’’ایٹمی جنگ‘‘

November 16, 2022

عالمی میڈیا میں ایک اہم سوال تیزی سے گردش کر رہا ہے کہ کیا عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے؟ اس نازک سوال کے دو آسان جواب ہیں ہاں ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے، نہیں ابھی اس کا موقع نہیں آیا۔

درحقیقت یہ واویلا یوں ہوا کہ روس کے صدر ولایمر پیوتن نے امریکا کو دھمکی دی ہے کہ اگر امریکا اور یورپ نے یوکرین کو جدید اسلحہ اور دیگر مراعات فراہم کیں تو روس اسٹریٹجک جوہری استعمال کر سکتا ہے، انہوں نے محض دھمکی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ سویڈن اور فن لینڈ کے قریب ایٹمی میزائل بھی نصب کر دیئے۔ روسی صدر کے ان اقدام کی وجہ سے امریکا نے بھی جوابی دھمکی دیدی۔

امریکی صدر جوبائیڈن نے واضح طور پر یہ بیان دیاکہ ایسی کسی خطرناک صورتحال میں امریکا یورپ کا مکمل ساتھ دے گا اور یورپ کے ایک ایک انچ زمین کی حفاظت کرے گا۔ امریکا کو روسی صدر کے جاری اقدام سے واقعی تشویش ہو رہی ہے، کیونکہ حال ہی میں روسی حکومت نے تین لاکھ سپاہی بھرتی کرے ہیں اور ان کی تربیت جاری ہے۔ روسی فوجی یوکرین کے چار شہروں پر اپنا قبضہ جما لیا ہے یہ چاروں شہر روس کی سرحد کے ساتھ واقع ہیں،وہاں روسی بولنے والوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے جو جشن منا رہی ہے۔

مغربی میڈیا میں حسب توقع بہت سی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں جن میں ایک خبر یہ ہے کہ، روس جلدیوکرین کو اپنے میں ضم کرے گا۔ اس خبر کے پھیلنے کے بعد مزید حالات کشیدہ ہوگئے۔ زار روس اور سوویت یونین کے دور میں اٹھارہ مشرقی یورپ اوروسط ایشیائی ریاستوں پرروس کا قبضہ رہا۔ اب وہاں تیسری نسل جوان ہو چکی ہے جو 1990ء کے واقعات کے بعد روس سے بلکہ سوویت یونین سے علیحدگی اختیار کرلی تھی جس میں یوکرین بڑی ریاست تھی روس کی مغربی سرحدوں کے ساتھ واقع تھی، ایسے میں نیٹو ممالک نے یوکرین کو سرحد کے قریب میزائل نصب کرنے کی پیشکش کی جس کے پہل میں یوکرین کو نیٹو کارکن بنانے اور بڑی مالی امداد دینے کی پیشکش کی۔

مغربی میڈیا کے بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یوکرین کے نوجوان صدر نے سنجیدگی سے معاملہ پرغور کئے بغیر نیٹو کی پیشکش قبول کرلی ۔ یوکرین کا صدر چاہتا تو معاملہ کو سنجیدگی سے سلجھا سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا ۔دراصل تیسری دنیا کے غریب ملکوں کے سربراہوں نے اکثر معاملات میں اپنی کوتاہی یا حرص کے عوض عوام کو کڑے امتحانوں سے گزارا ہے، اس کی حالیہ مثال سری لنکا اور بعض افریقی ممالک ہیں۔ مصر کے سابق صدر نے بھی انہیں کی پالیسی اپناکر ملک کو مسائل کا شکار بنایا۔

روس نے بھی یوکرین کے مسئلے کو پر امن طور پر مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کا راستہ نہیں اپنایا اور جنگ کی راہ اپنالی۔ اس کی ایک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ روسی صدر ولایمر پیوتن سابق سوویت یونین کی طرح روس کو دوسری بڑی پاور کا درجہ دلانے اور عالمی سیاست میں روس کو اہم مقام دلانے کے خواہاں ہیں۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ صدی ہتھیاروں کی صدی نہیں بلکہ تجارت، معیشت، ایجادات اورانکشافات کی صدی ہے۔ روس نے لگتا ہے سوویت یونین کے منتشر ہونے کے ہولناک واقعہ سے کچھ خاص سبق نہیں لیا۔

