ایک زندگی یہ بھی ہے!

December 02, 2022

میرا وی آئی پی دوست ایئر پورٹ پر نہیں جہاز کی سیڑھیوں کے پاس میرے استقبال کے لئے موجود تھا، عام مسافر ایک ایک کرکے پی آئی اے کی بس میں سوار ہونے لگے، میرے دوست نے ذرا فاصلے پر کھڑی اپنی لیموزین کی طرف اشارہ کیا ۔کار کے قریب پہنچ کرمیں نے ہاتھ دروازے کی طرف بڑھایا ہی تھا کہ باوردی ڈرائیور دوڑا ہوامیرے پاس آیا ،خاصا خوش اخلاق آدمی تھا مجھ سے ہاتھ ملانا چاہتا تھا مگر میرے ہاتھ بڑھانے پر اس نے جس طرح کھسیانا سا ہو کر مجھ سے مصافحہ کرتے ہی کار کا دروازہ جس برق رفتاری سے کھولااس سے مجھے اندازہ ہوا کہ صاحب کے دوست سے ہاتھ ملانے کی گستاخی وہ نہیں کر سکتا تھا بلکہ وہ بچارا تو صرف دروازہ کھولنے کے لئے میری طرف اندھا دھند بڑھا تھا۔

’’دفتر چلو، میرے دوست نے شوفر کو حکم دیا‘‘۔

شوفر نے کچھ کہے بغیر روبوٹ کی طرح سر ہلایا اور گاڑی دفتر کے راستے پر ڈال دی۔ راستے میں ٹریفک پولیس گاڑیاں روک کر کاغذات چیک کر رہی تھی ۔ڈرائیور نے گاڑی روکی تو سارجنٹ نے کھڑکی کے پاس جھک کر ڈرائیور سے کاغذات طلب کئے اس کے جواب میں ڈرائیور نے کاغذات دکھانے کی بجائے پچھلی سیٹ پر بیٹھے اپنے صاحب کی طرف اشارہ کرکے ان کا تعارف کرایا۔ سارجنٹ نے ایک نظر پچھلی سیٹ پر ڈالی اور بڑبڑا کر ’’سوری سر‘‘ کہنے کے بعد پیچھے ہٹ گیا۔دفتر سے ملحقہ کمرے میں سائلوں کا ایک ہجوم تھا ان میں خواتین بھی تھیں اور مرد بھی تھے۔ میرے دوست نے چٹوں پر لکھے ہوئے نام اور وزیٹرز کارڈ کی ڈھیری میں سے ایک چٹ اٹھائی اور چپراسی سے کہا، ’’انہیں بلائو!‘‘ تھوڑی دیر بعد دو خواتین اپنی موجودگی کا پوری طرح احساس دلاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئیں۔یہ ایک ممتاز گھرانے کی صاحبزادیاں تھیں جب وہ کمرے سے چلی گئیں تو میں نے حیرت سے اپنے دوست سے کہا، ’’میں انہیں جانتا ہوں مگر یقین نہیں آتا یہ وہی ہیں۔ ‘‘ دوست کے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ ابھری اور اس نے کہا، ’’میں زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں اور یقین کرو یہ وہی ہیں ۔‘‘

دوپہر کو کھانے کے لئے پچھلے دروازے سے دفتر سے نکلے تو دس بارہ چپراسی اپنی جگہ مؤدب کھڑے ہو گئے۔صاحب کا بوجھ کیسے ہلکا کریں صاحب سے مایوس ہو کر چپراسیوں نے مجھے امید بھری نظروں سے دیکھا۔ میرے ہاتھ میں ایک کتاب دیکھ کر ان کی آنکھوں میں چمک آ گئی ان میں سے دو چپراسی میری طرف دیوانہ وار لپکے اور ان میں سے ایک نے میرے ’’نہ نہ ‘‘ کہنے کے باوجود کتاب میرے ہاتھ سے لے لی ۔ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ رکھی ہوئی تھی ہمیں آتا دیکھ کر وہ پھرتی سے کار میں سے باہر نکلا اور پوری کار کے گرد گھوم کر بایاں دروازہ کھول کر کھڑا ہو گیا ۔بریف کیس والے چپراسی نے اپنی رفتار تیز کر دی اور آگے بڑھ کر دوسرا دروازہ اس نے کھول دیا۔

سنو،میرے دوست نے منمناتے ہوئے کہا۔

اس پر تینوں اس تیزی سے اپنے صاحب کی طرف بڑھے کہ آپس میں ٹکراتے ٹکراتے بچے۔

میں واپس دفتر نہیں آئوں گا ،میرے دوست کی منمناہٹ سنائی دی۔ ٹھیک ہے سر!

