یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی ....

November 16, 2022

پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں پہلی بار بچوں کے ادب کے موضوع پر اسلام آباد میں تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا،جس میں پاکستان کے چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے ان ادیبوں اور شاعروں کو مدعو کیا گیا جنہوں نے بچوں کا ادب لکھا اور اس سے وابستہ رہے۔سو ا سوسے زائد بچوں کے ادیبوں اور شاعروں کا ایک چھت تلے جمع ہونے کا یہ پہلا موقع تھا، اکیڈمی ادبیات کے فیض احمد فیض آڈیٹوریم کو باقاعدہ سجایا گیا تھا، راستوں اور راہداریوں میں رنگ برنگے غبارے لگا کر خوبصورت سماں پیدا کیا گیا تھا۔

سندھ ، پنجاب، بلوچستان،خیبر پختونخوا ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے بچوں کے ادیب اور شاعروں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے کیونکہ آج انہیں وہ کامیابی ملی تھی جس کا وہ برسوں سے مطالبہ کرتے چلے آرہے تھے، آخر کار اکیڈمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک نے ذاتی کوششوں سے ان کانفرنس کے انعقاد کو یقینی بنا ہی دیا۔

افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی اور قومی ورثہ ، ثقافت ڈویژن انجینئر امیر مقام تھے، تقریب میں وفاقی سیکریٹری برائے ورثہ و ثقافت ڈویژن فارینہ مظہر، سینیٹر عرفان صدیقی، معروف دانشور، کالم نگارمحمود شام اور مقبول شاعر ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد اسٹیج پر جلوہ افروز تھے۔ اسکولوں اور کالجوں کے طلبا و طالبات کی بھی ایک بڑی تعداد نےافتتاحی اجلاس میں شرکت کی ،سب ہی پرجوش تھے کیونکہ سرکاری طور پر بچوں کے ادب پر یہ پہلی کانفرنس تھی، ادبی میلوں میں ایک آدھ گھنٹے کی نشست تو ضرور ہوتی رہی ہے لیکن تین روز تک مسلسل بچوں کا ادب، اس کی تاریخ اور اس کے وسائل اور مسائل کبھی زیر بحث نہیں لائے گئے۔

قومی ترانے کے بعد اسکول کے بچوں نے علامہ اقبال کی مشہور دعا ’’لب پر آتی ہے دعا بن کر تمنا میری ‘‘پیش کی تو ہر شخص اپنے خیالوں میں کھو سا گیا جب اسکول کی اسمبلی میں قومی ترانے کے بعد بچے لہک لہک کر یہ دعا پڑھا کرتے تھے، بے شک بڑا ہونے کے بعد ہمارے اندر سے بچہ غائب ہوجاتا ہے لیکن مرتا نہیں ہے، بچے بے شک اپنے جذبات کا بھرپور اظہار نہ کرسکیں لیکن وہ ہر بات کو نہ صرف سمجھ رہے ہوتے ہیں بلکہ اس پر سوچ بھی رہے ہوتے ہیں، اس کانفرنس میں برطانیہ، کینیڈا، ڈنمارک، جرمنی، ترکی، ایران، آذربائیجان، افغانستان سمیت 13ملکوں کے ادیب اور شاعروں نے بھی کانفرنس میں آن لائن شرکت کی، جس سے اس کی رونقوں میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔

زیر اہتمام بچوںکے ادب کے حوالے سے تین روزہ عالمی کانفرنس کی روداد

صدف مرزا، ریحانہ قمر، ڈاکٹر علی بیات، یشب تمنا، ڈاکٹر اشرف عبدالرحمان، پروفیسر خلیل طوکا ر اور دیگر اس کانفرنس کی کارروائی کو اپنے اپنے ملکوں میں براہ راست سن رہے تھے،یہ ہمارے لیے باعث افتخار و اعزاز تھا کیونکہ اگر ہم بچوں سے غافل ہیں تو ترقی یافتہ قوم ہونے کا تصور نہیں کرسکتے ، بچے ہمارا آج بھی ہیں اور کل بھی، ان کی تعلیم و تربیت کے بغیر ترقی کا خواب کسی بھی صورت پورا نہیں ہوسکتا جو وسائل ہمیں درکار ہیں ان میں ادب بھی اہمیت کا حامل ہیں، پاکستانی ادب میں بچوں کے ادب کے خزانے موجود ہیں لیکن اسے تلاش نہیں کیا گیا، اقبال نے ہمیشہ بچوں کے اچھے مستقبل کی نوید دی اور کہا کہ

