لانگ مارچ: عمران خان الزامات کے بجائے تعمیری سیاست پر توجہ دیں

November 10, 2022

معاشی بحران، سیاسی عدمِ استحکام اور غیر یقینی صورتحال کا تعلق آپس میں گہرا ہے لیکن بنیادی محرک معیشت ہی ہے، جن بستیوں میں بھوک ہوتی ہے وہاں نہ تو امن قائم رہ سکتا ہے اور نہ ہی ترقی ہوسکتی ہے۔ اسی حقیقت کا اطلاق ممالک پر بھی ہوتا ہے ،حصول اقتدار کے جنون اور اپنے اقتدار کو استحکام دینے کی خواہش کے باعث وطنِ عزیز کو کئی دہائیوں سے بحران کا سامنا ہے، ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہونے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں مصروف ہیں اور ہم فروعی معاملات میں الجھے ہوئے اپنے اپنے انفرادی مقاصد حاصل کرنے کیلئے باہم برسرِپیکار ہیں۔

ایک دوسرے پر سنگین نوعیت کے الزامات اور ان سے بڑھ کر جو ابات، مقدمے، تاریخیں، لانگ مارچ، دھرنے، گرفتاریاں، حملے اور ’’29 نومبر‘‘ ملک کی داخلی صورتحال کے اثرات خارجی معاملات پر جس طرح اثر انداز ہوتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 6 ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن ابھی تک کوئی غیر ملکی سربراہ پاکستان کے دورے پر نہیں آیا۔

تاہم اب سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کی خبر پاکستان کی معاشی اور سیاسی صورتحال میں انتہائی غیرمعمولی قرار دی جارہی ہے اور پاک سعودیہ تعلقات پر نظر رکھنے والے مبصرین اور تجزیہ نگار اُن کے اس دورے کو انتہائی دور رس نتائج کا حامل قرار دے رہے ہیں لیکن پاکستان جو اس وقت بدترین سیاسی بحران کا شکار ہے کیا ایسی صورتحال میں اپنے محسن اور معزز مہمان کا استقبال ان کے شایانِ شان انداز سے کرسکے گا؟ کیونکہ لانگ مارچ اور دھرنے کے حالات نے داخلی سطح پر ایک بحران کی سی کیفیت پیدا کر رکھی ہے اور ستم درستم یہ کہ حالات نہ صرف بدستور موجود ہیں بلکہ ختم ہونے کے آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے۔

خود پر ’’قاتلانہ حملے‘‘کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اب دوبارہ لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کر دیاگیاہے اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے قیادت فی الوقت نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی کے سپرد کر دی ہے اور اعلان کیا ہے کہ راولپنڈی پہنچنے پر لانگ مارچ کی قیادت وہ خود کریں گے۔ ان کی قیادت میں احتجاج اور دھرنا پنڈی میں ہوگا یا براستہ پنڈی وہ اسلام آباد جائیں گے اس بارے میں ان کے قریبی ساتھیوں کو بھی کچھ علم نہیں ہے ،اس سوال پر ان کا جواب’’فیصلہ عمران خان کریں گے‘‘ تک ہی محدود ہے۔ صرف اس سوال کے جواب میں ہی نہیں بلکہ ان کے قریبی ذرائع کے مطابق بعض تلخ اور مایوس کن معاملات کے حوالے سے ان کا اپنے اہم ساتھیوں سے بھی اعتماد اٹھ گیا ہے جس کا اظہار سوشل میڈیا پر ان کے حامی بلاگر بھی تواتر سے کر رہے ہیں۔

وہ اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری پرویز الٰہی کو ’’رانگ نمبر‘‘ قرار دیتے ہیں اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید پر بھی عدم ِاعتماد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں شیخ رشید نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں عمران خان کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ لانگ مارچ لیکر راولپنڈی ہرگز نہ آئیں بلکہ براہ ِراست اسلام آباد جائیں جسے درخور اعتنا نہ سمجھا گیا۔ پھر خود تحریک انصاف کے بعض راہنمائوں کے بارے میں بھی یہ بلاگر شدید تحفظات کا اظہار کرتےنظر آرہے ہیں۔

