کیا زمین نے اناج اُگانے سے انکار کردیا ہے

November 12, 2022

انسانی زندگی کے لئے تین احتیجات نہایت ضروری ہیں ،پہلی ہوا، دوسری پانی، تیسری خوراک ،اس کے بعد وہ چھت کی فکر کرتا ہے۔ ہوا ،پانی دستیاب ہو جاتا ہے، مگر خوراک کے لئے محنت یا قیمت درکار ہو تی ہے۔

اس وقت دنیا کی مجموعی آبادی آٹھ ارب نفوس سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ خوراک کی مجموعی پیداوار 2940ملین میٹرک ٹن ہے، جس میں چاول، گیہوں، کورن، جوار، باجرے، رائی وغیرہ شامل ہیں ،سبزیاں اور فروٹ الگ ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اس دنیا میں 198ممالک ہیں ،جہاں سبزیوں کے بعد گوشت خوراک کا اہم حصہ ہے،جب کہ گائے اور خنزیر کا گوشت زیادہ فروخت ہوتا ہے۔

16؍اکتوبر 2022ء کو خوراک کا عالمی دن پر خوراک کے ماہرین نے جو جائزہ رپورٹس اور اہم اعدادوشمار پیش کئے وہ دنیا کے لئے چشم کشا ہیں، سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ خوراک کی مجموعی مقدار کا چوتھائی کوڑے دان کی نذر کر دیتے ہیں جبکہ افریقی سب صحارا ممالک اور دیگر غریب ممالک کے غرباء رات کو بھوکے سوتے ہیں ۔سب صحارا میں ہر سال پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر سال پانچ سے سات ہزار بچے خوراک کی کمی کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ خوراک کے حالیہ جائزہ کے مطابق نائیجر، سیرالیون، لیتھوانیا، وسطی کانگر، صومالیہ، شام، افغانستان اور پاکستان خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔

پاکستان میں حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلاب سے تیار کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ ملک کے ایک تہائی حصہ پر اب بھی چار چارفٹ پانی کھڑا ہے ،ایسے میں دوسری فصل کی بوائی بھی خطرے میں ہے ، ملک میں اناج کی قلت ہے۔ علاوہ ازیں بیش ترممالک میں اناج کی قیمتیں بڑھتی اوراشیاء صرف عوام کی دسترس سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اناج کا جمع شدہ زخیرہ رواں سال میں ختم ہوجائے گا۔ نئی فصلیں اُگنے میں وقت لگے گا ،ایسے میں اناج کی قلت بڑھ جائے گی،جس سےملک میں مزید افراتفری پیدا ہو سکتی ہے،جبکہ غور فرمائیں سنگاپور سو برس قبل ایک چھوٹا دلدلی جزیرہ تھا وہاں کوئی آبادی نہ تھی، مچھروں ، حشرات الارض کی بہتات تھی۔

جزیرہ ویران تھا، مگر معروف ڈاکٹر لی اور ان کے چند رفقاء نے اپنی بصیرت اور محنت سے ایشیا کا سب سے اہم تجارتی مرکز بناکر اسی دلدلی جزیرہ کا دنیا میں نام کر دیا۔ پاکستان اناج کی پیداوار میں برصغیر میں مشہور رہا ہےلیکن اب صرف نعرے سنائی دیتے ہیں کہ ہم زرعی ملک ہیں، جبکہ اناج امپورٹ کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ محض نااہلی ہے۔ ملکوں کی ترقی میں افراد اور ماہرین کا درست انتخاب بہت ضروری ہوتا ہے، اگر سفارشی جعلی اسناد رکھنے والے سر پر مسلط کر دیئے جائیں گے تو وہ گھوڑے کو گاڑی کے پیچھے ہی باندھیں گے۔

پاکستان کی زمین زرخیز ہے۔ کاشتکار باصلاحیت محنتی ہیں۔ چار موسم ہیں پانچ دریا ہیں پھر بھی اناج امپورٹ کیا جاتا ہے، اس کو کیا عنوان دیا جائے، کیا یہ سراسر بدنظمی اور بدعنوانی نہیں ہے۔

