ارشد شریف کا قتل غلط شناخت پر ہوا، قتل کی سازش، تشدد نہیں ہوا، سرکاری تحقیقاتی رپورٹ

March 28, 2023

لندن ، نیروبی( مرتضیٰ علی شاہ/نیابوگا کیاج) کینیا کی سرکاری تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کینین سرکاری حکام کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی صحافی ارشد شریف کا قتل غلط شناخت کا معاملہ تھا اور اس میں قتل کی کوئی منصوبہ بندی شامل نہیں تھی نہ ہی تشدد کیا گیا۔ کینیا کے ایک معتبر سرکاری ذریعے کے مطابق جنہوں نے رپورٹ مکمل پڑھی اور اس کے مواد کو جیو نیوز سے شیئر کیا جس میں بتایا گیا ہے کہ کینیا کی حکومت کی رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کو پیرا ملٹری جنرل سروس یونٹ (جی ایس یو) کے چار ارکان نےبلا صوابدید گولی مار کر ہلاک کر دیا کیونکہ اس کا ڈرائیور خرم احمد روڈ بلاک پر نہیں رکا ۔کینیا کی رپورٹ پولیس کے ابتدائی بیان پر قائم پر مبنی ہے کہ چار گارڈز بھاگتی ہوئی گاڑی کی تلاش میں تھے اور ارشد شریف کی گاڑی پر اس وقت گولیاں برسائیں جب خرم احمد نے پولیس کی جانب سے لگائے گئے روڈ بلاکس کوعبور کرلیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معتبر ذرائع کے مطابق ارشد شریف کی گاڑی پر گولیاں چلانے والے جی ایس یو کے چار افسران ڈیوٹی کے دوران نشے میں نہیں تھے۔پولیس نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ چاروں اہلکاروں نے حد سے زیادہ شراب نوشی کی تھی کیونکہ یہ ویک اینڈ کی رات تھی جب صحافی وقار احمد کے پہاڑی اور دور دراز ایمو ڈمپ شوٹنگ رینج سے سینٹرل نیروبی کی طرف وقار احمد کے پینٹ ہاؤس جاتے ہوئے مارا گیا جہاں وہ خفیہ طور پر رہتے تھے۔تاہم تفصیلی سرکاری رپورٹ میں پولیس کے اصل موقف کو مسترد کیا گیا ہے۔ ابتدائی طور پر جی ایس یو افسران کی جانب سے یہ اطلاع دی گئی تھی کہ ارشد کی لینڈ کروزر کے اندر سے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی گئی اور پولیس نے جوابی فائرنگ کی۔رپورٹ میں تازہ تفصیلات موجود ہیں اور اسے ابھی منظر عام پر لانا باقی ہے کہ ارشد شریف کی گاڑی کے اندر سے کوئی گولی نہیں چلائی گئی۔اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ چار پولیس افسروں میں سے ایک کے ہاتھ میں واقعی چوٹ لگی تھی لیکن وہ ایک ساتھی پولیس افسر کی طرف سے چلائی گئی گولی کی زد میں آ گیا تھا جو 23 اکتوبر 2022 کوگاڑی کی طرف جا رہا تھا جس میں ارشد سوارتھا۔ سرکاری رپورٹ میں استغاثہ کو سفارش کی گئی ہے کہ جی ایس یو کے چار افسران میں سے دو لاپرواہی سے فائرنگ کرکے ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال میں ملوث تھے اس لیے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔کینیا کے پینل کوڈ کے مطابق طاقت کے زیادہ استعمال میں ملوث کسی افسر کو عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔یہ سمجھا جاتا ہے کہ سفارشات کینیا کی پراسیکیوشن سروس کو بھیج دی گئی ہیں لیکن ابھی تک استغاثہ اور الزامات پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔سرکاری رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ارشد شریف پر قتل سے پہلے یا بعد میں تشدد نہیں کیا گیا۔