جاری حالات اور دنیا گلوبل صورتحال میں بیس کے قریب یا زائد ایٹمی ممالک ہیں، ان میں کچھ اعلانیہ ہیں اورچند غیر اعلانیہ ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو میں بڑا ہاتھ امریکا اور سابق سوویت یونین کا رہا۔ اب اس ایٹمی کلب میں چین بھی شامل ہوگیا ہے۔

امریکا کی اصل پریشانی یہ ہے کہ دنیا کی سپر پاور ہونے کی حیثیت کا اس نے نصف صدی سے زائد فائدہ اٹھایا۔ اس دور میں یورپی ممالک نے اشراکیت کے خوف سے امریکا کا دم چھلہ بننا پسند کیا اور اب اس غلطی کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ روس سے حالات بگاڑنے میں امریکا کی اپنی پالیسی تھی اس میں یورپی ممالک کو زیادہ مصلحت پسندی سے کام لینا چاہئے، حالانکہ یہ یورپی ممالک ہی ہیں جنہوں نے دوسو برس سے زائد عرصہ تک دنیا کے زیادہ تر ممالک کو کنگال کرکے اپنے خزانے بھرے ،صرف ہندوستان سے برطانیہ نے اپنے راج میں 43 ٹریلین ڈالر لوٹ لئے۔ اب یورپی ممالک کو وقت پڑا ہے۔ معیشت نڈھال ہے۔ برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہو کر پچھتا رہا ہے۔

کووڈ۔ 19نے ان ملکوں کی معیشت اور سماجیات پرمہیب اثرات مرتب کئے ہیں۔ امریکا کی دھمکیوں سے روس کو کوئی فرق نہیں پڑتا، نرغے میں اس وقت یورپی ممالک ہیں۔ روسی صدر نے ایک طرح سے درست وقت ان کو ایک نئے امتحان میں ڈالدیا ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ یورپی یونین بناکر اب یہ نیٹو کو طاقتور بنانا چاہتے ہیں۔ نیٹو کو طاقتور بنانے کے لئے جب یورپی یونین نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بات کی تھی تو انہوں نے دوٹوک جواب دیا تھا کہ نیٹو کے اراکین اس معاہدہ کا بوجھ خود برداشت کریں امریکا نیٹو کو نہیں پالے گا۔

یورپی یونین میں برطانیہ اور فرانس دو بڑی ایٹمی طاقتیں ہیں اگر امریکا بھی ان کے ساتھ ہو جاتا ہےتو تین ایٹمی طاقتیں ،چوتھی اسرائیل ہوگا جو غیر اعلانیہ قوت ہے، جبکہ جنوبی افریقہ کے بارے میں قیاس ہے کہ وہ بھی جوہری قوت ہے مگر یہ بات ابھی تک محض قیاس ہے۔ ایشیا پر نظر ڈالیں تو روس، چین، بھارت اور پاکستان ایٹمی قوت ہیں۔ مغربی میڈیا میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ایشیا کی صدی ہے تو شاید غلط نہیں ہے۔ چین بڑی معاشی قوت ہے، بھارت ابھرتی بڑی طاقتاور روس بڑی طاقت ہے، اس کے پاس سب سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں۔ پاکستان جوہری طاقت ہے ۔ اگر جوہری قوت، معیشت اور عسکری قوت کا موازنہ کیا جائے تو اس وقت براعظم ایشیا کی اہمیت زیادہ ہے، جاپان جوہری قوت نہیں مگر بڑی معیشت ضرور ہے۔ آبادی میں سب ہی جانتے ہیں ایشیا سرفہرست ہے۔ ان حوالوں سے یہ ایشیاکی صدی ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی۔