اس وقت یمن میں سب سے زیادہ خوراک کا بحران ہے۔ شمالی اور جنوبی یمن میں جنگ وجدل اور لوٹ مار میں غذائی قلت میں اضافہ ہو رہا ہے، مزید ایک بڑا مسئلہ غذائی قلت کا سال رواں میں ابھر کر جوسامنے آیا وہ یوکرین سے گندم کی درآمد کا ہے۔ روسی یوکرین جنگ کی وجہ سے لاکھوں ملین ٹن گندم یوکرین میں پڑا ہے۔ بندرگاہ کریمیا پر روسی فوجوں کا قبضہ ہے۔

گندم کی فراہمی میں یوکرین اور روس سب سے بڑے ایکسپورٹر ہیں ۔یوکرین میں جنگ جاری ہے اور روس پر مغرب کی طرف سے تجارت پر پابندیاں ہیں، ایسے میں دنیا میں گندم کے دو بڑے ایجنٹ متاثر ہیں اور گندم کی قلت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افریقہ، مشرق وسطیٰ اور دیگر چھوٹے ممالک گندم کی قلت کا شکار ہو رہے ہیں ان حالات میں مہنگائی اور اسمگلنگ بہت بڑھ رہی ہے۔

نیو یارک ٹائمز کی ایک حالیہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ، دنیاکے آٹھ ہزار بڑے کلیسا اپنے طور پر غریب ممالک کو اناج فراہم کر رہے ہیں اوریہ آئے دن دنیا کے امیر طبقہ سے اپیل کرتے رہتے ہیں کہ،غریب افریقی اور دیگر ملکوں میں بچوں کی خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے میں مدد کریں۔

عالمی ادارہ خوراک کو شکوہ ہے کہ غریب ملکوں کی حکومتیں اور افسر شاہی امداد وصول کر لیتی ہیں، مگراس کی درست تقسیم کا ناقص بندوبست ہونے کی وجہ سے بدعنوانی کی نذر ہو جاتی ہے اور مستحق افراد تک پہنچ نہیں پاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے،بدعنوانی اور رشوت ستانی ہر ملک میں کسی نہ کسی سطح پر موجود ہے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ بدعنوانی اقوام متحدہ کےعالمی اداروں میں ہے، اس ضمن میں اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل بطرس برمس غامی نے شدید احتجاج کیا تھا اور اس کی مذمت کی تھی۔

خوراک کا عالمی ادارہ اس معاملہ میں زیادہ بدنام ہے۔ چین، بھارت اور مشرقی بعید کے ممالک میں چاول زیادہ کھایا جاتا ہے،بھارت میں مختلف خطوں کی موسمی تبدیلیوں کے مطابق چاولوں کی قسمیں پیدا ہوتی ہیں۔ چین اور جنوبی بھارت میں موٹا چاول زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ جنوبی بھارت کے بعض دُوردراز علاقوں میں غربت کا یہ عالم ہے کہ لوگ چاول آدھے پکنے کے بعد ان کا پانی نتھار لیتے ہیں وہ محض اس پانی کو پی کر اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں ،درحقیقت آبادی میں اضافہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ چین آبادی کی روک تھام میں ایک حد تک کامیاب ہو رہا ہے، مگر بھارت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔

سائنسدان اور ماہرین خوراک ایک عرصے سے حکومتوں پر زوردے رہے ہیں کہ آبادی میں اضافہ کیلئے مؤثر قوانین وضع کریں ،بصورت دیگردنیا کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، انسانیت کو ناتلافی نقصان پہنچ سکتا ہے، خصوصاً مسلم معاشروں میں آبادی کے اضافہ کو روکنے کاکوئی تصور نہیں ،بلکہ اس کو گنا ہ تصور کیا جاتا ہے، اس ضمن میں اٹلی کی حکومت کا ایک فیصلہ چشم کشا ہے۔ ایک پاکستانی فیملی کے آٹھ بچے ہیں اور وہ بے روزگاری الائونس کی بھاری رقم سے پرسکون زندگی گزار رہے ہیں ،مگراب اٹلی کی نئی وزیراعظم نے بے روزگاری الائونس بچوں کے حوالے سے ختم کردیا ہے، ایسے میں مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