کار میں بیٹھنے کے بعد میں نے دروازہ بند کرنے کیلئے ہینڈل کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر مجھے یہ زحمت نہ اٹھانا پڑی، دروازہ اس سے پہلے ہی بند کر دیا گیا تھا۔

صاحب کی کار کا ہارن سن کر ملازمین کوٹھی کا دروازہ کھولنے کے لئے اس طرح دوڑے جیسے یہ ساتواں در تھا جس کے کھلتے ہی ان کے نصیب جاگ اٹھیں گے ۔ایک لمبی ڈرائیو کے بعد کار پورچ میں آکر رُکی تو ڈرائیور ایک دفعہ پھر برق رفتاری سے باہر نکلا اور کار کے گرد گھوم کر بائیں دروازے تک پہنچا ایک ملازم نے دایاں دروازہ کھولا اور یوں ہم دونوں باہر آگئے ۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ان عزت کرنے و الوں کی بہتات سے میرے اندر کوئی کمی واقع ہو رہی ہے۔

ملازموں کی خدمت طلب نظروں سے لگتا تھا کہ انہیں ہمارا کمرے تک پیدل جانا اچھا نہیں لگ رہا چنانچہ ان کا بس چلے تو ہمیں کاندھوں پر اٹھا کر اندر کرسیوں تک چھوڑ آئیں تاہم اس کی نوبت نہیں آئی۔

’’تم جب ریٹائر ہوئے تو اس وقت کیا تھے؟‘‘ دوست نے اچانک بے موقع سا سوال پوچھا ۔میں اس وقت کالج میں پڑھاتا تھا ۔

اس کے ساتھ ہی اس نے سب ملازموں کو کمرے سے نکل جانے کا حکم دیا ۔

’’تم نے اچانک انہیں کمرے سے جانے کے لئے کیوں کہا ؟‘‘میں نے پوچھا۔’’یہی لیکچررشپ والی بات جو تم نے ان کے سامنے کر دی ہے ۔‘‘

’’تو اس میں کیا حرج ہے ؟حرج تو کوئی نہیں۔‘‘ اس نے کہا،’’ مگر اس سے ان خدمت گزاروں کے جذبات یہ سوچ کر مجروح ہوئے ہوں گے کہ اتنی دیر سے جس شخص کی وہ ناز برداریاں کر رہےتھے وہ بچاراماشٹرہے ۔‘‘اور اس کے ساتھ ہی دوست نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’میں تو تمہیں بیسیوں دفعہ دھنک کی نوکری کی پیشکش کر چکا ہوں مگر تمہارے دماغ سے خوئے سلطانی ہی نہیں جاتی۔‘‘

کھانے کے بعد دوست مجھے گیسٹ روم میں لےآیا گھر میں آج کوئی بھی نہیں ہے لہٰذا تم ایزی ہو جائو تم کچھ دیر آرام کرو میں اتنی دیر میں کچھ کام کرلیتا ہوں۔

چار بجے کے قریب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا میرے جوتے آئینے کی طرح چمک رہے تھے اور جو سوٹ میں نے اتارا تھا وہ استری شدہ پڑا تھا ملازم نے ہولے سے دروازہ کھولا اور جھانک کر اندر دیکھا میری نیند کے دوران وہ شاید کتنی ہی دفعہ اس طرح جھانک کر گیا تھا کہ ممکن ہے کہ صاحب جاگ گئے ہوں اور انہیں بلانے کےلئے آواز نہ دینا پڑے۔ مجھے جاگتا دیکھ کر وہ الٹے پائوں مڑا اور تھوڑی دیر بعد ٹرے میں چائے لے آیا ۔شام کو میرے دوست نے اپنے اور میرے چند مشترکہ دوستوں کو ہوٹل میں کھانے پر مدعو کیا تھا، گھر سے نکلنے سے پہلے اس نے اپنے سیکرٹری کو بلایا اور اسے اپنی انکم ٹیکس ا سٹیٹ منٹ تیار کرنے ،پاسپورٹ پر امریکہ کا ویزا لگوانے، جہاز کا ٹکٹ خریدنے اور ایسے کتنے ہی چھوٹے بڑے کاموں کے بارے میں ہدایات دیں اور پھر ہم کار میں آکر بیٹھ گئے کار تک پہنچتے پہنچتے ان تمام آسائشوں اور عزت افزائیوں کا ایک دفعہ پھر نظارہ کیا جو میں صبح سے اب تک متعدد بار کر چکا تھا ۔

اس کالم میں صرف یہ بتانا مقصود تھا کہ ایک زندگی یہ بھی ہے اور ایک زندگی وہ جو کروڑوں پاکستانی گزارتے ہیں!