عمران خان مشاورت تو سب کے ساتھ کرتے ہیں اور ان سے تجاویز بھی لیتے ہیں لیکن حتمی فیصلہ ان کا اپنا ہوتا ہے اور کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کس ایشو پر وہ عین موقعہ پر کیا فیصلہ کریں گے، اسی لئے اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ راولپنڈی پہنچنے پر لانگ مارچ اور دھرنے کا رخ وہ کس طرف موڑیں گے۔ قومی اسمبلی کا رواں اجلاس جس کا آغاز ہی ایوان میں کورم پورا نہ ہونے سے شروع ہوا تھا وہی صورتحال اس وقت بھی جاری ہے، موجودہ سیشن کے تمام اجلاس کورم کے بغیر ہی جاری ہیں، اپوزیشن کے چند ارکان جس وقت چاہیں کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کر دیتے ہیں اور اجلاس ملتوی کرنا پڑتا ہے۔

اس لئے اجلاس جاری رکھنے کیلئے ان ارکان کی منت سماجت کی جاتی ہے اور یہ پیشکش بھی کی جاتی ہے کہ پوائنٹ آف آرڈر سمیت کارروائی کے دوران وہ جب اسپیکر سے بولنے کا وقت مانگیں گے انہیں دیا جائے گا۔ حکومت کے طلب کردہ اجلاس میں کورم پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور موجودہ صورتحال میں حکومت اس ذمہ داری میں ناکام ہوئی ہے ،وزراء کی ایوان سے غیر حاضری کے باعث حکومتی ارکان بھی ایوان میں اول تو آتےنہیں ہیں یا پھر اجلاس کے دوران گپ شپ اور حاضری لگا کر روانہ ہو جاتے ہیں۔

قومی اسمبلی کے متعلقہ ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کے ایک اجلاس میں ہونے والے تمام سیشنز پر ہونے والے مجموعی اخراجات کا تخمینہ چار کروڑ کے لگ بھگ ہوتا ہے، اس خطیر رقم کے عوض قومی اسمبلی کے ارکان کی کارکردگی اور دلچسپی قابلِ افسوس ہی دکھائی دیتی ہے اگرچہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کی ایوان میں حاضری اور کارکردگی قابل ستائش ہے۔ انہوں نے وزراء کی ایوان میں حاضری کو یقینی بنانے سمیت ایجنڈے کی کارروائی کو احسن طریقے سے چلانے کیلئے بھرپور کوششیں کیں، اس حوالے سے جارحانہ رولنگز بھی دیں لیکن انہیں اپنے مقصد میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی ،تاہم ان کی یہ کوششیں بدستور جاری ہیں۔

ایوان میں پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کی عدم موجودگی نے بھی قومی اسمبلی کے وقار اور اہمیت کو بہت نقصان پہنچایا ہے کیونکہ اپوزیشن کے بغیر ایوان کی کارروائی کا تصور ہی ادھورا ہے، اس بات پر اعتراض تو کیا جاتا ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی جس نشست پر خان عبدالولی خان، مولانا مفتی محمود، محترمہ بینظیر بھٹو، مولانا فضل الرحمان اور دیگر اہم شخصیات اپنا آئینی اور پارلیمانی کردار ادا کیا کرتے تھے وہاں ایک سیاسی منحرف تشریف فرما ہیں جن کی اجلاس میں حاضری بھی برائے نام ہے، لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اسمبلی سے اپنے ارکان کو مستعفی ہونے پر مجبور نہ کرتے تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔

اس بات کی تصدیق خود پی ٹی آئی کے ارکانِ قومی اسمبلی کرچکے ہیں کہ ارکان کی بڑی تعداد اسمبلی کی نشستوں سے مستعفی ہونے کے حق میں ہرگز نہیں تھی اور انہوں نے عمران خان کو اس بات پر قائل کرنے کی پوری کوشش کی تھی کہ ایک موثر اپوزیشن کا کردار ہم اسمبلی کے ایوان میں بیٹھ کر جس انداز میں کرسکتے ہیں وہ ایوان سے باہر نہیں کیا جاسکتا، لیکن عمران خان نے کسی کی بھی بات ماننے سے انکار کردیا اور وہ اپنی ضد اور انا میں اس حد تک آگے چلے گئے تھے کہ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی رکن نے بھی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ نہیں دیا تو میں پھر بھی استعفیٰ دوں گا ،جس پر ارکان مجبور ہوگئے تھے۔