اقوام متحدہ کے عالمی خوراک کے ادارے نے غریب ملک صومالیہ جہاں خوراک سب سے کم دستیاب ہے، اس وجہ سے بچوں کی اموات کا اوسط سب سے زیادہ ہے۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق، یہاں اناج اگانے کا کوئی مناسب طریقہ ڈھونڈا جائے مگر وہاں ہر طرف چھوٹی بڑی پہاڑیاں واقع ہیں، زیادہ پتھریلی زمین ہے ،ایسے میں کھیتی باڑی کرنا مشکل ٹاسک ہے پھر پانی کی شدید قلت ہے۔

جنوبی سوڈان اریٹیریا ،گھانا، وسطی افریقہ و دیگر ممالک میں زیادہ تر قبائلی تنازعات جاری ہیں۔ خشک سالی، پانی کی قلت اور قبائلی تنازعات نے افریقی عوام کے مسائل میں بہت اضافہ کردیا۔ افریقی محنتی لوگ ہیں ،ان کی دوستی اور دشمنی بہت گہری ہوتی ہے، اجنبی لوگوں پر اعتبار کم کرتے ہیں بلکہ ان سے اکثر شاکی رہتے ہیں۔ تحمل مزاجی کا کسی حد تک فقدان ہے۔ وہ اپنے قبیلہ کے پہلے وفادار ہوتے ہیں۔

پرانے دور میں محلوں، کوٹھیوں اور اہم جگہوں پر سیاہ فام غلام تعینات کئے جاتے تھے۔ وہ اپنے مالک کی غلامی اور اس کے حکم پر جان تک دیدیتے تھے۔ بیشتر ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ زندگی کی شروعات پہلے افریقہ سے ہوئی تھی پھر بیشتر قبیلے خوراک کی تلاش میں شمالی علاقوں میں آکر آباد ہوئے جن کی صدیوں میں رنگت میں فرق آیا۔

دنیا ساڑھے چار ارب سال سے قائم ہے اور کہا جاتا ہے کہ انسان کا وجود ساٹھ لاکھ سال کے لگ بھگ ہے مگر انسان محض شنگھائی سے ہندوستان، مصر اور عرب خطے کے علاوہ باقی دنیا کے بڑے حصے سے نابلد رہا۔ ہزاروں گیانی پنڈت، سیاح اوردانشور آئے مگر انہیں شمالی جنوبی امریکی، براعظم، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان دکھائی نہ دیئے جبکہ وہاں مقامی آبادیاں عظیم تہذیبیں اور بہت کچھ تھا۔کرسٹوفر کریمین جو اطالوی جہازراں تھا۔ 1492ء میں بحراوقیانوس عبورکرکے امریکہ پہنچ گیا ،حالانکہ وہ بحرہند جانا چاہتا تھا مگر اتفاق سے نئی دنیا دریافت کرلی ۔

اسی طرح ہالینڈ کےجہاز راں نے 1606میں آسٹریلیا دریافت کیا ،یہاں بھی مقامی آبادی آباد تھی ان کامکمل کلچر اور تہذیب تھی۔ دریائے نیل کی قدیم تہذیب، موہنجودڑو اور ہڑپہ کی قدیم تہذیبیں شاید ان سے بھی قدیم تہذیبیں رہی ہوں مگر ہم اپنی دنیا کے بارے میں پانچ سو سال قبل تک لاعلم رہے ہیں، اس کوتاہی، لاعلمی کو کیا عنون دیا جائے۔

آج وہ ملک جو پانچ سو برس قبل تک ہم سے متعارف نہ تھا، آج دنیا کا جدید ترین ملک اور سپر پاور ہے، مگر بھوک سب کوستاتی ہے گزشتہ دوسال سے امریکہ میں گندم کی قلت رہی ہے۔ امریکی حکومت نےکووڈ کی وجہ سے غذائی قلت سے نمٹنے کے لئے ستر ملین ڈالر کا گندم یوکرین سے خرید کر نسبتاً غریب ریاستوں کو دیا اور مزید گندم فراہم کر رہا ہے۔