ہیں وہی جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسروں کے

تین روزہ کانفرنس میں 150 اسکالرز نے اپنے مقالے پیش کئے، 24 مختلف زبانوں میں بچوں کا ادب پیش کیا گیا، تقریب کے آغاز میں ڈاکٹر یوسف خشک چیئرمین اکادمی نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ،اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سےآپ تمام معزز پاکستانی مہمانوں کا اور بیرون ممالک سے کانفرنس میں آن لائن شامل اسکالرز اور دائرہ علم و ادب کے اشتراک کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اس کانفرنس میں شرکت فرما کر اس محفل کو رونق بخشی، ہمارے لئے یہ بہت افتخار اور اعزاز کی بات ہے کہ عزت مآب مشیر وزیر اعظم پاکستان جناب امیر مقام اور معرف ادیب شاعر و سینیٹر عرفان صدیقی ہمارے درمیان موجود ہیں۔

کانفرنس میں آپ کی موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ حکومت ادب اور خاص کر بچوں کے لئے لکھے جانے والے ادب کے فروغ کے لئے کس قدر پرعزم ہے اور ان امور کا گہرا شعور رکھتی ہے، بچوں کی تربیت کے لئے جو وسائل ہمیں درکار ہیں ان میں ادب کا وسیلہ سب سے موثر اور کارگر ہے، ادب نہ صرف بچوں کی تربیت کے ایک آلے کے طور پر کام کرتا ہے بلکہ ان کے کردار اور اخلاق کی تعمیر میں کردار ادا کرتا ہے۔

ہر دور میں بچوں کے لئے لکھنے والے مایہ ناز اہل قلم کی کمی نہیں رہی ہے، ہمارے قومی شاعر علامہ محمد اقبال اصل میں بچوں کے بھی سب سے بڑے شاعر ہیں، انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے بچوں کو جو پیغامات دیئے وہ انھیں حفظ ہیں اور ہمیں ایک اچھے مستقبل کی نوید دیتے ہیں۔ دنیا بھر کے بڑے ادیبوں کی طرح پاکستان کے ہر بڑے ادیب نے بھی لکھنے کا آغاز بچوں کے ادب سے کیا،یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بچوں کا ادب وہ نرسری ہے جو دنیاکو بڑے ادیب مہیا کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔

اکادمی ادبیات پاکستان کا مینڈیٹ جہاں قومی و علاقائی ادب کو فروغ دینا ہے وہیںبچوں کے ادب کو بھی فروغ دینا ہمارے دائرہ کار میں شامل ہے، انہی باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام ’’بچوں کا ادب: ماضی، حال اور مستقبل‘‘ کے موضوع پرتین روزہ بین الاقوامی ادبی کانفرنس کا اعلان کیا تھااورملک بھر سے بچوں کے ادیبوں اور بچوں کے ادب پر کام کرنے والے محققین سے مقالوں کی تلخیص بھیجنے کی استدعا کی گئی تھی۔

ماضی میں بھی اکادمی کے زیر انتظام مختلف اوقات میں بچوں کے ادب کے فروغ کے لئے مختلف علمی و ادبی منصوبے جاری کئے گئے اور کتب و جرائد شائع ہوئیں لیکن آپ کو یہ سن کر خوشی ہوگی کہ پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر صرف اس ایک سال میں اکادمی ادبیات پاکستان نے سہ ماہی ادبیات اطفال کے چا ر خصوصی نمبر شائع کئے ہیں، جس میں1947 ء سے لے کر 2022ء تک پاکستان کے بچوں کے ادب کی تاریخ محفوظ کر دی گئی ہے اور الحمد للہ آج اکادمی ادبیات پاکستان کے پلیٹ فارم سے حکومتی سطح پر بچوں کی پہلی عالمی کانفرنس کا افتتاح ہو رہا ہے،تین دن میں اندرون و بیرون ملک 24 زبانوں کے ڈیڑھ سو اسکالرز اپنے بچپن کے تجربات کے ساتھ تحقیقی، تنقیدی و تخلیقی تجربات پیش کریں گے۔

افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معروف صحا فی، دانشور محمود شام نے خطاب کرتے ہوئے کیا کہ، آج سالگرہ کا سماں ہے، کبھی یہ عمارت اس طرح سجی ہوئی نہیں دیکھی، اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے، اس کانفرنس نے بچوں کے ادب کو زندہ کردیا ہے، بچے من کے سچے ہوتے ہیں، ہم بڑوں کی طرح جھوٹ نہیں بولتے، بڑوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ پوتوں، پوتیوں، نواسوں،نواسیوں کو وقت دیں ان سے سیکھیں ، آج کے بچے آئی ٹی کی دنیا میں نام پیدا کر رہے ہیں۔

مہمان خصوصی وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی اور قومی ورثہ ، ثقافت ڈویژن انجینئر امیر مقام اور وفاقی سیکریٹری برائے ورثہ و ثقافت ڈویژن فارینہ مظہرشرکاء سےخطاب کرتے ہوئے

سبقت کی خواہش بچپن سے ہی ہوتی ہے جو آگے بڑھنے کے لئے ضروری ہے، دوسروں ملکوں کے بچوں کے رسائل سے نئی جہتیں ملتی ہیں، اکیڈمی ادبیات کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے بچوں سے گلا کرنے کے بجائے ان کے لئے کانفرنس منعقد کی، بچوں کے ادیبوں کو بھی سرکاری سطح پر سول ایوارڈ ملنے چاہئیں۔ معروف شاعر اور ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کے ادب کا معاملہ تھا مجھ پر قرض تھا کہ میں حاضر ہوں گزشتہ 75 برسوں میں بچوں کے ادب پر وہ کام نہیں ہوا جو ہونا چاہئے، بچوں کے لئے لکھی گئی جنوں اور پریوں کی کہانیوں میں بچوں کو جادو گر کی طاقت اور ہیروں کی سچائی نظر آتی ہے، بچہ مستقبل میں آکر سوچتا ہے، اب بچوں کے ادب کے لئے موضوعات بہت ہیں بچے ہر چیز پر سوال کرتے ہیں، وہ ہم سے آگے نکل گئے ہیں، آج کے بچوں میں آپس میں جڑنے اور رابطہ کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہے، وقت بدل رہا ہے ، انہوں نے تجویز پیش کی کہ پرائمری تک کی تعلیم اپنی زبان میں ہی دی جائے، انگریزی کو زبان کے طور پر سکھائیں، اچھی کہانیوں کو کورس میں شامل کریں۔ وفاقی سیکریٹری فارینہ مظہر نے کہا کہ، بچوں کے ادب سے حکومت آگاہ ہے اور بنیادی ترجیحات میں شامل ہے، ماں کی گود سے تربیت کا مرحلہ شروع ہوتا ہے، کہانیوں اور نظموں کے ذریعے تربیت ہوتی ہے۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ بچوں کے ادب کو فروغ دینے کے لئے وسائل کی ضرورت ہے، ان کے تخلیق کاروں کو ایوارڈ اور وظائف دینے کی ضرورت ہے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اُس بچے کو تلا ش کرنے کی ضرورت ہے جو اس دنیا کی چکا چوند میں کھو چکا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پہلے والدین بچوں کو کہانیاں سناتے تھے جس سے بچوں میں کہانیاں سننے کا شوق بڑھتا تھا، آج والدین کے پاس وقت نہیں ہے کہ وہ بچے پر نظر رکھیں کہ وہ کہاں کھو گیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کے ادب کو الماریوں میں رکھنے کی بجائے انہیں کتاب پڑھنے کی طرف راغب کریں، ایسا کرناوقت کی اہم ضرورت ہے۔اگر کوئی ڈاکٹر یا انجینئر بھی بنے لیکن اسے اردو زبان پڑھانی چاہئے تاکہ وہ ادب و ثقافت سے روشناس ہو اس سے اس کی زندگی پر بڑا خوشگوار اثر پڑے گا۔

