کیا تحریک انصاف ضمنی کی 9 نشستوں کو سر کرلے گی؟

February 23, 2023

پی ٹی آئی کےا رکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے بعد کراچی کے 9 حلقوں میں 16 مارچ کو پولنگ ہونی ہے ان حلقوں پر پی ٹی آئی ، ایم کیو ایم اور پی پی پی کے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے تاہم کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد پی پی پی نے ضمنی الیکشن نا لڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے میدان چھوڑ دیا جس کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کے عارضی مرکز بہادر آباد میں سینئر ڈپٹی کنوینر نسرین جلیل کی صدارت میں رابطہ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں سینئر ڈپٹی کنوینر مصطفی کمال، ڈپٹی کنوینر عبدلوسیم ، انیس قائم خانی اور خواجہ اظہار الحسن ، وفاقی وزیر امین الحق سمیت اراکین رابطہ کمیٹی نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں ملک کی موجودہ معاشی اور سیاسی صورتحال کا بغور جائزہ لیا گیا۔

اراکین رابطہ کمیٹی نے رائے دی کہ پی ڈی ایم کی حالیہ ضمنی انتخابات میں حصہ لینے یا نا لینے کی وجوہات کراچی کی صورتحال سے بلکل مختلف ہیں، پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا الیکشن میں حصہ نہ لینا ان کا اپنا فیصلہ اور موقف ہے جس سے ایم کیو ایم کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اجلاس میں،اراکین رابطہ کمیٹی نے کہا کہ اب سے چند ماہ بعد دوبارہ پورے ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہونا ہے جس کے نتیجے میں اگلے ۵ سال کے لئے نئی حکومت کا قیام عمل میں آئے گا۔

رابطہ کمیٹی تمام اراکین کی آراء سُننے کہ بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ ضمنی انتخابات کا عام انتخابات سے قبل انعقاد نہ صرف ملک کے لئے معاشی بوجھ ہوگا بلکہ چند ماہ کی محدود مدت میں ایم کیو ایم کے یقینی منتخب نمائندے اس ایوان میں جاکر عوام کی امنگوں اور وعدوں پر پورا نہیں اتر پائیں گے لہذا ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی نے ملک کی معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے موجودہ ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ پارٹی اپنی مکمل توجہ اور وسائل اب سے چند ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات پر مرکوز رکھے گی اور اسکی بھرپور تیاری شروع کی جائے گی۔

ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے رابطہ کمیٹی کے فیصلے کی توثیق کردی۔ یوں پی ٹی آئی کے مقابلے میں اب کوئی قابل ذکر جماعت نہیں رہی اور شنیدہے کہ پی ٹی آئی ان نو نشستوں کو باآسانی سر کرلے گی حیرت انگیز طور پر حالیہ بلدیاتی انتخاب میں کراچی کی سطح پر بلدیاتی انتخاب میں پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والی جماعتوں پی پی پی اور جماعت اسلامی نے بھی ضمنی الیکشن میں اپنا زور نہیں آزمایا۔

ضمنی الیکشن کے سلسلہ میں پی ٹی آئی کی رابطہ مہم جاری ہے تو دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کراچی کی جانب سے چیئرمین عمران خان کی کال پر پارٹی مرکز انصاف ہاؤس کے باہر جیل بھرو تحریک کے حوالے سے ساتوں اضلاع کے الگ الگ رجسٹریشن کیمپ لگائے گئے۔ کراچی کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے کارکنان اور خواتین نے بڑی تعداد نے اپنے متعلقہ اضلاع کے کیمپ پر رجسٹریشن کروائی۔ جیل بھرو تحریک کی رجسٹریشن میں کارکنان کے ساتھ ساتھ پارٹی قیادت اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی سمیت کراچی کے شہریوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی سندھ کے صدر و سابق وفاقی وزیر علی زیدی کا کہنا تھا کہ جیل بھرو تحریک کی رجسٹریشن کے عمل میں کارکنان بے حد پر جوش ہیں۔