حال ہی میں اقوام متحدہ کی کوششوں سے خوراک کی بڑی سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کا ایک ’’گلوبل الائنس‘‘ قائم کیاگیا ہے۔ اس اتحاد کا بنیادی کام خوراک کی پیداوار، خوراک کی کمی یا فراہمی میں رکاوٹ اور اناج کی قیمتوں پر نظررکھنا ہے۔ اس تنظیم کی حالیہ رپورٹ کے مطابق افریقہ کے غریب ممالک مقامی سبزی کامساوا، کااستعمال زیادہ کرتے ہیں جو ہلکے گلابی رنگت کی چھوٹے شلغم جیسی ہوتی ہے وہ اس کو اُبال کر پیس لیتے ہیں اور اس کوکھا کر اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔ اس کو ایک طرح کی جنگلی سبزی بھی کہا جاتا ہے جو جنگل ہی میں اُگتی ہے۔اس کے باوجود افریقہ اور باقی دنیا کے آٹھ سو تیس ملین افراد کو رات کا کھانا نصیب نہیں ہوتا، یہاں تک کہ وہ کامساوا کو بھی ترستے ہیں باقی اناج کا تو سوچنا بھی محال ہے۔

انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی بھوک اس کے ساتھ لگی ہوئی ہے اس لئے ہر مذہب میں رزق کا احترام کرنے، اس کو اہمیت دینے کا کہا گیا ہے۔ بھوک میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ غربت اور تنگدستی ہے۔ آبادی میں اضافہ جاری ہے جبکہ اناج کی پیداوار میں بیش تر رکاوٹیں حائل ہیں ایسے میں مہنگائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ،پھر اس پر ستم یہ کہ اب قدرتی ماحول اور موسمی تبدیلیاں بڑے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ ایسے میں عالمی خوراک کا نظام درہم برہم ہوتا جا رہا ہے۔ سبزیوں میں پوری دنیا میں آلو کا استعمال سب سے زیادہ ہے جبکہ آلو کاآبائی وطن میکسیکو اور جنوبی امریکہ ہے وہاں دریافت ہوا تھا اوران خطوں میں بھی آلو بہت مہنگاہوتا جا رہا ہے۔

ماہرین ماحولیات اور ماہرین خوراک کاکہنا ہے کہ، آئندہ سال دنیا کو بعض نئے مسائل کا بھی سامنا کر نا پڑ سکتا ہے،اس لئے2023ء کو ایک مشکل سال تصور کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے پنڈت گیانی طرح طرح کی اٹکلیں لگا رہے ہیں۔ بعض نے اس ضمن میں پوجاپاٹ پر زور دینا شروع کر دیا ہے، تاکہ ان کی آمدنی میں اضافہ ہوسکے۔

درحقیقت روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے خوراک کی صورت حال خراب ہوتی جا رہی ہے۔ روس اور یوکرین گندم پوری دنیا کو فراہم کرتے ہیں۔ یوکرین پر روس کا محاصرہ قائم ہے جبکہ روس پر امریکہ کی طرف سے تجارتی پابند یاں عائد ہیں اس طرح کی بے مقصد جنگ اور پابندیوں نے دنیا میں خوراک کے مسائل میں اضافہ کردیا ہے، نہ جانے کتنے ملین لوگ مزید بھوک سے بلبلاتے رہیں گے۔ خدشہ ہے کہ اب ڈھائی کروڑ سے زائد افراد رات بھوکے سوتے ہیں جاری حالات میں اس تعداد میں مزید اضافہ کاخدشہ ہے۔

بھوک بیشتر جرائم کی ماں ہے اگر سب کو روٹی میسر ہو جائے تو شاہد دنیا میں جرائم کم ہو جائیں۔

واضح رہے کہ انقلاب فرانس کی شروعات بھوک سے بلکتے بچے کی ایک بیکری سے ڈبل روٹی چرانے سے ہوئی ،جس کو بیکری کے مالک نے اتنا ماراکہ وہ جاں بحق ہو گیا،اس کے بعد پیرس میں فساد پھوٹ پڑے، سینکڑوں ہلاک اور زخمی ہوئے۔ فوج نے حالات پر قابو توپالیا مگر یہ لاوا پکتا رہا ،پھر چند برس بعد انقلاب کامیاب ہوا۔ اس انقلاب کی پہلی اینٹ دو دن کے بھوک سے بلکتے بچہ نے رکھی تھی۔ بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور چاولوں کے لالچی سوداگروں نے مصنوعی قحط برپا کرکے ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد کو بھوک سےتڑپاتے ہلاک کردیا ،کیونکہ بنگال میں رکھا سارا چاول جاپان کو اسمگل کرکے اپنی تجوریاں بھری تھیں۔

