گوار کی کاشت

June 01, 2018

نوید عصمت کاہلوں

گوار ایک پھلی دار فصل ہے۔ جو کہ صدیوں سے اپنی اہمیت کی وجہ سے برصغیر پاک و ہند میں کاشت کی جاتی ہے۔ دنیا میں پیدا ہونے والے گوار کا قریباً 95فیصد حصہ برصغیر پاک و ہند میں پیدا ہوتا ہے۔ اس میں لحمیاتی مادہ (پروٹین) قریباً 35 فیصد تک پایا جاتا ہے۔ جو کہ جانوروں کے گوشت میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے گوار کو غیر پھلی دار چارہ جات مثلاً جوار، باجرہ اور مکئی وغیرہ کے ساتھ ملا کر بھی کاشت کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کو سبزی اور دال کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ گوار کی فصل بطور سبز کھاد زمین کی زرخیزی بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ گوار کی فصل ایک سیزن میں فضا سے 300 پائونڈ نائٹروجن کا زمین میں اضافہ کرتی ہے۔ گوار کی فصل ملک دوست، کسان دوست، زمین دوست اور ماحول دوست ہے۔

’’گوار چونکہ پھلی دار فصل ہے۔ اس لیے اس کو زیادہ کھاد کی ضرورت نہیں پڑتی۔ البتہ اگر بوقت کاشت ایک بوری ڈی اے پی اور پھول آنے پر آدھی بوری یوریا فی ایکڑ ڈال دی جائے تو اچھی پیداوار حاصل ہوتی ہے۔‘‘