امریکی صدر نے کہا ہے کہ صد ر پیوتن نے ایٹمی جنگ کی دھمکی دی ہے یہ محض دھمکی نہیں ہے، اس کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ ویسے مغربی میڈیا کی بھی یہ رائے کہ روسی صدر پیوتن جو کہتے ہیں وہ کر دکھاتے ہیں، ان کی یوکرین پر حملہ کی دھمکی کو لوگوں نے محض دھمکی خیال کیا مگریوکرین پر حملہ کردیا۔

اب روسی صدر پیوتن کا اصرار یا دھمکی یہ ہے کہ اگر امریکا نے یوکرین کو مزید ہتھیار دیئے تو وہ ایٹمی حملہ کردے گا۔ زیادہ امکان ہے کہ ایٹمی حملہ نہیں ہوگا مگر یوکرین روس کے لئے ایک خطرناک پوائنٹ ہے کیونکہ روس کی طویل مغربی سرحد اور یوکرین کی مشرقی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں ایسے میں روس کو تشویش ہے کہ روسی سرحدوں کے ساتھ یوکرین نیٹو کے ساتھ سازباز کرکے وہاں ہتھیار جمع کر سکتا ہے خاص طور پر ایٹمی میزائل نصب کرنے کا معاہدہ کر رہا تھا جس کو روس نے حملہ کرکے ختم کردیا۔

یوکرین میں اپنے نوجوان صدر کی پالیسیوں کے خلاف ایک رائے ہے۔ اس رائے کےحامیوں کا خیال ہے کہ یوکرین روس سے دوستانہ تعلقات رکھے بغیر بلاوجہ نیٹو کا اتحادی کیوں بننا چاہتا ہے ۔ظاہرہے نیٹو ممالک یوکرین کی سرزمین کو روس کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں اس لئے اس صورتحال میں یوکرین قربانی کا بکرا کیوں بننا چاہتا ہے۔

اکیسویں صدی میں بعض ایٹمی قوتوں نے کم طاقت کم دھماکہ اور کم خطہ میں اثرات پھیلانے والے چھوٹے بم تیار کرلئے جو ایک مخصوص دائرے میں تباہی پھیلا سکتے ہیں اس طرح کے چھوٹے بموں کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے اس ایک چھوٹے بم کے کسی جگہ استعمال سے کم از کم دس کروڑ انسان اور حیوان ہلاک ہو سکتے ہیں اور اس خطہ میں خطرناک بیماریاں پھیل سکتی ہیں جبکہ اسی جگہ کی تما م املاک برباد ہو سکتی ہیں۔

ماہرین ماحولیات اس طرح کے چھوٹے بموں کے بارے میں بڑی تشویشناک رائے رکھتے ہیں ان کا استدلال یہ ہے کہ جوہری قوت کے اثرات محدود نہیں ہوتے تابکاری اثرات دور تک پھیلے ہیں بڑے خطے کی آکسیجن ختم ہو جاتی ہے لوگ سانس گھٹ جانے، جسم کی کھال اُدھڑ جانے یا اطراف شدید حدت برداشت نہ کر سکنے کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ ناگاساکی اور ہیروشیما پر جو بم گرائے تھے وہ آج کے ایٹمی بموں سے بہت کم طاقتور تھے۔ امریکا نے دو بم گرائے ، اس کے بعد سے اب تک وہاں خوفناک بیماریاں عام ہیں۔ زمین بنجر اور سیاہ ہے۔ یہ بھی انسانی تاریخ کی ایک بھیانک غلطی ہے۔ ہوا یہ تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان ہر طرف تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا یہاں تک جنگ کے اختتام کا اعلان ہوگیا۔ اس کے بعد بھی جاپانی حملوں میں کمی نہ آئی تو امریکی صدر روز ویلٹ نے جاپانی وزیراعظم کو خط ارسال کیا اور جنگ بند کرنے کی تاکید کی کہ اگر جنگ بند نہ کی تو جاپان کو خوفناک نتائج بھگتنا پڑسکتے ہیں۔ جاپانی حکومت نے بہت ہی شستہ زبان میں امریکی صدر کے نام خط تحریر کرایا۔