سچ یہ ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے سب سے زیادہ ظلم بنگال کے ساتھ کیا۔ خوراک کی فراہمی اور سماجی بہبود کے حوالے سے دنیا میں اقوام متحدہ کا ادارہ عالمی خوراک ڈبلیو ایف پی سے بڑے پیمانے پرکام کر رہا ہے۔ مثلاً ایک سو بیس ممالک میں ایک سوتیس ملین افراد کوخوراک فراہم کرتا ہے۔ ہر روز ساڑھے پانچ ہز ارٹرک، تیس بحری جہاز اور ایک سو طیارے دنیا کے دشوار گزار غریب ممالک اور خطوں میں اناج پہنچاتے ہیں۔ ڈبلیو ایف پی 15.5اسکول کے بچوں کو خوراک فراہم کرتا ہے ،جن میں ستر سے زائد ممالک کے اسکول کے بچے شامل ہیں۔

2021ء میں ادارہ عالمی خوراک کو مختلف ممالک اور اداروں کی جانب سے 9.8 ملین ڈالر چندہ اور امداد وصول ہوئی تھی۔ مخیراداروں کو ادارہ عالمی خوراک کی انتظامیہ اور ادارہ کے ہر طرف پھیلے ہوئے رضاکاروں کی ٹیموں پر اعتبار اور اعتماد ہے ،وہ بہتر انداز میں اپنی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ 2021ء میں عالمی ادارہ خوراک نے ستائیس ممالک کے غریب کاشتکاروں کو کھاد بیج وغیرہ کی مدد کیلئے باون ملین ڈالر سے زائدکی امداد کی ۔ 2021ء ہی میں ادارہ عالمی خوراک نے ساٹھ ہزار ہیکٹر زمین کو قابل کاشت بنانے کیلئے اٹھائیس ممالک میں غریب کاشتکاروں کی مددکی اور انہیں ضروری سہولیات فراہم کیں۔

درحقیقت اقوام متحدہ ادارہ عالمی خوراک یا ڈبلیو ایف پی سب سے بڑا مخیر ادارہ ہے جو ناقابل کاشت زمین کو قابل کاشت بنانے، غریب تر ممالک میں اناج تقسیم کرتا اور کاشتکاروں کو بیج کھاد اور ضروری سہولتیں، معلومات فراہم کرتا ہے۔ ادارہ کا بنیادی مقصد اناج کی پیداوار میں اضافہ کرنا اور خوراک کی کمی کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ ان تمام امدادی فلاحی امور کی تکمیل کے لئے ادارہ سالانہ دو ارب چالیس کروڑ ڈالر سالانہ خرچ کرتا ہے۔

امریکہ یورپ اور دیگر ممالک کے اہم فلاحی ادارے عالمی ادارہ کی ہر طرح مدد کرتے ہیں۔ زیادہ تر فلاحی ادارے مغربی ممالک میں واقع ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ یہ ادارے بلالحاظ نسل مذہب زبان اورخطے کے انسانی امداد کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو اتنے ممالک کے غرباء کی مد د کرنا ممکن نہ تھا۔