وفاقی سیکرٹری محترمہ فارینہ مظہرنے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ آج کی تقریب اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ حکومت پاکستان قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن قوم کی تعمیر و ترقی میں ادب خاص کر بچوں کے ادب کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہے اور پاکستانی ادب کی ترویج کے لئے کی جانے والی کوششوں کی حوصلہ افزائی اس کی بنیادی ترجیحات میں شامل ہے۔

بچے کسی بھی قوم کا سرمایہ اور مستقبل ہوتے ہیں، اس لئے بچے ہر قوم کی ایک بڑی ذمہ داری بھی بنتے ہیں ان کی اخلاقی، کرداری، سماجی اور ثقافتی تربیت اور تعلیم کی ذمہ داری قوم کو نبھانی پڑتی ہے، یہ کانفرنس اور اس میں آپ کی موجودگی اس ذمہ داری کا منہ بولتا ثبوت ہے،اس بہترین کوشش کے لئے آپ سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔

میں اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک اور ان کی پوری ٹیم کی اس کوشش کو ضرور سراہنا چاہوں گی کہ ان کی قیادت میں یہ ادارہ بہت فعال انداز میں کام کر رہا ہے، آج کی تقریب یقینا بچوں کے ادب کے حوالے سے بہت سے موضوعات پر گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھانے کا ذریعہ بنے گی اور اس کے نتیجے میں ایسی سفارشات سامنے آئیں گے جن پر عمل کر کے ہم بچوں کے ادب کی روایت کو تقویت دینے اور اس کی تاثیر میں گرانقدر اضافہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

مشیر برائے وزیراعظم سیاسی و عوامی امور، قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن انجینئر امیر مقام نے کہاکہ، میں آپ تمام اہل قلم کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں بلاشبہ یہ ایک یادگار تقریب ہے جس میں پاکستان اور مختلف ممالک کے بچوں کے ادب سے وابستہ اسکالرز کی اتنی بڑی تعداد کو ایک جگہ اکٹھا دیکھ کر خوشی ہورہی ہے، اکادمی ادبیات پاکستان ملک میں ادیبوں ،شاعروں اور پاکستانی ادب کے فروغ کے لئے کام کرنے والا واحد قومی ادارہ ہے، انہوں نے خصوصی اعلان کرتے ہوئے کہاکہ آئندہ سے بچوں کا ادب تخلیق کرنے والے لکھاریوں کو دو ایوارڈز دیئے جائیں گے اسی طرح بچوں کا ادب تخلیق کرنے والے بچوں کو بھی دو ایوارڈ دیئے جائیں گے،ہر سال بچوں کے ادب کے حوالے سے کانفرنس منعقد کی جائے گی۔

آج اس ایوان میں بچے بھی موجود ہیں اور ان کے لئے لکھنے والے ادیب اور اس تمام عمل پر گہری نگاہ اور بصیرت رکھنے والے ماہرین بھی موجود ہیں، اکادمی ادبیات پاکستان نے ایک کہکشاں سی سجا دی ہے۔ ان ادیبوں اور ناقدیں سے میری گزارش ہے کہ ملک و قوم کی خاطر بچوں کے ادب تخلیق کرنے کی روایت کو فروغ دیں، ہم آج قومی سطح پر بہت سے مسائل سے نبرد آزماہیں، ہم اپنے بچوں کے کردار اور اخلاق کی آج حفاظت کریں گے تو یہ کل کوپوری قوم کے کردار کی حفاظت کا فریضہ انجام دیں گے، یہ ہمارے لکھنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کا ادب تخلیق کرتے ہوئے اسلام کے اصولوں اور ہماری مشرقی اعلیٰ انسانی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھیں۔

حب الوطنی کا بھرپور جذبہ بچوں میں اسی عمر میں پیدا کیا جا سکتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اکادمی ادبیات پاکستان اور ہمارے اسکالرز، ادیب اور شاعر اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں ، اس عمل میں مزید بہتری لانے کی ان میں مکمل اہلیت اور گنجائش موجود ہے، میں ایک بار پھر تمام ادیبوں، وفاقی سیکریٹری محترمہ فارینہ مظہر صاحبہ اور اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ آئندہ بھی اسی جذبے کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت جاری رکھیں گے۔