ارشد شریف کا ڈرائیور اور ساتھی وقار احمد کے بھائی خرم احمد تھے جنہیں حملے میں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔خرم احمدنے کہا ہے کہ اس نے ارشد شریف کو شوٹنگ کی جگہ سے تقریباً 25 کلو میٹر دور اپنے بھائی کے آرگینک فارم ہاؤس تک پہنچایا، جن کی خون بہنے کی وجہ سے حالت تشویشناک تھی۔واضح رہے کہ ارشد شریف کو تقریباً پانچ ماہ قبل کینیا کے جی ایس یو یونٹ نے نیروبی کے مضافات میں ایک کچی سڑک پر قتل کر دیا تھا۔ اس کے قتل کے فوراً بعد، کینیا کی حکومت نے تحقیقات شروع کرنے کا اعلان کیا تھا اور چند دنوں میں اس کے نتائج کو عام کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ کینیا کی انڈی پنڈنٹ پولیسنگ اوور سائیٹ اتھارٹی (آئی پی او اے) کی چیئرپرسن نے کہا ہے کہ کینیا کی پولیس کے ہاتھوں ارشد شریف کے قتل کی مکمل چھان بین کی جا رہی ہے تاکہ شوٹنگ سے متعلق حقائق سامنے آ سکیں اور 23 اکتوبر کی رات کینیا کے جی ایس یو افسران کی طرف سے ارشد شریف کو ماری گئی گولی سے متعلق حالات کا تعین کرنے کے لیے مکمل اورتفصیلی تحقیقات کی جائیں ۔تاہم نہ تو کینیا کی حکومت اور نہ ہی آئی پی او اے نے پانچ ماہ میں اپنی تحقیقات کے نتائج جاری کیے ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ کینیا کی حکومت نے دو ماہ قبل اپنی تحقیقات مکمل کر لی تھی لیکن رپورٹ کو عام نہیں کیا جا رہا ہے۔اس رپورٹ کو کینیا کی حکومت کے چند سینئر عہدیداروں نے دیکھا ہے۔ کینیا کی پابندی والی سرکاری رپورٹ واقعہ کے اصل پولیس ورژن سے تقریباً لفظی طور پر اتفاق کرتی ہے جس نے شروع سے ہی غلط شناخت کی پوزیشن پر انحصار کرتے ہوئے کسی بھی قتل کی منصوبہ بندی یا قتل کی سازش کا حصہ ہونے سے انکار کیا تھا -پولیس کے مطابق، مسٹر شریف کو غلط شناخت کے اصل معاملے میں اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جب تاجر مسٹر ڈگلس وائنینا کاماؤ، جن کا نیروبی میں اڈہ ہے، نے اطلاع دی کہ ان کی گاڑی، رجسٹریشن نمبر KDJ 700F کی مرسڈیز بینز سپرنٹر چوری ہو گئی ہے۔ مسٹر ڈگلس نے پنگانی پولیس اسٹیشن میں اطلاع دی تھی کہ ان کی گاڑی 23 اکتوبر کی شام کو چوری ہوئی ۔ رپورٹ دینے سے تین دن پہلے، مسٹر ڈگلس نے اپنے بیٹے کے ساتھ کینیا کے ساحلی علاقے ممباسا میں وقت گزارا تھا اور وہ وہاں سے نیروبی واپس آ رہےتھے۔ گاڑی اس وقت چوری ہوئی جب وہ نیروبی میں تھے کہ مسٹر ڈگلس نے کہا کہ وہ اپنی گاڑی کی مرمت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ دیگر مسائل پر بھی توجہ دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کچھ وقت کے لیے شہر میں رہنے پر راضی ہو گئے۔ 23 اکتوبر کو وہ گھر والوں سے ملنے گئے تھے۔ بیٹا اپنی بیوی جوئے گوڈی سے ملنے چلا گیاجو اپنی خالہ کے ساتھ رہتی ہے، جبکہ باپ کجابے میں اپنے بھائیوں اور بہنوں سے ملنے گئے۔