جس طرح انسانی زندگی کے لئے ہوا پانی انتہائی ضروری ہے اسی طرح خوراک بھی زندگی کے لئے انتہائی اہم ہے۔ دنیا کی ہر ذی روح مخلوق کسی نہ کسی ذریعے سے خوراک حاصل کر تی اور اپنی بقاء کا سامان کرتی ہے۔ دنیا میں جو چہل پہل، مسابقت، حرکت اور روشنی ہے یہ سب کی سب خوراک کی پیداوار، خوراک کے استعمال اور زندگی برقرار رکھنے کے لئے ہی یے ،اگر انسان کو بھوک مٹانے کی حاجت نہ ہوتی تو پھرکسی خوراک کی بھی حاجت نہ ہوتی، شاید ایسے ہی دنیا ساکت جامت اور بے رونق ہوتی یعنی ایک طرح سے انسان روبوٹ ہوتا۔ اور اگر بھوک نہ ہوتی تو شاید دنیا میں اتنی جنگیں ،خون خرابہ اور تنازعات بھی نہ ہوتے، ہر طرف امن سکون ہوتا ،میل ملاپ نہ ہوتا، بے رُخی ہوتی، اپنا پن نہ ہوتا، کسی کو کسی سے غرض نہ ہوتی، انسان صرف اور صرف اپنے آپ میں کھویا ہوتا ،کوئی فکر لاحق نہ ہوتی، بھوک کے بغیر اس طرح کی دنیا ہوتی تو کیا ہوتا، مگر دنیا کا درحقیقت مسلہ ہی بھوک ہے صرف بھوک۔ ایک بھوک پیٹ کی ہوتی ہے جس کو دورکرنے کے لئے خوراک درکار ہوتی ہے ،کچھ علامتی بھوک بھی ہوتی ہے۔ مثلاً دولت کی بھوک، طاقت کی بھوک، اقتدارکی بھوک، جنسی بھوک اور نام ونمود شہرت کی بھوک۔

پیٹ کی بھوک دراصل معدے کے خلیئے ہارمون سگنل دیتے ہیں کہ جسم کو خوراک کی ضرورت ہے یہ معدے کے سگنل بھوک کے ہوتے ہیں اور فرد کو کچھ کھانے کی طلب ہوتی ہے۔ معدے کو جب غذا میسر آتی ہے تو طلب معدوم ہو جاتی ہے۔ ایک طرح کی طمانیت محسوس ہوتی ہے ہم مطمئن ہو جاتے ہیں کہ بھوک ختم ، کھانا کھالیا۔

یونیسیف کے حالیہ جائزے میں شمالی افریقی ممالک جو سب صحارا کا خطہ بھی ہے اس کو سب سے مخدوش خطہ قراردیا ہے۔ وہاں لوگ اپنی کم سن بچیوں کو خوراک کے عوض زیادہ عمر کے افراد کے حوالے کر رہے ہیں۔ شمالی افریقہ کا چالیس فیصد خطہ سترسال سے زائد عرصہ سے خشک سالی کا شکار ہے چھتیس ملین افراد کم تر خوراک پر زندہ ہیں۔ ادارہ عالمی خوراک اس خطہ پر ہر چند بہت توجہ دے رہا ہے مگر خوراک، پانی میسر نہیں، ایسے میں وہاں گونا گوں مسائل جنم لے رہے ہیں۔

مجموعی طور پر دنیا میں پینے کے صاف پانی اور خوراک کی کمی کا مسئلہ بڑا گھمبیر مسئلہ بن کر ابھرتا جا رہا ہے۔

بھوک نے چوہے، ہڈیاں اور جلد کھانے پر مجبور کردیا

شدید بھوک ،غذا اور غذائیت کی کمی دنیا کے کئی حصوں میں روز مرہ کا چیلنج ہے اور اس کا پیمانہ واقعی بہت بڑا ہے۔ ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے نے دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے چار لوگوں سے بات کی جنہوں نے شدید بھوک کا تجربہ کیا اور ان سے پوچھا کہ وہ کیسے زندہ بچ گئے۔ جنوبی انڈیا سے تعلق رکھنے والی رانی کہتی ہیں ،میں بچپن سے ہی چوہے کھاتی رہی ہوں اور مجھے کبھی صحت کا کوئی مسئلہ نہیں ہوا ۔میں اپنی 2 برس کی پوتی کو چوہے کھلاتی ہوں۔

ارولاکے عوام دھان کے کھیتوں میں پائے جانے والے چوہوں کی ایک خاص قسم کھاتے ہیں جو عام طور پر گھروں میں پائے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ صومالیہ کو تباہ کن قحط سالی کا سامنا ہے اور ملک میں 40 سال کی بد ترین خشک سالی نے پہلے ہی دس لاکھ سے زائد افراد کو بے گھر کردیا ہے۔سائوپائو لو کی لنڈنالو اماریا قصابوں کی طرف سےضائع کی گئی ہڈیاں اور جلد کھارہی ہیں۔