دن میں تین بار کھانا، صحت کیلئے مفید یا نقصان دہ؟

March 16, 2023

اکثر لوگ دن میں تین بار کھانا کھاتے ہیں اور یہ ان کی روزمرہ زندگی کا عمومی جزو بن چکا ہے۔ لیکن کیا دن میں تین بار کھانا کھانا زیادہ صحت مند ہے؟ کیوں کہ ہم کچھ ایسے لوگوں کو بھی جانتے ہیں جو دن میں دوبار کھانا کھاتے ہیں اور وہ صحت مند بھی رہتے ہیں۔ یہ سوچنے سے پہلے کہ ہمیں دن میں کتنی بار کھانا کھانا چاہیے، سائنسدان ہمیں کہہ رہے ہیں کہ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمیں کب نہیں کھانا چاہیے۔

یونیورسٹی آف وسکانسن کے اسکول آف میڈیسن اینڈ پبلک ہیلتھ سے منسلک ایسوسی ایٹ پروفیسر روزلین اینڈرسن نے انسانی جسم کو یومیہ مطلوب کیلوریز کے بارے تحقیق کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ روزانہ کھانے میں ایک بڑے وقفے کے فوائد ہیں۔ ’کھانے میں لمبے وقفے سے جسم کو موقع ملتا ہے کہ وہ ایسے پروٹینز یا لحمیات کو ٹھیک کر سکے جو کسی وجہ سے کھل نہیں سکے ہیں۔ ایسے لحمیات کا کئی قسم کی بیماریوں سے تعلق جوڑا جاتا ہے۔‘

پروفیسر روزلین اینڈرسن کہتی ہیں کہ ہمارے جسموں کا ارتقاء انٹرمٹنٹ فاسٹنگ کی طرز پر ہوا ہے۔ ’اس سے جسم کو موقع ملتا ہے کہ وہ توانائی کو جمع کرے اور اسے وہاں استعمال کرے جہاں اس کی ضرورت ہے اور وہ ہمارے جسموں میں جمع توانائی کو خارج کرنے کے نظام کو بھی متحرک کرے۔‘

اسپورٹس سائنس کے پروفیسر انتونیو پاولی کے مطابق کھانے کے دوران لمبے وقفے جسم میں گلیسرین کے استعمال میں بہتری لاتے ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد جسم میں گلوکوز لیول میں کم اضافے کی وجہ سے جسم کم توانائی کو جمع کر پاتا ہے۔ پروفیسر پاولی کہتے ہیں کہ ہمارے ڈیٹا سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ رات کا کھانا جلدی کھانے سے ہماری خوراک میں وقفے کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے جس کے جسم پر مثبت اثرات ہوتے ہیں۔

اگر تمام خلیوں میں شوگر لیول کم ہو تو یہ اچھا ہے، کیونکہ اگر شوگر لیول زیادہ ہو تو ایک عمل شروع ہو جاتا ہے جسے گلائیکیشن کہتے ہیں۔ گلائیکیشن کے دوران گلوکوز اور لحمیات کا ملاپ ہوتا ہے جس سے جسم میں سوجن بڑھ جاتی ہے اور ذیابطیس کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ کچھ ماہرین کے خیال میں دن میں صرف ایک بار کھانا ہی بہترین عمل ہے۔

نیویارک کی کورنل یونیورسٹی کالج آف ہیومن ایکالوجی سے منسلک ڈیوڈ لویٹسکی کہتے ہیں کہ ایسا بےتحاشا ڈیٹا موجود ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ اگر آپ کو کھانے کی تصاویر دکھائی جائیں تو آپ کو کھانے کی طلب ہوگی۔ ’جب فریج اور فریزر نہیں ہوتے تھے تو ہم صرف اسی وقت کھانا کھاتے تھے جب کھانا فراہم ہوتا تھا۔ تاریخ میں ہمیشہ انسان ایک وقت کا کھانا کھاتا تھا‘۔ انسانی خوراک کے تاریخ پر نظر رکھنے والے سیرن چیرنگٹن ہولنز کہتے ہیں کہ قدیم روم میں صرف دوپہر کے وقت صرف ایک وقت کا کھانا کھایا جاتا تھا۔

کیا دن میں ایک بار کھانا کھانے سے ہم بھوکے نہیں رہ جائیں گے؟

ڈیوڈ لیوٹسکی کہتے ہیں کہ بھوک اکثر ایک نفسیاتی احساس ہے۔ ’جب 12 بجتے ہیں تو ہمیں کھانے کی طلب ہونے لگتی ہے۔ آپ کو شاید ناشتے کی عادت ہو۔ ڈیٹا سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اگر آپ ناشتہ نہیں کریں گے تو آپ کے جسم میں سارا دن میں کم کیلوریز داخل ہوں گی‘۔ البتہ ڈیوڈ لویٹسکی ذیابطیس کے مریضوں کے لیے یہ طریقہ تجویز نہیں کرتے۔

تاہم دیگر ماہرین دن میں صرف ایک کھانے کا مشورہ نہیں دیتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب ہم کچھ نہیں کھاتے تو ہمارے خون میں فاسٹنگ گلوکوز کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور اگر ایک عرصے تک ایسا ہی ہوتا رہے تو اس سے ٹائپ ٹو ذیابطیس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ خون میں فاسٹنگ گلوکوز کی مقدار کو کم سطح پر رکھنے کے لیے ہمیں ایک سے زیادہ بار کھانا کھانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ جسم کو یہ پیغام نہ جائے کہ وہ فاقہ کر رہا ہے جس کے ردعمل میں وہ فاسٹنگ گلوکوز بنانا شروع کر دے۔

