پانچویں تعلیمی بورڈ سے بھی کمشنر فارغ، حکومتی اقدام غلط ثابت

March 05, 2024

کراچی(سید محمد عسکری ) سندھ کے پانچویں تعلیمی بورڈ میں بھی کمشنر کو فارغ کردیا گیا ہے اس طرح صوبے میں مستقل چیئرمین کے بجائے کمشنر لگانے کا سندھ حکومت کا اقدام مکمل طور پر غلط ثابت ہوا۔ پیر کو سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں اعلی ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کے چئیرمین پروفیسر نسیم نے عہدے کا دوبارہ چارج سنبھال لیا اور کمشنر کراچی سلیم راجپوت بھی رخصت ہوگئے ۔اس سے قبل لاڑکانہ تعلیمی بورڈ میں لگائے گئے کمشنر کو بھی فارغ کر کے قائم مقام چیرمین سکندر میر علی جت کو بحال کردیا گیا تھا جب کہ نوابشاہ تعلیمی بورڈ سے بھی کمشنر کو فارغ کر کے ڈاکٹر فاروق حسن کو چئیرمین کے عہدے پر بحال کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح حیدرآباد تعلیمی بورڈ اور سکھر تعلیمی بورڈز سے بھی کمشنرز کو فارغ کر کے قائم مقام اور ڈیپوٹیشن پر تعینات چئیرمین بحال کئے ہوچکے ہیں اس طرح سندھ حکومت کا صوبے کے تعلیمی بورڈز میں چئیرمین لگانے کا اقدام بری طرح ناکامی سے دوچار ہوگیا ہے۔ جب کہ گزشتہ 12 برس سے حیدرآباد میں او پی ایس پر تعینات قائم مقام کنٹرولر مسرور احمد زئی اور ڈیپوٹیشن پر تعینات بورڈ کے سیکرٹری شوکت علی خانزادہ جو کالج ایجوکیشن سے تعلق رکھتے ہیں عدالت سے بحال ہوچکے ہیں۔ نگراں اور موجودہ حکومت نے سابق وزیر اسماعیل راہو کی جانب سے سفارشی اور سیاسی بنیادوں پر لگائے گئے افسران کو ہٹانے سے متعلق کوئی تیاری نہیں کی اور ان کی جگہ سرچ کمیٹی کے زریعے میرٹ پر مستقل افسران کے بجائے کمشنرز لگادیئے اور پھر یہ لگائے گئے کمشنرز عدالتوں سے فارغ ہوگئے محکمہ بورڈز و جامعات کے فیصلوں کے خلاف عدالت سے آسانی سے اسٹے مل جاتا ہے اور محکمہ وہ اسٹے بھی ختم نہیں کراپاتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ چئیرمین سرچ کمیٹی ڈاکٹر طارق رفیع نے سندھ کے تمام تعلیمی بورڈز میں، چیرمین، کنٹرولر، سکریٹری اور آڈٹ افسر لگانے کے لیے اشتہار دیا اور سرچ کمیٹی میں دو ماہرین کے نام بھی بھیجے مگر نگراں وزیر اعلیٰ سندھ نے ایک ماہ تک سمری روکے رکھی اور جب کراچی میں انٹر سال اول کے طلبہ کو فیل کرنے کا معاملہ شروع ہوا تو چیئرمین ایچ ای سی کے سرچ کمیٹی کے لیے نام مسترد کرکے دو نئے نام شامل کردیئے گئے مگر اس تاخیر کی وجہ سے بھرتی تو دور کی بات ہے درخواستوں کی اسکروٹنی کا عمل بھی مکمل نہیں ہوا اور پھر اس تاخیر کے باعث ان بھرتیوں پر اسٹے ہوگیا اور اب یہ اسٹے کب ختم ہوگا اور یہ معاملہ کب تک چلے گا اس سے محکمہ بورڈ و جامعات خود بھی لاعلم ہے۔