تحریک انصاف کا ہر کارکن چیئرمین عمران خان کی کال پر آج رجسٹریشن کے لیے یہاں پہنچا ہے۔ امپورٹڈ حکومت آنکھیں کھول کر یہ جم غفیر دیکھ لے، یہ تمام کارکنان ملک کی بقاء اور سلامتی کی خاطر بلا خوف و خطر جیلوں میں جانے کے لیے تیار ہیں۔ ملک کے بڑے بڑے چوروں اور ڈاکووں کو عمران خان نے اپنے دور میں پابند سلاسل کر کے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا۔ علی زیدی نے مزید کہا کہ جیل بھرو تحریک کے آگے امپورٹڈ حکومت اب زیادہ دیر ٹک نہیں پائے گی۔ عمران خان نے انکی راتوں کی نیندیں حرام کی ہیں، اب ہم انہیں دن میں بھی چین نہیں لینے دیں گے۔

اس موقع پر سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل، صدر پی ٹی آئی کراچی آفتاب صدیقی، اپوزیشن لیڈر سندھ حلیم عادل شیخ، پارلیمانی لیڈر سندھ اسمبلی خرم شیر زمان، سینئر رہنما فردوس شمیم نقوی، مرکزی ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات جمال صدیقی، ترجمان پی ٹی آئی سندھ ارسلان تاج، نائب صدر سندھ راجہ اظہر، صدر وومن ونگ کراچی کے رہنما بھی موجود تھے۔ ہیں ۔ یہ اعلان بھی کیا کہ 24 فروری کو مہنگائی کیخلاف کراچی میں تاریخی احتجاج ہو گا۔ ادھرعوام کے حقوق کے لئیے سندھ یونائیٹڈ پارٹی کا سندھ مارچ اپنے پانچویں دن کے اختتام پر پیدل چلتا ہوا سندھ کے علاقے ڈوکری پہنچا۔ مارچ کا جگہ جگہ پر جی ڈی اے میں شامل جماعتوں کے کارکنان اور مقامی لوگوں نے پرتپاک استقبال کیا گیا۔ پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔

سندھ کے نامور ادیب، دانشور مختیار ملک نے قافلے کا بھرپور استقبال کیا اور سید زین شاہ اور دیگر رہنماؤں کو پھولوں کے ہار پہنائے۔ قبل ازیں وکڑو اسٹاپ پر سینکڑوں لوگوں جس میں خواتین بچے، بوڑھے، معذور شامل تھے اپنے گھروں سے نکل کر ڈھول کی تھاپ پر اور پھولوں کی پتیوں سے سندھ مارچ کا والہانہ استقبال کیا۔ لوگ زین شاہ کے گلے لگ کر رو پڑے۔ لوگوں نے زین شاہ سے کہا کہ ظالم مہنگائی نے ہمیں فاقوں پر مجبور کر دیا ہے۔ ہمارے بچے بھوکے مر رہے ہیں۔ ہم کہاں جائیں۔ سید زین شاہ نے ڈوکری میں مارچ کے اختتام اور مختلف مقامات پر خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لاڑکانہ کی عوام نے سندھ مارچ کا والہانہ استقبال کر کے اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دے دیا ہے کہ "گو زرداری گو"۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کے عوام کو ناانصافی اور ظلم کے سوا پیپلز پارٹی نے کچھ نہیں دیا۔ سید زین شاہ نے کہا کہ سندھی زبان انگریزوں کے زمانے میں بھی دفتری کاروباری اور تعلیمی زبان تھی لیکن آج کے دور میں دن بہ دن سندھی زبان کو سندھ کے سرکاری دفتروں، عدلیہ، تدریسی اداروں، سندھ اسمبلی، سرکاری عمارتوں اور شاہراوں پر لگے ہوئے سائن بورڈ پر سے بھی ختم کیا جا رہا ہے۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ کی حکمران جماعت اور وفاقی حکومت اس معاملے میں مشرکہ طور پر سندھی زبان کو سندھ سے ختم کرنے کے عمل میں ذمہ دار ہیں۔ سید زین شاہ نے کہا پاکستان کثیرالقومی اور کثیرالزبان وطن ہے اس کی مضبوطی اور استحکام اس میں ہے کہ سندھی زبان کے ساتھ ساتھ جتنی بھی اکثریت میں بولی جانے والی مادری زبانیں ہیں ان سب کو قومی زبان کو درجہ دیا جائے۔ لاڑکانہ سے پیدل سندھ مارچ کے شرکاء 29 کلومیٹر کا سفر طے کر کے ڈوکری پہنچے جہاں لانگ مارچ کا پانچواں روز اختتام پذیر ہوگیا۔