بلوچستان اسمبلی: پورا سیشن کورم کے مسلئے سے کیوں دوچار رہا؟

November 03, 2022

بلوچستان اسمبلی کا حال ہی میں ختم ہونے والا سیشن اپنے اعتبار سے الگ رہا، پورئے سیشن میں اگرچہ کوئی بڑی قانون سازی نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی بڑی پیشرفت ہوئی، قارئین کو حیرت ہوگی کہ پھر یہ سیشن کیوں الگ رہا دراصل بلوچستان اسمبلی کا سیشن جو پانچ اجلاس پر مشتمل رہا اور پانچ میں سے چار سیشن کورم ٹوٹ جانے کے باعث ایجنڈئے کی کاروائی مکمل کیے بغیر ملتوی کیے گئے ، سیشن کا صرف پہلا اجلاس کورم کا شکار نہ ہوا اس کے بعد پورا سیشن کورم کے مسلے سے دوچار رہا ، بلوچستان اسمبلی کے اجلاس وقت مقررہ پر شروع نہ ہونا بھی اب معمول بنتا جارہا ہے، اکثر اوقات اجلاس تو ایک سے دو گھنٹہ کی تاخیر سے بھی شروع ہوتے ہیں۔

دوسری جانب ارکان کی جانب سے اسمبلی کے اجلاسوں میں دلچسپی کم ہوتی نظر آرہی ہے، اسمبلی کے گزشتہ سیشن میں بار بار کورم کے باعث اجلاس ملتوی کیے جانے کی وجہ سے اہم نوعیت کی سرکاری کارروائی نہ نمٹائی جاسکی اسی طرح ملک کی ممتاز قانون دان عاصمہ جہانگیر کی برسی کے موقع لاہور میں ہونے والی کانفرنس میں کی جانے والی تقاریر کے خلاف حکومتی ارکان کی مذمتی قرارداد پر بھی دو اجلاسوں کا کورم ٹوٹ جانے پر بحث نہ ہوسکی ، پارلیمانی سیکرٹری بشریٰ رند، حاجی نور محمد دومڑ ، مبین خان خلجی، خلیل جارج اور ماجبین شیران کی پیش کردہ مشترکہ قرارداد کہا گیا تھا۔

لاہور میں ایک کانفرنس کے دوران ملکی اداروں کے خلاف جو تقاریر کی گیں وہ قابل مذمت ہیں اس قسم کی تقاریر سے نہ صرف ملکی اداروں کی ساکھ بری طرح متاثر ہوتی ہے بلکہ ملک دشمن عناصر کو اس قسم کی تقاریر سے ملکی اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے کا موقع بھی ملتا ہے ،قرارداد کے متن میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی تھی کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ آئندہ اس قسم کی ملک مخالف تقریر کی روک تھام کی بابت فوری عملی اقدامات اٹھانے کو یقینی بنائے۔

محرک نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ ملک میں کچھ عجیب ہی قسم کی سیاست ہورہی ہے، کانفرنس میں شخصیت پر بات کرنے کی بجائے ملک کو نقصان پہنچانے جیسی تقریریں کی گئیں سمجھ نہیں آرہی یہ کون سی سیاست ہے کہیں بھی تنقید برائے اصلاح نظر نہیں آرہی ہے،بلوچستان کے مذکورہ سیشن کے قریب تمام اجلاسوں میں صوبے کے سیلاب زدگان کی امداد نہ ہونے اور تاحال ان کی آباد کاری کے حوالے سے اقدامات نہ اٹھائے جانے کی باز گشت سنائی دی، بلوچستان اسمبلی میں اگرچہ عددی اعتبار سے ایک بڑی اور بھرپور اپوزیشن موجود ہے جو تین سال سے زائد عرصے تک سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کے دور میں اسمبلی میں حکومت کو ٹف ٹائم دیتی رہی لیکن میر عبدالقدوس کے وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد 65 ارکان پر مشتمل بلوچستان اسمبلی میں 23 ارکان والی اپوزیشن اب فرینڈلی اپوزیشن کے طور پر نظر آرہی ہے۔

بلوچستان میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی سے قبل تک حکومتی اور اپوزیشن ارکان اسمبلی کے اجلاسوں میں کورم برقرار رکھتے ہوئے نظر آتے تھے سرکاری کاروائی کے روز حکومتی ارکان اور غیرسرکاری کارروائی نمٹائے جانے کے دن اپوزیشن ارکان کی اتنی تعداد موجود رہتی تھی کہ اجلاس کے ایجڈئے پر موجود کارروائی نمٹائی جاتی تھی لیکن ایسا بھی نہیں کہ ماضی میں کبھی اسمبلی کے اجلاس کورم ٹوٹ جانے پر ملتوی نہ کیے گئے ہوں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پانچ میں سے چار اجلاس کورم ٹوٹ جانے پر ملتوی کیے جاتے رہے ہوں۔

