ڈیجیٹل مردم شماری: بعض سیاسی جماعتوں کے تحفظات

March 02, 2023

ڈیجیٹل مردم شماری کے معاملے پر شہری سندھ اور دیہی سندھ میں تقسیم واضح طور پر سامنےآرہی ہے متحدہ قومی موومنٹ نے مردم شماری کاخیر مقدم کیا ہے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہاہے کہ کراچی کی ڈیڑھ کروڑ آبادی کو بازیاب کرنا ہے جبکہ فنکشنل سندھ کے جنرل سیکریٹری ، جی ڈی اے کے سیکریٹری اطلاعات سردار عبدالرحیم نے کہاہے کہ سندھ بھر کے عوام مردم شماری کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ جعلی اور بے مقصد سرگرمی کے لیے مختص اربوں کا بجٹ سیلاب متاثرین کی بحالی پر خرچ کیا جائے۔ جبکہ سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی نے ڈیجیٹل مردم شماری کو مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ ہم اس کے نتائج قبول نہیں کریں گے، حکمران ملک کو نہیںبچاسکتے ہیں۔

جبکہ قوم پرست رہنما ایاز لیطف پلیجو نے بھی ڈیجیٹل مردم شماری کو مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ متاثرین سیلاب گھروں سے باہر ہے ان حالات میں صرف کسی ایک جماعت کی نشستیں بڑھانے کے لیے مردم شماری کی جارہی ہے جسے ہم قبول نہیں کریں گے۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں بھی متعدد ارکان نے ڈیجیٹل مردم شماری میں شناختی کارڈ کی شرط ختم کرنے پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ سندھ کے وزیر بلدیات سیدناصر حسین شاہ نے کہاکہ یہ بہت اہم ایشو ہے، گزشتہ مردم شماری پر سب کو اعتراضات تھے، ہم نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ہمیشہ کھل کر بات کی ہے، سندھ سے زیادتی پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔

مردم شماری کے معاملے پر شہری اور دیہی سندھ اس معاملے پر تقسیم نظرآتا ہے ادھر 1973 کے آئین کی گولڈن جوبلی کی تقریب سے سندھ اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اسٹیلشمنٹ ایک ادارہ بن گیا ہے اور آئین میں نظر نہ آنے والا حصہ بن چکا ہے،ہمارے ملک کی اعلیٰ عدلیہ دہرے معیار کے ساتھ چل رہی ہے،عمران خان کو بطور وزیراعظم لانے کی سازش آئین کے خلاف تھی، نیب کا قانون جوڈیشری پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔

اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور سابق وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ، پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر میاں رضا ربانی، سید خورشید احمد شاہ، سینیٹر نثار کھوڑو، جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر،جسٹس رشید اے دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر وقار مہدی، سعید غنی، پیپلزپارٹی کے اراکین قومی وصوبائی اسمبلی وکلا، صحافی مختلف شبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ چیئرمین پیپلز پارٹی، وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ آئین توڑنے والی قوتوں کو یہ برداشت نہیں کہ عوام کو ان کے حقوق ملیں، جب تک ہم آپس میں لڑتے رہیں گے فائدہ کوئی اور اٹھاتا رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ شہید بینظیر بھٹو خود سیاسی مخالفین کے پاس گئیں اور چارٹر آف ڈیموکریسی کی بات کی، ناردرن ایریاز کو ہم نے گلگت بلتستان بنا دیا، ماضی کی حکومتوں میں سیاسی مخالفین کو جیل بھیجتے تھے، 2013 کے پیپلز پارٹی کے منصوبے کو ن لیگ جاری رکھا، ایک سلیکٹڈ کو لانچ کیا گیا، ہماری سیاسی مفاہمت کو توڑنے کے لئے ایک کٹھ پتلی وزیر اعظم کو لایا گیا، وہ سمجھتا تھا کہ وزیراعظم اس لئے نہیں بنا کہ ٹماٹر اور آلو کی قیمت لگائے۔

