معاشی عدم استحکام: بروقت مشکل فیصلوں کی ضرورت

November 17, 2022

پاکستان میںہر باشعور شہری ایک دوسرے سے یہ سوال کرتے نظر آرہا ہے کہ کیا پاکستان حالیہ سیاسی بھنور سے نکل پائے گا؟ نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعد کیا اسٹیبلشمنٹنیوٹرل رہ پائے گی ؟ ریاست کے دیگر ستون اسٹیبلشمنٹکے نیوٹرل ہونے کے بعد قانون کے بالا دستی کیلئے اپنا کردار ادا کر سکیں گے ؟ سیاست دان پارلیمنٹ کو مقدم بنانے کے سلسلے میں متحرک ہوں گے یا ماضی کی طرح متنازعہ رہیں گے ؟ یہ بھی سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا عمران خان نئے آرمی چیف کی تقرری تسلیم کر لیںگے ؟ وقت پرانتخابات اورنگران وزیر اعظم کی تقرری کے سلسلے میںیکسو ہوں گے؟ یا’’ مجھے اعتراض ہے‘‘ پر ڈٹے رہیں گے ؟

سیاسی حلقوںکا کہنا ہےکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین سابق وزیر اعظم عمرانخان کا لانگ مارچ کچھوے کی رفتار سے چلتے بل آخر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں داخل ہو ہی جائے گا مگر ابھی تک نہ تو اسلام آباد کی انتظامیہ نے این او سی دیا ہے اور نہ ہی کسی عدالت نے انہیںداخلے کی اجازت دینے کی ہدایت کی ہے۔ سیاسی حلقوںکا کہناہے کہ 20 نومبر کے بعد ملک میںسیاسی استحکام کے روشن امکانات ہیں، بعضذرائع اس خوش فہمی کا شکار ہیںکہ بظاہر ضدی نظر آنے والے’’ عمران خان ‘‘ باشعور سیاست دان کی طرح قانون کی بالا دستی کو تسلیم کرتے ہوئے آئین کے مطابق چلنے کی کوشش کریں گے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخابات میںنا قابلِ یقین کامیابی کے بعد عمران خان کو یقین ہو گیا ہے کہ اگر صحیح معنوںمیں اسٹیبلشمنٹنے واقعی سیاسی مداخلت سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے تو مستقبل پی ٹی آئی کا ہے جس کی بنیاد پر انہوںنے اپنے بیانیے پر نظر ثانی کرتے ہوئے امریکہ کے خلاف اپنے موقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے مستقبل میںساتھ چلنے کےعزم کا عندیہ دے دیا ہے جبکہ دوسری طرف عمران خان آرمی چیف کی تعیناتی پرشہباز شریف کی نواز شریف سے مشاورت کو مفرور سے مشورہ قرار دیتے ہوئے اسے سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کہتے ہیںاور اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔

عمران خان کا کہنا ہے کہ پوری قوم سپریم کورٹکی طرف دیکھ رہی ہے، اداروں کو تباہ کرنے والے کسی طرح بھی ملکی معیشت بہتر نہیںکر سکتے،نیشنل سیکورٹی کے اہم عہدے کا فیصلہ لندن میںہورہا ہے ،مجھ پر تقرری متنازعہ بنانے کے الزامات لگائے جار ہے ہیںحالانکہ میںچاہتا ہوں کہ آرمی چیف میرٹ پر تعینات ہوں ، تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر کو اپنی چھڑی نامزد آرمی چیف کے سپر د کر دیں گے ، آرمی چیف کون ہو گا؟ شنید ہے کہ اس کا باضابطہ فیصلہ ہو چکا ہے، اعلان وزیر اعظم شہباز شریف وزارت دفاع سے سمری ملنے کے بعد خود کریں گے جبکہ نواز شریف سے مشاورت سے متعلق سوال پر وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کہہ چکے ہیںکہ ابھی تک مشاورت نہیں ہوئی، یوں تو نہ صرف وفاقی دارالحکومت بلکہ ملک کے دوسرے شہروںمیں بھی موسم سرد ہو گیا مگر بدقسمتی سے سیاسی حالات میں گرمی موجود ہے اور بیک ڈور مذاکرات میںبظاہر کامیابی نظر نہیںآ رہی۔

