اتار چڑھاؤ، رشتے نبھانا سیکھیں

October 08, 2023

نبیلہ شہزاد

سبین لاہور شہر کے ایک اعلٰی انگلش میڈیم اسکول میں پڑھاتی ہے۔ اسکول کی ڈیمانڈ کے مطابق اسے اسکول کو بھرپور وقت دینا پڑتا ہے۔ اس کی شادی کو اڑھائی سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ وہ اس اسکول میں اپنی شادی سے پہلے بھی پڑھاتی تھی۔ اس کے شوہر دانش کی جاب بھی اسی شہر میں تھی، اس لیے اسے اپنی جاب جاری رکھنے میںمشکل پیش نہیں آئی۔ تنخواہ بھی اچھی تھی، دانش کی طرف سے اجازت بھی تھی، اس لیے اس نے شادی کے بعد بھی جاری رکھی۔ سسرال دوسرے شہر ملتان میں ہے ،جہاں وہ شادی کےبعد صرف دو ماہ ہی رہی۔ میاں بیوی کو اپنے اپنے روزگار کے سلسلے میں لاہور میں رہائش اختیار کرنی پڑی۔سبین کا میکہ بھی لاہور میں ہے ۔

یہاں انہوں نے رہنے کے لیے پانچ مرلے گھر کا ایک پورشن کرایہ پر لے لیا۔ ایک ، دو ماہ بعد ان کا چکر ملتان بھی لگ جاتا،وہاں ہنسی خوشی چھٹیاں مناتے اور پھر تازہ دم ہو کرواپس آکر دوبارہ اپنی مصروف زندگی میں کھو جاتے۔ دو سال کے بعد اللہ تعالی نے انہیں پیاری سی بیٹی سے نوازا۔ دانش نےنہ اپنے میکے سے کسی کو بلوایا اور نہ بیوی کے میکہ سے، البتہ سبین کی امی شروع کےچند دن اس کے پاس آکر رہیں۔سبین کو بھی گھر سنبھالنے میں زیادہ مشکل نہیں ہوئی ،کیوں کہ دانش اس کا بہت خیال رکھتا اور گھر کے کاموں میں بھی مدد کرتا تھا ۔ شب و روز پرسکون گزر رہے تھے۔

راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا تھا، پھر اس چین کی وادی کا طلسم اس طرح ٹوٹا کہ دانش کی والدہ یعنی سبین کی ساس مریم اپنی پوتی کو دیکھنے کے لیے آئیں اور دو ماہ رہیں۔ وہ یہاں بیٹے کے گھر میں پہلی بار رہنے کے لیے آیئں تھیں۔ سبین کی اکیلے رہنے کی عادت پختہ ہو چکی تھی۔ لیکن اس کی ساس نے ان کے رہن سہن میں بلاوجہ کچھ ضرورت سے زیادہ دخل اندازی شروع کر دی۔ انہیںسبین کے ہر کام، ہر عادت اور ہر بات میں اعتراض تھا۔

سبین کا سکھ دیکھ کر اسے اپنی بیٹیوں کے دکھ یاد آنے لگتے اور وہ دانش کے سامنے اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہوئے کہتیں ’’دیکھ! ہمارے گھر آنے والی کیسا راج کر رہی ہے، تیری بہنوں کو تو دکھوں کے علاوہ کبھی کچھ ملا ہی نہیں‘‘مریم کی بار بار اس طرح کی باتوں نے دانش کے دماغ میں بٹھا ہی دیا کہ آنے والی کے ساتھ سخت رویہ رکھنا سسرال یا شوہر کا بنیادی حق ہے۔ ساس نے دانش کو گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے سے یہ کہہ کرمنع کر دیا کہ یہ کام گھر کی عورتوں کے ہیں مردوں کو زیب نہیں دیتے،ایسا کرنے والے مرد زن مرید کہلاتے ہیں۔ سبین بھی یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہی تھی۔ شوہر کے بدلتے رویے کو محسوس بھی کر رہی تھی۔

اسے معلوم تھا کہ ساس کا اس کےگھر قیام عارضی ہے ،اس لیے جیسے تیسے کر کے وقت گزار رہی تھی لیکن چلتے پھرتے ساس کے جلد چلے جانے کی دعائیں کرتی رہتی، مگر کبھی کبھار ساس کی باتوں کے سخت جواب اس کی زبان سے بھی نکل جاتے جو وہ ان میں اضافے کے ساتھ بیٹے کو بتاتیں ۔سبین اپنے لیے سست، کاہل ،فضول خرچ، بے عقل، غیر ذمہ دار، جذباتی جیسے کئی القابات ایک ساتھ اپنی ذات کے لیے برداشت نہ کر سکی۔ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے بعد پھٹ پڑا اور دانش کے ساتھ جھگڑتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ جب سے تمہاری ماں اس گھر میں آئی ہیں اس گھر کا سکون تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔

دانش اپنی ماں کے لیے سبین کی زبان سے ایسے الفاظ برداشت نہ کر سکا اور غصہ میں اٹھ کر دو تین تھپڑ اس کے چہرے پر جڑ دیے۔ سبین تو پہلے ہی اس جہنم کدے سے جان چھڑانا چاہ رہی تھی۔ فوراً اپنی بیٹی اٹھائی اور والدین کے گھرچلی گئی۔ کچھ دنوں بعد ساس بھی اپنے گھرچلی گئیں۔ اب گھر میں دانش اکیلا بے سکون زندگی گزار رہا ہے۔ یوں چند دنوں میں ایک ہنستا بستا گھر بکھر گیا۔ اب اگر اس کیس پر عمیق نگاہ ڈالی جائے تو تینوں ہی اس صورتحال کے کسی نہ کسی صورت میں ذمہ دار ہیں، بس کسی کی غلطی زیادہ اور کسی کی کم ہے۔

سب سے پہلے تو ہم گھر کی بڑی یعنی ساس کے کردار پر نظر ڈالتے ہیں،انہیں اپنا بڑا پن دکھانا چاہیے تھا۔ ایک ماں کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے جہاں آپ نے اپنے بیٹے کو جنم دینے سے لے کر اسے پروان چڑھانے تک ہر طرح کی تکلیف، بے آرامی ،برداشت، صبر و تحمل ہر طرح کی مشقت برداشت کی ،وہیں اپنی ذات کو پس پشت رکھ کر اس کے گھر کا پرسکون ماحول دیکھ کر خوش ہوتیں لیکن انہوں نے کیا کردار ادا کیا۔ اگر اپنا دل بڑا کر کے بہو کی ناپسندیدہ عادات یا اس کے کاموں میں کمی کوتاہیاں دیکھ کرنظر انداز کر دیتیں،بیٹے کا گھر کے کاموں میں بیوی کا ہاتھ بٹاتے دیکھ کر خوش ہوکر اسے دعائیں دیتیں تو بہو بھی خوش ہو جاتی۔

بہو کو اگر اللہ تعالی سکھ کی زندگی دے رہا ہے تو اس پر خوش ہوں کہ تمہارے گھر کو اللہ تعالی نے اس بچی کے لیے نعمت کدہ بنایا ہے اور تمہارا بیٹا اپنی ازدواجی زندگی کے امتحان میں کامیاب ہے، نہ کہ اس کا موازنہ اپنے ماضی یا اپنی بیٹیوں کی تلخ زندگیوں سے کریں۔ ہر فرد کا اپنا اپنا نصیب ہوتا ہے۔ اس طرح کر کے ساس نے اپنی بہو کے دل سے اپنی قدر ختم کر دی ،اب بیٹے کے کان بہو کے خلاف بھر کر آہستہ آہستہ بیٹے کے دل سے بھی اپنی قدر گنوا دیں گی۔ بیٹے کو بھی حقیقت کو اپنی نظر سے دیکھنا چاہیے تھا نہ کہ ماں کی عینک سے۔ اسے عقلمندی سے کام لے کر دونوں رشتوں کو نبھانا چاہیے تھا۔ ماں کی باتوں میں آ کر بیوی سے اکھڑ مزاجی اختیار نہیں کرنی چاہیے تھی۔

ماں نے جب بیوی کے ساتھ گھر کا کام کرنے سے منع کیا تو اسے اپنی ماں کو سمجھانا چاہیے تھا ۔ جب سبین نے اس کے رویے سے تنگ آ کر اپنے گھر کی بے سکونی کی ذمہ دار اس کی ماں کو ٹھہرایا تو اس نے حساسیت کو سمجھنے کی بجائے الٹا اسے تھپڑ مار کر مزید غلطی کر دی۔ اپنے گھر کا سکون خراب کر کے اس نے خود ہی سبین کو اپنی ماں کےخلاف کیا۔ سبین کو بھی یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ زندگی کے یہی اتار چڑھاؤ ہی تو زندگی کا امتحان ہوتے ہیں۔

تیز آندھی طوفان میں وہی درخت اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے جو ہوا کے رخ کے موافق جھک جاتا ہے۔ اکڑ کر کھڑا رہنے والا درخت جڑ سے ہی اکھڑ جاتا ہے۔گھر میں ساس کی مداخلت کو اپنی آزمائش سمجھ کر گزار لیتی۔ ساس سے خشک مزاجی اختیار کر کے اسے مزید شکایت کا موقع نہ دیتی۔کبھی ان کے سر میں تیل لگا کر، کبھی کچھ اضافی خدمت کر کے، انکی باتوں کو درگزر کر کے، کبھی محبت کے دو چار بول ،بول کر ان کا دل جیتنے کی کوشش کرنے میں کیاہو جاتا۔ محبت اور توجہ ایسی چیز ہے جو کسی کو بھی اپنا بنا سکتی ہے۔ شوہر کے سامنے اس کی ماں کے خلاف ایسے سخت الفاظ نہیں بولنے چاہیے تھے۔ ماں چاہے جیسی بھی ہو بیٹا اس کے خلاف سن نہیں سکتا یاد رکھیں رشتے نبھانا ہی اس دنیا کا ایک بڑا امتحان ہے۔