’اگر دن کے ابتدائی حصے میں کیلوریز کی ایک بڑی مقدار کو کھا لیا جائے تو یہ صحت کے مفید ہے۔ رات دیر سے کھانا کھانے کو دل کے عارضے، نظام ہضم اور ذیابطیس کی بیماریوں سے جوڑا جاتا ہے‘۔ اگر آپ اپنا زیادہ کھانا دن کے ابتدائی حصے میں کھاتے ہیں تو جسم تمام توانائی کو استعمال کر سکتا ہے اور اسے بطور چربی جسم میں جمع نہیں کرے گا۔ اسی طرح صبح سویرے ناشتے سے بھی پرہیز کیا جانا چاہیے جبکہ نیند سے بیداری کے فوراً بعد کھانا کھانا صحت کے لیے مفید نہیں ہے، اس سے باڈی کلاک متاثر ہوتا ہے۔ تحقیق کار کہتے ہیں کہ خوراک کے ہضم ہونے میں جسمانی گھڑی کا اہم کردار ہوتا ہے۔

انسانی جسم نیند کی کیفیت لانے کے لیے میلاٹونیم نامی مادہ پیدا کرتا ہے اور اس کے اخراج سے انسولین کی افزائش رک جاتی ہے۔ جب آپ سو رہے ہوتے ہیں تو آپ کا جسم میلاٹونیم پیدا کرتا ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ دورانِ نیند آپ کے خون میں گلوکوز کی مقدار بڑھ نہ جائے۔ آگر آپ ایسے وقت کیلوریز کھاتے ہیں جب جسم میں میلاٹونیم کی مقدار زیادہ ہے تو اس سے گلوکوز لیول میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

رات کو سونے سے پہلے اگر آپ بہت زیادہ کیلوریز کھا لیں تو جسم کا اس سے نمٹنا مشکل ہو جاتا ہے اور پھر آپ کا جسم گلوکوز کی صحیح مقدار کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر ایک لمبے عرصے تک جسم میں گلوکوز کی مقدار زیادہ رہے تو وہ ٹائپ ٹو ذیابطیس کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہمیں ناشتے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ایسی شہادتیں موجود ہیں کہ نیند سے بیداری کے ایک دو گھنٹے بعد ہی ناشتے کی جانب بڑھنا چاہیے۔ یاد رہے کہ ناشتہ قدرے جدید دور کا تصور ہے۔

چیرنگٹن ہولنز کہتی ہیں کہ قدیم یونان میں ناشتے کو متعارف کروایا گیا‘۔ وہ ناشتے میں روٹی کو شراب میں بھگو کر کھاتے اور دن کو کافی کم کھانا کھاتے تھے۔ شام کو جی بھر کر کھانا کھانے کا رواج قدیم یونانی دور میں شروع ہوا‘۔

ابتدا میں ناشتے کی ’عیاشی‘ صرف امرا کرتے تھے۔ پھر 17ویں صدی کے بعد ہر صاحبِ حیثیت شخص کو صبح ایک اچھے کھانے کی ’عیاشی‘ میسر آ گئی۔ چیرنگٹن ہولنز کہتے ہیں کہ جسے آج ہم ناشتہ کہتے ہیں اس کی شروعات 19ویں صدی میں صنعتی انقلاب کے ساتھ ہوئی۔ اس دور میں کام کے اوقات بھی مقرر ہوئے اور ان اوقات کی وجہ سے دن میں تین بار کھانے کا رواج ہوا۔

’ملازمت پیشہ افراد کے لیے ناشتہ عام طور پر بہت سادہ سا کھانا ہوتا تھا جو عام طور گلی میں فروخت ہونے والا کھانا یا ڈبل روٹی کے ٹکڑے کی شکل میں ہوتا تھا‘۔ لیکن پہلی جنگِ عظیم کے بعد جب خوراک کی دستیابی ایک مسئلہ بن گئی تو بہت سے لوگوں کے لیے مکمل ناشتے کا حصول مشکل ہو گیا اور انھوں نے اسے چھوڑنا شروع کر دیا۔

چیرنگٹن ہولنز کہتے ہیں کہ جس کھانے کو ہم ناشتے کے طور پر جانتے ہیں اس کا رواج 1950ء کی دہائی میں ہوا۔ ’اس سے پہلے ہم جیم کے ساتھ ڈبل روٹی کے ایک ٹکڑے کو کھا کر ہی خوش تھے‘۔ لہٰذا، سائنس یہ کہتی ہے کہ دن بھر کھانے کا سب سے صحت بخش طریقہ یہ ہے کہ دو یا تین کھانے، رات بھر طویل وقت بنا کھائے رہنے کے ساتھ، دن میں بہت جلدی یا بہت دیر سے کھانا نہ کھایا جائے اور زیادہ کیلوریز کو دن کے پہلے حصے میں کھا لیا جائے، یہی صحت کے لیے مفید ہے۔

اگر آپ اپنے جسم کو باقاعدگی سے رات کو فاقہ کروانے کی کوشش کرتے ہیں، تو کوشش کریں کہ زیادہ دیر یا جلدی نہ کھائیں جبکہ دن کے آخری کھانے میں کم کھانے کی کوشش کریں۔ ’آپ اپنے پہلے کھانے میں تھوڑی تاخیر اور آخری کھانے کو آگے بڑھانے سے ڈرامائی تبدیلی دیکھ سکتے ہیں۔ کسی اور چیز کو تبدیل کیے بغیر اسے باقاعدہ بنانے سے بڑا اثر ہو سکتا ہے‘۔ محققین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ آپ جو بھی تبدیلیاں کرتے ہیں وہ مستقل بنیادوں پر ہونی چاہئیں اور ان میں تسلسل عمل بہت ضروری ہے۔