چیف جسٹس کے اختیار محدود کرنے کی کوشش

April 02, 2023

قارئین واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک نہایت شاطر اور ماہر چور نے مہنگا لباس زیب تن کرکے معزز اور محترم دکھائی دینے کاحلیہ بنایا اور صرافہ بازار میں سنار کی ایک دکان کے اندر چلا گیا۔ سنار نے جب اپنی دکان میں وضع قطع سے نہایت ہی رئیس اور محترم دکھنے والے شیخ کو دیکھا، تو سنار کو ایسا لگا جیسے اس کی دکان کے بھاگ جاگ اٹھے ہوں۔اسے پہلی بار اپنی چھوٹی سی دکان کی عزت و وقار میں اضافے کا احساس ہوا۔ سنار نے آگے بڑھ کر شیخ کا استقبال کیا۔ شیخ کے روپ میں چور نے کہا آپ سے آج خریداری تو ضرور ہوگی مگر اس سے پہلے بتائیں کیا آپ کے لئے ممکن ہے کہ آپ اپنی سخاوت سے ہمارے ساتھ مسجد بنانے میں حصہ ڈالیں؟ اس نیک کام میں آپ کا حصہ خواہ ایک درہم ہی کیوں نہ ہو۔سنار نے چند درہم شیخ کے حوالے کئے ہی تھے کہ اسی اثناء میں ایک لڑکی جو درحقیقت چور کی ہم پیشہ تھی، دکان میں داخل ہوئی اور سیدھی شیخ کے پاس جا کر اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیا، اور التجائیہ لہجے میں اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے خیر و برکت کی دعا کیلئے کہا۔سنار نے جب یہ منظر دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا اور معذرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگا، اے محترم شیخ لاعلمی کی معافی چاہتا ہوں میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔ لڑکی نے یہ سن کر تعجب کا اظہار کیا اور سنار سے مخاطب ہوکر کہنے لگی، تم کیسے بدنصیب انسان ہو، برکت، علم، فضل اور رزق کا سبب خود چل کر تمہارے پاس آیاہے اور تم اسے پہچاننے سے قاصر ہو۔ لڑکی نے شیخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ فلاں علاقے کے مشہور و معروف شیخ ہیں، جنہیں خدا نے کثرت علم، دولت کی فروانی اور ہر قسم کی دنیاوی نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے۔ انہیں انسانوں کے بھلے کے سوا کسی چیز کی حاجت نہیں ۔لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بیتاب رہتے ہیں۔ سنار نے شیخ سے کہا کہ؛ شیخ صاحب میرا سارا وقت دکان میں گزرتا ہے ۔ باہر کی دنیا سے بے خبر رہتا ہوں، اس لئے آپ جیسی برگزیدہ ہستی کو نہ پہچان پایا۔ شیخ نے سنار سے کہا کوئی بات نہیں انسان خطا کا پتلا ہے، تم ایسا کرو ابھی میرا یہ رومال لے لو اور7 دن اس سے اپنا چہرہ پونچھتے رہو، سات دنوں کے بعد یہ رومال تمہارے لئے ایسی برکت اور ایسا رزق لے آئے گا جس کی تمہیں توقع بھی نہ ہو گی۔ جوہری نے پورے ادب کے ساتھ رومال لیا، اسے بوسہ دیا، آنکھوں کو لگایا، اور اپنا چہرہ پونچھا، ایسا کرتے ہی وہ بے ہوش ہوکر گرپڑا۔ اس کے گرتے ہی شیخ اور اس کی دوست لڑکی نے سنار کی دکان کو لوٹا اور وہاں سے فوراً رفو چکر ہوگئے۔ اس واقعے کو جب چار سال گزر گئے تو سنار اپنا نقصان بھول چکا تھا۔چار سال کے بعد پولیس کی وردی میں ملبوس دو اہلکار سنار کی دکان پر آئے، ان کے ساتھ وہی چور شیخ تھا جس کو ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔سنار اسے دیکھتے ہی پہچان گیا۔ ایک پولیس والا سنار کے پاس آکر پوچھنے لگا کیا آپ اس چور کو جانتے ہیں؟ کیونکہ آپ کی گواہی سے ہی قاضی اسے سزا سنا سکتا ہے۔ سنار نے کہا کیوں نہیں اس نے فلاں فلاں طریقۂ واردات سے مجھے بے ہوش کرکے میری دکان لوٹی تھی۔پولیس والا شیخ کے پاس گیا اور اس کی ہتھکڑی کو کھولتے ہوئے کہنے لگا، تم نے جس طرح دکان لوٹنے کا جرم کیا تھا ٹھیک اسی طرح وہ ساری کارروائی دہراؤ تاکہ ہم طریقہ ٔواردات لکھ کر گواہ سمیت قاضی کے سامنے پیش کرکے تم پر فرد جرم عائد کروا سکیں۔ شیخ نے بتایا کہ میں اس طرح داخل ہوا اور پھر میں نے رومال نکال کر دکاندار کو دیا۔پولیس والے نے جیب سے ایک رومال نکال کر شیخ کو تھمایا، شیخ نے سنار کے پاس جاکر اسی طریقے سے اسے رومال پیش کیا تو پولیس والا سنار سے کہنے لگا، جناب آپ بالکل ٹھیک اسی طریقے سے رومال کو چہرے پر پھیریں جیسے اس دن پھیرا تھا۔ سنار نے ایسا ہی کیا اور وہ پھر بے ہوش ہوگیا۔ شیخ نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے دوبارہ دکان لوٹ لی جنہوں نے پولیس والوں کا بھیس بدل رکھا تھا۔ آج ہمارے ملک کا بالکل یہی حال ہے،گزشتہ 35برسوں کے دوران کرپٹ اشرافیہ بھیس بدل کر آتی ہے اورہر دفعہ ایک نیا منصوبہ پیش کر کے عوام کو گمراہ کرکے نکل جاتی ہے۔ اب چیف جسٹس کے ہاتھ باندھنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ صرف ایک شخص کو گھیرنے کیلئے یہ ساری کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔

سپریم کورٹ کے دو فاضل جج صاحبان نے اپنے تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے اختیارات کے بارے میں اعتراض اٹھایا ہے اور لکھا ہے کہ پوری سپریم کورٹ کو ایک شخص کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔یہ بات اتنی مضحکہ خیز ہے کہ اس پر سنجیدگی سے گفتگو ہی نہیں ہو سکتی اور میں حیران ہوں کہ یہ بات بلکہ فیصلہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کا ہے۔ پھر یہ سوال بھی ہے کہ کیا 7لاکھ فوج کو ایک شخص یعنی چیف آف آرمی اسٹاف کے رحم و کرم پر چھوڑا جا سکتا ہے؟ اور کیاپوری منتخب اسمبلی کو کسی ایک شخص یعنی اسپیکر کے رحم و کرم پرچھوڑا جا سکتا ہے؟میں حیران ہوں کہ صرف ایک سزا یافتہ کو بچانے کیلئے سارا سسٹم داؤ پر لگا دیا گیاہے۔میں شرمندہ ہوں کہ اپنے منصفوں کے بارے میں یہ سب کچھ لکھنا پڑ رہا ہے بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ۔