وفاقی دارالحکومت میں31 دسمبر 2022 کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں، کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال آخری مرحلے میںہے۔ یوں تو نواز شریف سے لندن جا کر ملاقاتیں کی جارہی ہیں، مریم نواز بھی اپنے باپ کی ہر ملاقات کا حصہ بنتی ہیںمگر نواز شریف کا علاج مکمل ہونے کی اطلاع کی تصدیق نہیںہو پا رہی، نوازشریف جو ماضی میں وزیرا عظم کی حیثیت سے پانچ آرمی چیفس کا تقرر کر چکے ہیںاگر شہباز شریف نے ان سے نئے آرمی چیف کی تقرری کے سلسلے میں مشورہ کر لیا ہے تو اسے جرم نہیںسمجھا جانا چاہیے ،ان کے تجربات سے مستفید ہوکر مستقبل کیلئے اچھا فیصلہ کر لینے میںکوئی حرج نہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف دسمبر کے تیسرے ہفتے میں پاکستان مسلم لیگ (ن)کےقائد میاں محمد نواز شریف کی وطن واپسی کا عندیہ دے رہے ہیں،ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نواز شریف خود اپنی وطن واپسی کا باقاعدہ اعلان کریں گے ، پاکستان کی اتحادی حکومت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو سفارتی پاسپورٹتو جاری کر دیا ہے مگر انہیں اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے اشتہاری قرار دیئے جانے کے فیصلے کے خلاف اپیل یا حفاظتی ضمانت کا عمل شروع نہیںکیا گیا، پارلیمنٹہاوس میںقومی اسمبلی کے اجلاس کے باوجود عملاًاپوزیشن تو موجود نہیں مگر وزیروں کا وطیرہ بھی قابل ستائش نہیں، قومی اسمبلی کے ایوان کی پہلی صف اجلاس کے دوران عموماًخالی ہی رہتی ہے اور ایوان میں بھی اکثر گنے چنے ممبر قومی اسمبلی موجود ہوتے ہیں، سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سیاست دانوںکو اپنے کہے پر شرمندگی نہیں ہوتی، حقائق کو اپنی مرضی سے توڑ و مروڑکر پیش کرنے کا جو فن پاکستانی سیاست دانوںکو آتا ہے اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے، الیکٹرانک میڈیا پر حقائق دیکھائے جانے کے باوجود سیاست دانوں کو کوئی جھجک نہیں ہوتی، حکومت اور اے ٹی آئی کے تنازعہ میں عوام بدستور بلکہ پہلے سے زیادہ مہنگائی کی چکی میںپس رہے ہیںجس کی باقاعدہ تصدیق سرکاری طور پر جاری کئے گئے عدادو شمار سے ہوتی ہے۔

اتحادی حکومت پانچ ،چھ ارب کے قرضے حاصل کر چکی ہے مگر معیشت کنٹرول نہیں ہوپارہی، ڈالر یوں تو 220 روپے کا نظر آتا ہے مگر کھلی مارکیٹمیںعملاً250 روپےکا ہے ، آئی ایم ایف کا دبائو موجود ہے جسکا موقف ہے کہ پٹرول پر مزید ٹیکس لگائیں، یوٹیلیٹی سٹورز میں سبسڈی کم کریں، یوں تو درآمدات کم رہیں مگر برآمدات بھی ہدف کے مطابق پوری نہ ہو سکیں۔ بعضسیاسی حلقے یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیںکہ پاکستان پیپلزپارٹی پی ڈی ایم میںشامل نہیںصر ف اتحادی حکومت میںشامل ہے اگر ’’لاڈلہ اب بھی لاڈلہ‘‘ ہے تو اتحادی حکومت کا اللہ ہی والی ہے، اسے گھر بھیجنے کیلئے زیادہ تگو و دو کی ضرورت نہیں۔

سیاسی حلقے ملک میں پر تشدد رحجانات کی حوصلہ شکنی کو ضروری سمجھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پوری سیاسی قیادت کو بلا تفریق تشدد کے خلاف نہ صرف کھل کر بولنا چاہیے بلکہ جارحانہ انداز اور موقف رکھنے والے کارکنوں کی سرزنش سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت نے اس ضمن میں اپنا کردار ادا نہ کیا تو نہ صرف قوم سیاسی طور پر ایک دوسرے کی دشمن بن جائے گی بلکہ ایک دوسرے کو دیکھنے کی بھی روادار نہ رہے گی اور ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت برپا ہو جائے گی۔ چاروں صوبوں اور وفاق کے زیر انتظام سیکیورٹی اداروں کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑے کرنے کے رحجان کی بھی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے ، صوبائی حکومتوں کو اس پر زیادہ توجہ دینے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ سیاسی قیادت کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پر تشدد رحجانات کا سب سے زیادہ انہیں ہی سامنا کرنا پڑے گا۔