بلاول بھٹو نے سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم اپنے آپ اور اپنے خاندان کو فائدہ پہنچانے کیلئے بنا، ہم نے اس کٹھ پتلی وزیر اعظم کو آئین کے ذریعے کرسی سے اتارا، اس شخص کو اس لیے لایا گیا کہ آئین کے خلاف سازش کی جائے، ان کا مسئلہ 18 ویں ترمیم سے نہیں 1973 کے آئین سے ہے۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ اور میڈیا منقسم ہے، غیر جمہوری قوت کیلئے یہ صورتحال اچھی ہے جب کہ عام آدمی کا سب سے اہم مسئلہ مہنگائی،غربت اور بیروزگاری ہے، ہم آپس میں لڑتے رہیں گے توعوامی مسائل میں اضافہ ہوتا رہے گا،ہماری آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے دہشت گرد فائدہ اٹھا رہے ہیں، ہم نے آئینی طور پر تو اس وزیر اعظم کو ہٹا دیا لیکن اس کی سوچ پھر بھی نہیں بدلی۔

چیئرمین پی پی بلاول بھٹو نے کہا کہ جو نقصان 3سال میں ہوا پتا نہیں ہم اس کے نتائج کب تک بھگتیں گے؟ جس طرح اعلیٰ عدلیہ دوہرے معیار کے ساتھ چل رہی ہے تو ایسا کب تک چلے گا؟ لاڑکانہ کے وزیر اعظم کو پھانسی دے دی، آج تک انصاف نہیں ہوا، زمان پارک کے وزیر اعظم کے لئے عدلیہ نے اپنا مذاق خود بنا لیا، دو غلا نظام نہیں چل سکتا ہم یہ برداشت نہیں کریں گے۔عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ایک شخص نے عدلیہ، میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ کو تقسیم کردیا، وہ شخص توچلاگیا مگر اسے لانے والی سوچ وہیں ہے، عمران خان کو بطور وزیراعظم لانے کی سازش آئین کے خلاف تھی عمران خان نے ملکی بہتری کیلئے کام نہیں کیا، خمیازہ آج عوام بھگت رہے ہیں۔

ایک عرصے بعد بلاول بھٹو کا لہجہ جارحانہ تھا انہوںنے سابقہ حکمرانوں خصوصتاً نیب کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ادھر تحریک لبیک نے مہنگائی، پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شٹرڈاؤن کی اپیل کی جو جزوی طور پر کامیاب رہی۔شہر کے مختلف علاقوںمیں احتجاج کا سلسلہ جاری:۔کورنگی، بلدیہ ، حب ریورروڈ پر مشتعل افراد سڑک پر آگئے، مشتعل افراد نے ٹائر جلاکر سڑک کو بند کردیا، ٹریفک روانی متاثر ہوئی، پہیہ جام ہڑتال کے سبب شہر میں کاروباری سرگرمیاں جزوی متاثر ہوئی حب ریورروڈ ٹریفک کے لیے بند رہا، کراچی سے بلوچستان کا زمینی راستہ منقطع رہا،بولٹن مارکیٹ، جوڑیا بازار، شیرشاہ، گلبہار، گارڈن ، صدر ودیگر علاقوں میں کاروبار متاثر رہاحب ریور روڈ پر مشتعل افرا دنے پٹرول پمپس بند رہے۔ مہنگائی کے خلاف تحریک لبیک کی شٹرڈاؤن کی کسی جماعت نے حمایت نہیں کی اپوزیشن کی جماعتوں نے بھی تحریک لبیک کا ساتھ نہیں دیا اور سیاسی جماعتیں پوائنٹ اسورنگ کے چکر میں رہی۔ دوسری جانب تادم تحریر سندھ یونائیٹڈ پارٹی کا عوام کے حقوق کے لئے پیدل سندھ مارچ بارہویں روز میں داخل ہو گیا۔