں جارہی؟

ڈاکٹر شاہد رسول: آپ درست کہہ رہے ہیں۔ جناح اسپتال کی ویب سائٹ پر ایک ویڈیو ہونی چاہیے جس میں یہ بتایا جائے کہ یہاں کیا کیا سروسز دی جاتی ہیں اور یہاں کیسے آنا ہوتا ہے۔ میں ایسی 5 سے 7 منٹ کی ویڈیو اپنی ویب سائٹ کے لیے بنوا رہا ہوں۔

ڈاکٹر صابر میمن: ہم نے بھی اپنی ویب سائٹ پر اپنی سروسز کے حوالے سے چھوٹے چھوٹے کلپس ڈالے ہیں۔