اس خط میں کچھ زیادہ ہی شستہ جاپانی الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔ یہ خط واشنگٹن پہنچا اور فوری مترجم کے حوالے کردیا گیا،تاکہ فوری ترجمہ کرکے صدر کو پیش کیا جائے۔ مترجم کو چند غیر مانوس جاپانی الفاظ کے ترجمے میں وقت لگ گیا۔ خط کا لب ِلباب یہ تھا کہ جاپان جنگ بند کرنے پرتیار ہے امریکا عجلت میں کوئی فیصلہ نہ کرے۔ مترجم نے پانچ دن بعد خط کا ترجمہ وائٹ ہائوس پہنچایا، مگر دیر ہو چکی تھی، امریکی بمبار طیارہ جاپان کی طرف پرواز کر چکا تھا، اب کچھ نہ ہوسکتا تھا۔پھر جو ہوا دنیا نے دیکھ لیا۔ اس کے بعد سے تمام سفارتی تحریروں اور تقاریر کو آسان زبان میں ادا کیا جاتا ہے۔ ترقی پذیر دنیا کے زیادہ تر عوام ایٹمی جنگ اور ایٹم بم کی تباہ کاریوں کا اندازہ نہیں رکھتے اس لئے آسانی سے ایٹم بم کا ذکر کر جاتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ قدیم دورہو یا جدید، جس قدر بھیانک تباہیاں فرد واحد کے فیصلوں سے انسانیت کو برداشت کرنا پڑیں وہ قدرتی آفات سے برداشت نہیں کرنا پڑیں۔ امریکا نے ہر صورت جاپان کو سبق سکھا کر دنیا میں اپنا رعب دبدبہ قائم کرنا تھا ،سواس نے یہ کردکھایا۔ جرمنی میں فاشزم کے پھیلائو نے دنیا کو شدید نقصان پہنچایا۔ آئن اسٹائن نے اپنا نظریہ مکمل کر لیا تھا مگر جرمنی کے حالات نے اس کو سخت مایوس کیا اور اس نے جرمنی سے امریکا ہجرت کرلی۔ اس موقع سے امریکا نے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور ایٹم بم تیار کر لیا۔

حال ہی میں برطانیہ نے اپنی ایک جوہری آبدوز آسٹریلیا کو دی ہے جس پر چین نے شدید احتجاج کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چین نے تائیوان کے اطراف بحری بیڑے کھڑے کردیئے تھے اور تائیوان پر چینی لڑاکا طیارے پرواز کر رہے تھے۔ مشرق بعید اور بحرالکاہل میں چین کی دفاعی تیاریوں سے اطراف کے ممالک میں خوف وہراس پھیل چکا تھا۔ مبصرین کہتے ہیں دنیا میں چین وہ قوت ہے جس کے قول و فعل پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ،بھارت اور روس کو اس کا بخوبی تجربہ ہے۔ شمالی کوریا کو چین ہرطرح مدد کرتا ہے اورشمالی کوریا نے چند روز قبل میزائل کے زبردست تجربہ کرتے ہوئے جنوبی کوریا کی سرحد پرفوجیں کھڑی کردیں ،جس کی وجہ سے مشرق بعید کشیدگی میں اضافہ ہوگیا۔

جس طرح روس نے یوکرین پرچڑھائی کردی اس طرح چین تائیوان پرچڑھائی کرنے کے لئے پر طول رہا ہے،مگر امریکا اورخطے کے ممالک نے چین کو خبردار کردیا ہے کہ اگر چین نے ایسا کوئی قدم اٹھایا تو اس کے نتائج بہت بھیانک ہو سکتے ہیں۔ آسٹریلیا کو برطانوی آبدوز نے کسی حد تک طاقتور بنا دیا ہے، مگر چین کے ارادے نہ صرف بحرالکاہل کے خطے کے ممالک بلکہ بحرہند میں بھی اپنے دفاعی اڈے بنانے کے لئے اس نے بحرہند میں چند اڈے قائم کر لئے ہیں۔ ایسے میں دنیا یوکرین اور بحرالکاہل میں تائیوان ہاٹ اسپاٹ بن گئے ہیں۔ اس لئے مبصرین کو شدید تشویش ہے کہ بڑی طاقتیں کچھ کر بیٹھیں تو ایٹمی جنگ کا خطرہ موجود ہے۔