افتتاحی تقریب کےبعد مختلف سیشن کا آغاز ہوا ۔ پہلا اجلاس بچوں کا ادب اور عصر حاضر کے عنوان سے ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر وحید احمد نے کی، ڈاکٹر سائرہ ارشاد ، ذوالفقار علی بخاری، یاسمین سلطانہ نے گفتگو کی، ڈاکٹر روش ندیم نے میربانی کے فرائض انجام دیئے، بچوں کا شعری ادب ، بچوں کا نثری ادب اور بچوں کے ادب کو درپیش مسائل کے عنوانات سے سیشن کا انعقاد کیا گیا ، صدارت احمد حاطب صدیقی، ڈاکٹر افتخار کھوکھر نے کی، مقررین میں کاوش صدیقی، محمد حفیظ طاہر، محمد شعیب مرزا، ڈاکٹر شاہدہ سردار، محمد ندیم اختر اور دیگر شامل تھے۔

آئو بچوں سنو کہانی کے دو سیشن منعقد ہوئے پہلے سیشن کی صدارت ڈاکٹر فریڈ بروہی اور ڈاکٹر طارق ریاض نے کی اشرف سہیل، ببرک کارمل، محمد علی، خواجہ مظہر صدیقی، روبنسن سمیو ئل گل نے اپنی تحریر کردہ کہانیاں پیش کیں، جبکہ دوسرے سیشن کی صدارت جدون ادیب اور عادل مہناج نے کی، میزبانی کے فرائض اعظم طارق کوہستانی نے کی، کہانی پیش کرنے والوں میں علی عمران ممتاز، امجد جاوید، عبدالرحمن مومن، اعجاز احمد اعجاز، جاوید نور اور دیگر شامل تھے، کانفرنس کے دوسرے دن13 سیشن منعقد کئے گئے، جن کے موضوعات بچوں کے ادب کے فروغ میں رسائل کا کردار بچوں کا ادب ثقافت اور حب الوطنی، بچوں کے ادب کو درپیش مسائل، اور ان کے حل کے لئے عملی تجاویز، بچوں کی تربیت میں ادب کا کردار، بچوں کا ادب 21 ویں صدی میں، بچے اقبال اور جناح کی نظر میں، پاکستانی زبانوں میں بچوں کا ادب، ڈیجیٹل عہد اور بچوں کا ادب شامل تھے۔

ان سیشن میں مزمل صدیقی، اعظم طارق کوہستانی، اغر ندیم سحر، محمد فیصل شہزاد، محمد فاروق دانش، خلیل جبار، راحت عائشہ، شاہد حفیظ، ڈاکٹر صلاح الدین درویش، ابن آس، اختر عباس، شیخ فرید اور دیگر بچوں کے ادیبوں نے مقالے پیش کئے، کانفرنس کے تیسرے روز 10 سیشن منعقد ہوئے جن کے موضوعات میں بچوں کے عالمی ادب سے تراجم، بچوں میں کتب بینی کے فروغ کے لئے ممکنہ اقدامات، بیرون ممالک میں بچوں کا ادب ماضی، حال ، مستقبل، بچوں کے رسائل کا معیار رجحانات اور امکانات، ادویات اطفال، تحقیق، تنقید اور بچوں کی نفسیات اور اختتامی تقریب شامل تھی، ان سیشن میں علی عمران ممتاز، عبدالرحمن مومن، فاروق عادل، امان اللہ نیر شوکت، علی اکبر عباس، محمد صابر عطا، اشفاق احمد حان، نیاز پنھور، علی حسن ساجد، حفیظ خان، ڈاکٹر ذوالفقار سیال نے شرکت کی، کانفرنس میں اس بات کا بھی خیال رکھا گیا کہ مقالہ جات کے ساتھ ساتھ شاعری سے بھی مندوبین محظوظ ہوں، اس موقع پر مشاعرہ منعقد کیا گیا جس میں بچوں کے حوالے سے لکھی گئی نظمیں پیش کی گئیں۔