دوسری جانب اکثر اوقات ارکان اسمبلی وقفہ سولات میں اپنے سولات کے جوابات نہ ملنے یا متلقہ وزرا کی عدم موجودگی پر بھی احتجاج کرتے نظر آتے ہیں، یہی کچھ صورتحال بلوچستان اسمبلی کے آفیشلز گیلری میں بھی نظر آتی ہے جہاں اکثر اوقات اعلیٰ سرکاری افسران کی کمی محسوس کی جاتی ہے یہ مسلہ صرف موجودہ اسمبلی کی ہی نہیں ماضی میں بھی سرکاری افسران کے اسمبلی کے اجلاسوں میں عدم شرکت پر ارکان اجلاسوں میں احتجاج کرتے رہے ہیں۔

حال ہی میں ختم ہونے والے سیشن کے ایک اجلاس کی صدارت کرنے والے ڈپٹی اسپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل کی جانب سے ارکان بلوچستان اسمبلی کو صوبے میں امن و امان اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر ان کیمرہ بریفنگ دینے کیلئے چیف سیکرٹری بلوچستان ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ ، آئی جی پولیس بلوچستان ، سینئر ممبر بورڈ اف ریونیو ، ڈی جی پی ڈی ایم اے اور کیسکو چیف کو صوبائی اسمبلی کے کانفرنس روم میں طلب کرنے کی رولنگ دی تھی تاہم مقررہ تاریخ پر بریفنگ نہ ہوسکی تھی جس پر ارکان نے اسمبلی کے فلور پر احتجاج کیا تھا۔

تاہم بعد ازاں اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے آگاہ کیا گیا تھا کہ صوبائی کابینہ اجلاس کے باعث ارکان کو مقررہ تاریخ پر ان کیمرہ بریفنگ نہ دی جاسکی تاہم اگلے روز ارکان کے لئے بریفننگ کا اہتمام کیا جائے گا،ایک جانب بلوچستان اسمبلی کے حوالے سے یہ صورتحال ہے تو دوسری جانب اب بھی بلوچستان اسمبلی کی اپنی روایات ہیں کہ اس اسمبلی میں ایک دوسرئے پر تنقید اب بھی سیاسی انداز میں سیاسی دائرئے میں ہوتی ہے، اس کی کئی ایک مثال ہیں جن میں ایک بڑی جام کمال خان کے دور کے آخری صوبائی بجٹ پیش کیے جانے کے موقع پر پیش آنے والا ایک ناخوشگوار واقعہ تھا جب اپوزیشن کی جماعتوں نے بجٹ پیش کیے جانے سے چند روز قبل حکومتی رویئے کے خلاف پہلے اسمبلی کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا اور پھر بجٹ پیش کیے جانے کے موقع پر اسمبلی کے داخلی گیٹس کو بطور احتجاج بند کردیا تھا پولیس کی جانب سے گیٹس کھلوانے کی کوشش میں بعض اپوزیشن ارکان زخمی ہوگئے تھے جبکہ جمعت علما اسلام سے تعلق رکھنے والے عبدالواحد بری طرح زخمی ہوئے تھے اتنے بڑئے ناخوشگوار واقعے کے بعد اپوزیشن ارکان نے اگرچہ حکومت اور خاص طور پر سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کو اس تمام صورتحال کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اسمبلی کے کئی اجلاسوں سمیت دیگر فلور پر آڑئے ہاتھوں لیا تھا۔

تاہم اس دوران بھی اپوزیشن کی جانب سے کسی قسم کی غیر شائستہ گفتگو نہیں کی گئی ، یہ کچھ اسمبلی کے باہر بھی دیکھنے کو ملا جب پہلے میر عبدالقدوس بزنجو سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کی رہائش پر گئے جن کے خلاف میر عبدالقدوس بزنجو صرف ایک سال قبل تحریک عدم اعتماد لاکر وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے اور دوسری بار سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان جمعیت علما اسلام کی قیادت کے پاس چل کرگئے جن کو جمعیت کی قیادت اپنے ارکان اسمبلی کے زخمی ہونے کا ذمہ دار قرار دیتی تھی یہ دونوں ملاقاتیں اسمبلی سے باہر ہوئیں جن کو بلوچستان کی سیاسی روایت کا عکس قرار دیا جاسکتا ہے۔