بعض احمق غیر سیاسی شخصیات چھوٹے ایٹمی بموں سے اپنے حریفوں کو دھمکیاں دیتے ہیں۔ درحقیقت وہ اپنی کم علمی اور سیاسی قد اونچا رکھنے کیلئے اس طرح کے بے سروپا بیانات دے کر عوام کے کم علم طبقات کوخوش کرتے ہیں،جبکہ ایٹمی ماہرین بار بار خبردار کرتے رہے ہیں کہ چھوٹے کم جوہری قوت والے بموں کا استعمال کیاگیا تو اس میں بھی آناً فاناً لاکھوں افراد اور دیگرحیاتیات لقمہ ٔ اجل بن جائیں گے۔ حدتِ زمین اور حرارت سے لاکھوں ہیکٹر زمین سیاہ ہو جائے، جس پر انسان صدیوں کاشت نہیں کر پائے گا۔ فرض کریں کہ روس جاری جنگی صورتحال میں چھوٹے کم جوہری طاقت کے بم یوکرین کے خلاف استعمال کرتا ہے تو یوکرین کے اطراف کے خطوں پر بھی وہی تباہی اور مہیب اثرات نمایاں ہوں گے جو یوکرین پر ہوں گے۔

یوں بھی سردی کے موسم میں یورپ کا برا حال ہے۔ روس کی گیس پابندیوں کی وجہ سے یورپ کو نہیں مل رہی۔ اگر جوہری بم پھٹ گیا تو سورج کی رہی سہی شعاعیں بھی زمین تک پہنچ نہ سکے گی۔ آسمان دبیز سیاہ دھوئیں سے ڈھک چکا ہوگا۔ ایسے میں پورا یورپ سب سے بڑا برف خانہ بن کر ٹھٹھر کر رہ جائے گا۔ ان حالات امریکا کچھ نہیں کر پائے گا اس کے لئے نئی ا ٓفتیں کھڑی ہو جائیں گی۔ خطے میں اور اطراف وبائی امراض ڈیرے ڈالدیں گے، گویا قیامت سے پہلے قیامت ہوگی جو احمق چھوٹے جوہری بموں کی اپنے حریفوں کو دھمکیاں دیتے رہتے ہیں ،وہ ہوش کے ناخن لیں۔

روسی صدر پیوتن کی ایٹمی جنگ کی دھمکی کو امریکی صدر جوبائیڈن کہتے ہیں اس دھمکی کو ہلکا نہ لیا جائے اس میں روسی صدر پیوتن کی انا بھی شامل ہے۔ وہ روس کو عالمی اسٹیج پر نمایاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ واپس روس کو ستر اور اسی کی دہائیوں کا سابق سوویت دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس میں روسی صدر پیوتن کی خواہش اور انا کا جس حد تک بھی دخل ہو درحقیقت بالٹک سمندر جو شمالی اوقیانوس سے گھرا ہوا ہے برفانی علاقہ ہے،وہاں تیل، قدرتی کوئلہ، گیس، سونا، تانبا، لوہا اور دیگر قیمتی معدنیات سے بھرا پڑا ہے۔ اناج کی پیداوار میں بھی روس خود کفیل ہے۔ ایسے میں یورپی ممالک شدید مشکلا ت کا شکار ہیں۔ روس پر امریکا کی طرف سے عائد پابندیوں کا روس کو کوئی نقصان نہیں پہنچ رہا ہے۔ روس کی گیس، تیل اورگندم کی فروخت زیادہ ہوگئی ہے،مگر یورپی ممالک کا حال بہت برا ہے،اوپر سے موسم سرما اور برفباری شروع ہو چکی ہے۔