مشاعرے کی میزبانی ریاض عادل نے کی، کلام پیش کرنے والوں میں نوید مرزا، انجم جاوید، اسحاق وردگ، راکب راجہ، امجد جاوید، عبدالرحمن مومن، ڈاکٹر فاطمہ حسن اور احمد حاطب صدیقی شامل تھے، مشاعرہ میں بڑی تعداد نے طلبہ وطالبات نے شرکت کی، کانفرنس کے تینوں دنو ں میں میری بچپن بیتی کے عنوان سے ملک کی ممتاز شخصیات نےاپنے بچپن کے حالات و اقعات سنا ئے، ان میں سینیٹر عرفان صدیقی، وفاقی سیکریٹری برائے اطلاعات شعیب صدیقی، ممتاز شاعرہ کشور ناہید، ڈاکٹر انیس احمد اور معروف شاعر افتخار عارف شامل تھے، ان شخصیات سے عاصم بٹ، فرحین چوہدری، حارث خلیق، ریاض عادل، اور محمود ظفر نے سوالات کئے جن کے جوابات انہوں نے انتہائی دلچسپ انداز میں دیئے، تقریب میں موجود اسکولوں کے طلبہ و طالبات نے بھی سوالات کئے۔

اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی محترمہ فارینہ مظہر وفاقی سیکریٹری قومی ورثہ ثقافتی ڈیویژن نے کہا کہ بچوں کے ادیب ہمارے لئے قابل احترام لکھاری ہیں کیونکہ یہ ہماری نسلوں کی تربیت کی اہم ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں۔ پچھلے تین دنوں کے اندر پاکستان اور بیرون ممالک سے بچوں کے ادیبوں، تخلیق کاروں، شاعروں اور محققوں کی بڑی تعداد نے اس میں شرکت فرمائی اور نہایت پر مغز مقالات ،اپنی تخلیقات، اپنے تجربات پیش کئے۔اس کانفرنس کی خوبصورتی یہ تھی کہ ہر عمر کے انسانوں، بچوں، نوجوانوں، بزرگ مرد و خواتین سب نے اس کانفرنس میں خوشی خوشی شرکت کی اور ہر ایک نے اس سے استفادہ کیا، امید ہے ڈاکٹر یوسف خشک اوران کی ٹیم اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر انتظام آئندہ بھی ایسی ہی موثر اور کامیاب تقریبات کا انعقاد کرکے ڈویژن اور وزارت کو سرخرو کریں گے۔

معروف ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید نے کہا کہ75 سال میں پہلی بار پاکستان میں اس نوعیت کی بچوں کی کانفرنس منعقد کی گئی ہے جس کے لئے چیئرمین اکادمی اور ثقافت ڈویژن مبارکباد کے مستحق ہیں، انہوں نے کہا کہ میں نے پہلی تحر یر بچوں کے لئے لکھی۔ میں بچپن میں باقاعدہ چھ رسالوں کا قاری تھا، انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا سچ بچوں کا سچ ہے، اس لئےان کے لئے ادب تخلیق کرنا مشکل ہے۔ بچوں کے ادیب ہمارے لئے قابل احترام ہیں کیونکہ یہ ہماری نسلوں کی تربیت کی اہم ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں، امید ہے کہ ڈاکٹر یوسف خشک اور ان کی ٹیم اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر انتظام آئندہ بھی ایسی ہی موثر اور کامیاب تقریبات کا انعقاد کرکے ڈویژن اور وزارت کو سرخرو کریں گے۔

ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ اس کانفرنس میں شرکت کر کے محسوس ہوا کہ یہ تین دن میں نے اپنے بچپن کے ساتھ گزارےہیں، ادب اور آرٹس انسان کو وہ شعور عطا کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک مہذب انسان بنتا ہے، بہت کامیاب رہی یہ کانفرنس اس شعور کو جگانے میں بہت کامیاب رہی کہ ادب اور آرٹ انسان کے لئے بہت ضروری ہے، بچوں کے ادب پر پہلی اور سچ مچ کی کانفرنس منعقد کی گئی ،اس کا انعقاد بڑا کارنامہ ہے جس کے لئے چیئرمین اکادمی اور قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن مبارک باد کے مستحق ہیں، انہوں نے کہا کہ مائوں سے امید ہے کہ بچوں کو لوریاں اور کہانیاں سنا کر معاشرے کا اچھا فرد بنائیں۔

اکیڈمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام بچوں کے ادب کے حوالے سے تین روزہ عالمی کانفرنس کے مقررین اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں

صوبہ پنجاب کے دانشوروں و ادبا ء و اسکالرز کی نمائندگی کرتے ہوئے معروف ادیب ناول نگار محمد حفیظ خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ قومی سطح پر یہ کانفرنس جہاں وسل بلور ثابت ہوئی وہاں اس نے ہمارے ذاتی مخمسے بھی دور کئے ، ہم نے اپنے بچوں کو اپنے نصاب سے نکلنے نہیں دیا، اس کانفرنس نے جہاں کئی سوالوں کے جواب دیئے وہاں کئی سوال بھی پیدا کئے ہیں، پچھلے دوتین برسوں میں اکادمی ادبیات کی پبلیکیشنز، سیمینارز اور کانفرنسوں نے پورے پاکستان کو ادبی سطح پر یک جان کر دیا ہے۔

سندھ کے نامور ادیب و شاعر ڈاکٹر ادل سومرو نے صوبہ سندھ کے ادبا کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ بچے کسی سے نفرت نہیں کرتے، تین دن کی اس کانفرنس میں بطور بچوں کے ادیب ہمیں سیکھنے کا موقعہ ملا کہ ہمیں کیسا لکھنا چاہئے، اپنے انداز کی منفرد کانفرنس تھی ،اپنے پچاس سالہ ادبی زندگی میں اندروں و بیرون ملک کئی کانفرنسز میں شرکت کی اس نوعیت کی کانفرنس جس میں روحانی تسکین حاصل ہو پہلی مرتبہ دیکھی۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے نامور ادیب دانشور و محقق اباسین یوسف زئی نےکہا کہ میں فخر محسوس کر رہا ہوں کہ اکادمی ادبیات پاکستان جو تاریخ رقم کر رہی ہے، اس کا میں بھی حصہ ہوں ، کرونا میں بھی اکادمی کے سربراہ ڈاکٹر یوسف خشک اور اس کی ٹیم نے سیمینارز کانفرنس کا راستہ نہیں روکا ، بچوں کے ادب پر کانفرنس بڑی مثال ہے، ہر صوبے سے بچوں کی مادری زبانوں کا رسالہ بھی شائع ہونا چاہئے، نیشنل کلچر ڈویژن کا شکریہ کہ انہوں نے اس کانفرنس کی اجازت دی۔

صوبہ بلوچستان کے نمائندہ مصنف معروف اقبال شناس و محقق عبدالرئوف رفیقی نے کہا کہ 7۵سال میں حکومت کی طرف سے قومی سطح پر ایک بھی کانفرنس بچوں کے حوالے سے نہیں ہوئی، یہ اعزاز ڈاکٹر یوسف خشک اور ان کی ٹیم کو نصیب ہوا۔ چشم بددور، کانفرنس کے تین دن ہم اپنے بچپن میں کھوئے رہے اور ساتھ ساتھ اکادمی کے یہ در و دیوار بھی مختلف زبانوں کی لوریاں سن کر خماروں سے مخمور رہے، تین دن کے لئے اس کانفرنس میں میزبانوں نے جس انداز سے مہمان نوازی کے ساتھ ہماری فکری خوراک کا اہتمام کیا ،بلا تفریق شرق و غرب قابل تحسین ہے۔

