اللہ کا ذکر اور اعترافِ بندگی

November 25, 2022

ڈاکٹر سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری

انسانی بدن میں دل ایک ایسا عضو ہے، جس کی تمام اعضاء پر حکمرانی ہے۔دل کی چاہت کے بغیر نہ تو زبان بولے گی، نہ ہاتھ پاؤں حرکت کریں گے، نہ آنکھیں دیکھیں گی، نہ کان سنیں گے اور نہ ہی دماغ سوچے گا۔ پتا چلا کہ سارا دارومدار دل پر ہی ہے، لہٰذا علاج بھی سب سے پہلے دل کاہی کرنا ہوگا۔

صحیح بخاری میں رسول اکرم ﷺکا ارشاد گرامی ہے کہ ’’بلاشبہ جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے، اگر وہ اچھارہے تو سارا وجود اچھا رہے گااور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا وجود بگڑجائے گا، خبردار وہ دل ہے‘‘۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ نفس انسانی کی اصلاح کا مداردل کی اصلاح پر ہے تو یہاں سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس کی اصلاح کیسے ہوگی ؟ تو اسے حل کرنے کےلیےاللہ تعالیٰ نے سورۃ الرعد آیت ۲۸ میں واضح طور پر ارشاد فرما دیا ہے کہ ’’یاد رکھو !اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘۔

اس آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے ذکر کو دلوں کے و سکون و اطمینان کا باعث بتایا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دل کا سکون کون نہیں چاہتا؟ ہر انسان کی یہ چاہت رہی ہے کہ مجھے دل کا چین اور اطمینان مل جائے۔ اس اطمینان کو انسان نے جگہ جگہ تلاش کیا، کسی نے مختلف رسالوں اور کتابوں کے پڑھنے میں سکون پایا۔ کسی نے سیر وتفریح کے مقامات میں جاکر اطمینان پایا۔ کسی نے باغات میں گھوم پھر کر اور پھولوں کے رنگ وبو میں سکون تلاش کیا۔

کسی نے کھیل کود اور جدید تفریحی آلات کے ذریعے سکون واطمینان پانے کی کوشش کی، لیکن انسان نے خود سے جتنے بھی راستے سکون حاصل کرنے کے لیے تلاش کیے، ان میں کسی راستے میں وقت برباد ہوا، کہیں پیسہ ضائع ہوا، کہیں ایمان و اخلاق کی خرابی پیدا ہوگئی اور کہیں صحت بھی چلی گئی۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ان چیزوں میں بھی وقتی طور پر سکون ملتا ہے، لیکن جس خالق کائنات نے انسان کو تخلیق فرمایا ہے، اس نے اصلی اور دائمی سکون اپنی یاد میں رکھا ہےاور یہ وہ نعمت ہے جسے دولت سے نہیں خریدا جاسکتا۔ اس نعمت کو حاصل کرنے کا واحد راستہ اور آسان طریقہ اللہ سے تعلق قائم کرنا او راس کی یاد دل میں بسا لینا ہے اور یہ نسخہ ایک قطعی اور یقینی نسخہ ہے۔ پھرخواہ وہ یاد قرآن کریم کی آیات کی تلاوت اور ان میں تدبر کے ذریعے ہو یا نمازوں کی ادائیگی کے ذریعے یاذکر اذکار، تسبیحات، درودشریف اور استغفار کے اہتمام کے ذریعے یا کائنات میں قدرت کے پھیلے نظاروں میں غور و فکر کے ذریعے یا خلق خدا کی خدمت سے ہو۔

اطمینان قلب ایک بہت بڑی نعمت ہے ،اسے دولت سے نہیں خریدا جا سکتا۔ مادیت پرستی کی دوڑ میں انسان سکون کے لیے بے قرار ہے۔ اس نعمت کو حاصل کرنے کا آسان طریقہ اللہ سے تعلق قائم کرنا اور اس کی یاد دل میں بسا لینا ہے۔ چنانچہ رسول اکرمﷺ کو جب کبھی پریشانی آتی تو آپ ﷺ نماز میں مشغول ہو جاتے۔

تیز آندھی آتی تو آپ ﷺنماز کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ آپﷺ کسی قسم کی تنگی اور پریشانی میں نماز ادا کرنے کاحکم فرمایا کرتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے:’’آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کرتے رہیے اور اس کی پابندی فرماتے رہیے، ہم آپ سے رزق کا مطالبہ کرنا نہیں چاہتے‘‘۔ رزق دینے والا اللہ ہے اور اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ آپﷺ نے اپنی سیرت طیبہ کے ذریعے یہ تعلیم دی کہ انسان اللہ سے غافل ہو کر دنیا کی دولت میں کبھی اطمینان و سکون نہیں پا سکتا۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں ’’ اگر آدمی کے پاس دو وادیاں مال کی بھری ہوئی ہوں تو وہ چاہے گا کہ میرے پاس تیسری وادی بھی مال سے بھری ہوئی ہو اور ابن آدم کا پیٹ تو صرف قبر کی مٹی بھر سکتی ہے‘‘۔

اور پھر فرمایا کہ’’ جو لوگ اپنا رخ اللہ کی طرف کر لیں تو ان پر اللہ کی خاص عنایت ہوتی ہے اور انہیں اللہ اس دنیا میں اطمینان قلب عطا فرما دیتا ہے ،پھر اس دنیا میں ان کی زندگی بڑے مزے کی اور بڑے سکون سے گزرتی ہے‘‘۔رسول اکرم ﷺنے ہمیں اپنی سیرت مبارکہ سے یہ سمجھایا کہ دل کا چین اور اطمینان قناعت سے حاصل ہوتا ہے۔ حرص اور لالچ سے کبھی سکون حاصل نہیں ہوتا۔ آپﷺ نے زندگی کے ہر مرحلے میں یہ تعلیم دی کہ دنیا کے سازوسامان اور اس کی دولت میں سکون تلاش کرنا بے فائدہ ہے۔ قرآن و سنت اور رسول اللہ ﷺ کی سیرت ِ پاک سے پتا چلتا ہے کہ اطمینان قلب اورحقیقی سکون کا سرچشمہ درحقیقت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات پر عمل، اللہ تعالیٰ کے ذکر، اللہ کی بندگی اور اس کے قرب میں مضمر ہے۔