پہلی بار یورپی ممالک میں لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ تیل اور قدرتی گیس کا سب سے بڑا فروخت کنندہ روس ہے اس پر پابندیاں عائد ہیں، ایسے میں نان یورپی ممالک مثلاً ہندوستان، ترکی، لاطینی امریکی ممالک روس سے تیل اورگیس کے بڑے سودے کر رہے ہیں۔ روس بہت فائدہ میں البتہ یورپی یونین پریشان ہے۔ بیشتر ممالک میں یوکرین سے گندم نہیں پہنچا رہا ہے،چونکہ یوکرین کی بندرگاہ پر روس کا محاصرہ ہے،دنیا میں گندم کی قلت بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف امریکا میں پہلی بار ڈیزل کی کمی ہو رہی ہے۔ امریکا نے کنٹرول شروع کردیا ہے۔ دراصل روسی صدر پیوتن نے امریکی صدر جوبائیڈن کوکہاکہ، امریکا نے یوکرین کو جدید ہتھیاروں کی کھیپ روانہ کی تو پھر روس ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے کئی آپشن پر غور کرے گا۔

ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی سن کر امریکی جوبائیڈن کے کان کھڑے ہوگئے ،انہوں نے بھی روس کو جوابی دھمکی دیدی ۔ سوچنے کی بات ہے دو بڑی طاقتوں کی جنگ میں امریکی صدرکہتے ہیں، وہ یورپ کی سرزمین کی ایک ایک انچ کی حفاظت کریں گے۔ گنے کے کھیت میں دو ہاتھیوں کی لڑائی میں انچ انچ زمین کی حفاظت کون کر سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یورپی ممالک کا ملیدہ بن جائے گا۔

بیچارے چھوٹے چھوٹے ممالک ہیں، ان کی سلامتی کا اللہ ہی حافظ ہوگا۔ اگر گہرائی سے غورکریں تو جو غلطی یوکرین کے صدر نے کی اور روس کو ناراض کرکے اپنے ملک کو تباہ کردیا،اب وہی غلطی امریکی کررہے ہیں۔ روس ہر طرح سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ مغربی ممالک جانتے ہیں کہ روس مستقبل کی ورلڈ سپر پاور ہوگا۔ اس کو سپر پاور بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ قدرتی معدنیات کے بڑے بڑے ذخائر روس کے پاس ہیں۔

چین اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ روسی صدر پیوتن نے اپنی ڈپلومیسی سے دنیا کے بیشتر ملکوں کو اپنا ہمنوا اور طرفدار بنالیا ہے، ان کا مدمقابل ضعیف بیمار ہے، جبکہ امریکی آئین کے تحت تمام خارجی معاملات کی ذمہ داری پینٹاگون کی ہے، صدر محض دستخط کرنے تک ہیں۔ ایسے میں امریکا میں فیصلے پینٹاگون کرے گا جبکہ روسی صدر نے اپنی سیاسی گرفت مضبوط کررکھی ہے۔ عوام صدر پیوتن کی حمایت کررہے ہیں۔

امریکا کی سیاست معیشت اوردفاع دنیا میں ہتھیاروں کی فروخت کی مرہون منت ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ امریکا کودنیا میں جنگ و جدل راس آتی ہے، ایسے حالات میں دنیا میں ہتھیاروں کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔ پچاس کی دہائی سے امریکا کی جنگ جو پالیسی جاری ہے۔ برطانیہ ماہر شماریات کین اسمتھ نے حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکا نے پچاس کی دہائی سے اب تک گیارہ ملین افراد کو ہلاک کیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امریکا یوکرین کے صدر سے اپنا کام پورا کراکر اس کو بھی ہلاک کردے گا۔ روسی صدر پیوتن کی ایٹمی ہتھیار وں کی دھمکی کو امریکا بہت سنجیدہ لے رہا ہے۔ صدر پیوتن کی دھمکی محض سیاسی نہیں ہوتی ہے،انہوں نے کہاہے کہ وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