گلگت بلتستان و آزادکشمیر کی نمائندگی کرتے ہوئی معروف شاعر، مورخ، ادیب مترجم احسان دانش نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے چنیدہ و معروف ادیب اس کا نفرنس میں شریک ہیں، اکادمی ادبیات پاکستان سے پہلے 22 سالوں سے میرا تعلق ہے مگر اکادمی کے اندراس سے پہلے ہم نے پورے پاکستان کے ادبیوں کی بڑی رونق نہیں دیکھی جو پچھلے تین روز سے دیکھ رہا ہوں، ڈاکٹر یوسف خشک چیئر مین اکادمی ادبیات پاکستان نے کہا کہ الحمدللہ اکادمی ادبیات پاکستان کے تحت پہلی تین روزہ و بین الاقوامی کانفرنس بچوں کا ادب: ماضی، حال اور مستقبل اپنے اختتام کو پہنچی مگر دراصل یہ آغاز ہے ایک مضبوط بنیاد کا۔ ہم سب ایک مضبوط ، مستحکم اور خوشحال پاکستان چاہتے ہیں۔

ان تین دنوں میں ہم نے مختلف زاویوں سے بچوں کے ادب کا جائز ہ لیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہم جدید دور کے بچوں کے لئے ادب کو کس طرح اہم اور مفید بنا سکتے ہیں، اس جدید اور پیچیدہ دنیا کو سمجھنے میں ادب زیادہ اہم ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ادب ارتقائی مراحل طے کر لے اور بچوں کے ذہنی ارتقا کو سمجھے، اس شعور کے ساتھ جو ادب تخلیق ہوگا ،وہ بچوں کے لئے دلچسپ بھی ہوگا اور ہم بھی۔ اس لیے ہم نے بچوں کے ادب میں ماضی، حال کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کے امکانات پر توجہ مرکوز کی۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت پاکستان نے اس کا نفرنس کی اہمیت کو سمجھا اور ہماری کاوشوں کو سراہا۔ ان تین دنوں میں ہم نے بچوں کے شعری اور نثری ادب کا جائزہ لیا اور ادب کو در پیش مسائل کو سمجھا۔

وطن کو مستحکم کرنے کے لئے ثقافت اور حب الوطنی کا جذبہ بچوں میں ادب کے ذریعے اجاگر کرنے پر اہم گفتگو ہوئی اور بچوں کے ادب کو در پیش مسائل اور ان کے حل کے لئے عملی تجاویز پر غور کیا گیا، اکادمی ادبیات پاکستان نے بے شمار کا نفرنسیں اور سیمینارز منعقد کئے ہیں مگر بچوں کے ادب کی یہ کانفرنس اس لحاظ سے اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد اور اہم کا نفرنس تھی کہ اس میں سامعین بچے بھی تھے، اس طرح ہم نے انہیں ان کے اہم ہونے کا احساس دلایا اور اپنا پیغام بھی ان تک پہنچایا کہ بچوں کا ادب پڑھنا ان کے لئے ناگزیر ہے، ہم نے بچوں کے ادبیوں، شاعروں کو بھی احساس دلایا کہ وہ ہمارے لئے بہت اہم اور قابل احترام ہیں کیوں کہ وہ ہمارا ہراول دستہ ہیں جس کی مدد سے ہم علمی، فکری، ذہنی اور عملی تربیت کر کے بچوں کو کارآمد شخصیت بنا سکتے ہیں، دائر علم وادب پاکستان کے اشتراکاور ان تمام ادیبوں شاعروں کا بے حد شکر یہ ادا کرتا ہوں جو میری قوم کے معماروں کی شخصیت سازی میں مصروف ہیں، سیکر یٹری برائے قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن محترمہ فارینہ مظہر صاحبہ کا خصوصی شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ وہ اس کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر یہاں تشریف لائیں اور اپنی دلچسپی سے یہ پیغام دیا کہ بچوں کی نشوونما اور تعمیر میں خواتین بھی بے حد سنجیدہ ہیں اور جب ہم سب اس نیک مقصد کے لئے ایک ہو گئے ہیں تو یقین رکھیئے کہ آج ہم نے جو بنیاد رکھی ہے اس پر آنے والے وقت میں مضبوط قلعہ تعمیر ہوگا۔اختتامی تقریب کی نظامت عنبرین عنبر نے خوبصورت انداز میں کی۔

کانفرنس کے اختتام پر شرکاء خوشگوار یادوں ، نئے جذبوں، اور امنگوں کے ساتھ اپنے اپنے شہروں کو لوٹ گئے۔