اس فصل کی کاشت، دیکھ بھال اور برداشت پر زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی۔ اس لیے یہ فصل کم خرچ بالانشین ہے۔ اس کے بیج میں ایک خاص قسم کا گوند (گوارگم) پایا جاتا ہے۔ جو کہ پوری دنیا میں ٹیکسٹائل، بیکری، گن پائوڈر، پیپر، کاسمیٹکس، تمباکو، بارود، مرغیوں، مچھلیوں اور مویشیوں کی خوراک، ادویات، خوراک اور دیگر بہت سی صنعتوں میں وسیع پیمانے پر کھودے جانے والے کنوئوں میں بہت زیادہ مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ طب میں گوار کا استعمال صدیوں سے ہورہا ہے خاص طور پر دل کی بیماریوں ، شوگر اور رات کے اندھے پن کیلئے انتہائی مفید ہے۔ پنجاب میں گوار کی کاشت زیادہ تر میانوالی، سرگودھا، بھکر، جھنگ، لیہ، بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان کے اضلاع میں کی جاتی ہے۔ اس کی کاشت کیلئے گرم اور خشک آب و ہوا درکار ہوتی ہے۔ اس کا پودا نہایت سخت جان ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے سخت گرمی اور پانی کی قلت کو کافی حد تک برداشت کرلیتا ہے اور پانی کی زیادتی تو بالکل برداشت نہیں کرتا۔ گوار کی کاشت کیلئے ریتلی میرا زمین جہاں پانی کا نکاس اچھا ہو موزوں ہوتی ہے۔ یہ کلراٹھی زمینوں کے علاوہ باقی تمام زمینوں میں کاشت کیا جاسکتا ہے۔ اس کی کاشت عموماً ریتلے اور کم بارش والے علاقوں میں کی جاتی ہے لیکن آبپاش علاقوں میں اس کی کاشت کامیابی سے کی جاسکتی ہے۔ بہتر پیداوار کیلئے زمین کا ہموار ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ نشیبی جگہوں پر پانی کھڑا نہ ہوسکے اور اگائو بھی بہتر ہو۔ اس کیلئے دو مرتبہ ہل اور سہاگہ چلا کر زمین تیار کرنی چاہیے تاکہ زمین جڑی بوٹیوں سے بھی پاک ہوجائے اور اچھی پیداوار حاصل ہو۔ گوار کی کاشت کا موزوں ترین وقت چارہ کیلئے اپریل سے جولائی اور بیج کیلئے شروع جون سے آخر جولائی تک ہے۔ سبز کھاد کیلئے فصل مئی کے مہینے میں کاشت کرنی چاہیے۔ تھل اور بارانی علاقوں میں فصل عام طور پر ماہ جولائی کے آخر تک یا بارشوں کے آنے پر کاشت کی جاتی ہے۔ ایگریکلچر ریسرچ اسٹیشن، بہاولپور کی تیار کردہ گوار کی دو منظور شدہ اقسام میں BR-99اور BR-2017شامل ہیں۔ گوار کی سبز کھاد اور چارے والی فصل کیلئے شرح بیج 20 تا 25 کلو گرام ہے اور بیج والی فصل کیلئے 8 تا 10 کلو گرام بیج فی ایکڑ استعمال کرنا چاہیے۔ بیج جاندار، خالص، تصدیق شدہ اور صحیح اگائو کا حامل ہونا چاہیے۔ اگر بیج ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کیلئے پانی میں بھگو کر سائے میں خشک کرلینے کے بعد کاشت کیا جائے تو اگائو جلد ہوجاتا ہے۔ گوار کو چارے کیلئے عام طور پر بذریعہ چھٹہ کاشت کیاجاتا ہے۔ بیج والی فصل کو قطاروں میں ایک تا ڈیڑھ فٹ کے فاصلہ پر کاشت کرنا بہترین نتائج کا حامل ہوتا ہے۔ بیج کو ہمیشہ تر وتر میں کاشت کیاجائے۔ اس سے اگائو بھی بہتر ہوتا ہے۔ پودے کا درمیانی فاصلہ چھ انچ رکھا جاتا ہے۔ اس طرح قریباً 58000 سے 60000 پودے فی ایکڑ حاصل ہوتے ہیں جس سے بہتر پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ گوار کی قطاروں میں کاشت کیلئے ابھی تک کوئی مخصوص ڈرل موجود نہیں ہے البتہ گندم والی ڈرل کا ایک ایک سوراخ بند کرنے اور دوسرا سوراخ کھلا رکھنے سے ڈیڑھ فٹ کے فاصلہ پر قطاروں میں کاشت کامیابی سے کی جاسکتی ہے جس سے گوڈی کرنے، جڑی بوٹیوں کو کنٹرول کرنے اور کیڑوں کے خلاف سپرے کرنے میں بھی آسانی ہوتی ہے جبکہ چھٹہ کی صورت میں یہ تمام عوامل مشکل سے انجام پاتے ہیں۔ آبپاش اور زیادہ بارش والے اور سخت زمین والے علاقوں میں گوار کی فصل کھیلیاں بنا کر کاشت کی جاسکتی ہے اس سے بارش کی صورت میں پانی کا نکاس بنا کر پانی لگانے کے بعد کھیلیوں کے دونوں طرف چھ چھ انچ کے فاصلہ پر ہاتھ سے چوپے لگا دیئے جائیں۔ اس طریقے سے شرح بیج دس کلو گرام کی بجائے پانچ سے چھ کلو گرام بیج درکار ہوتا ہے لیکن اس طریقہ کاشت میں جڑی بوٹیوں کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔ جسے مناسب جڑی بوٹی مار سپرے سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ گوار چونکہ پھلی دار فصل ہے۔ اس لیے اس کو زیادہ کھاد کی ضرورت نہیں پڑتی۔ البتہ اگر بوقت کاشت ایک بوری ڈی اے پی اور پھول آنے پر آدھی بوری یوریا فی ایکڑ ڈال دی جائے تو اچھی پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ ڈی اے پی زمین تیار کرتے وقت بذریعہ چھٹہ زمین میں ملا دینے سے اچھے نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ جبکہ بوائی کے بعد ڈی اے پی ڈالنے کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا۔ گوار کی کاشت کیلئے زمین میں وتر آنے پر ہل چلانے سے پہلے اگر جڑی بوٹی مار دوا مثلاً پینڈی میتھلین بحساب ڈیڑھ لٹر فی ایکڑ 100لٹر پانی میں ملا کر سپرے کر دیا جائے تو جڑی بوٹیوں سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ کھیلیوں پر کاشت کرنے کی صورت میں بوائی کے بعد دوائی کا سپرے جڑی بوٹیوں کے خلاف موثر کنٹرول دیتا ہے۔ گوار کی فصل پانی کی قلت کو کافی حد تک برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے مگر موزوں وقت پر آبپاشی اچھی پیداوار کا باعث بنتی ہے۔ بارانی علاقوں میں آبپاشی کیلئے مکمل طور پر بارش پر انحصار کیا جاتا ہے۔ جبکہ نہری علاقوں میں اچھی پیداوار حاصل کرنے کیلئے تین مرتبہ پانی دینا بہت ضروری ہے۔ پہلا پانی اگائو کے ایک سے ڈیڑھ ماہ بعد، دوسرا پانی پھول بننے پر اور تیسرا پانی پھلیاں بننے پر دیا جانا چاہیے۔ بارشوں کی صورت میں کم آبپاشی کی ضرورت ہے۔ اگر بارش کا پانی کھیت میں کھڑا ہوجائے تو پانی کو کھیت سے فوراً نکال دیں ورنہ پودے مرجاتے ہیں۔ گوار کی فصل پر سنڈیوں کا حملہ نہیں ہوتا۔ البتہ اس پر رس چوسنے والے کیڑوں مثلاً سفید مکھی، سبز تیلا وغیرہ کا حملہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جس کے کنٹرول کیلئے محکمہ زراعت کے عملہ کی مشورے سے سپرے کریں۔ اس کے علاوہ بعض اوقات اس فصل میں سوکا کی بیماری بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ جس کا تدارک فصلوں کے ہیر پھیر سے کیاجاسکتا ہے۔ اس فصل پر پھپھوندی سے پھیلنے والی بیماریاں بھی حملہ آور ہوتی ہیں۔ جن کو پھپھوندی کش ادویات کے استعمال سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ بیمار پودوں کا پلانٹ پتھالوجی لیبارٹری بہاولپور اور فیصل آباد میں تجزیہ کروا لینا چاہیے۔ بوائی سے پہلے بیج کو پھپھوندی کش ادویات لگا کر کاشت کرنے سے بھی بیماریوں کو کافی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ بیج والی فصل قریباً 80 تا 90 فیصد پھلیوں کے پک جانے پر کاٹ لینی چاہیے۔ اس فصل کو کچھ عرصہ کیلئے چھوٹی چھوٹی ڈھیریوں کی شکل میں خشک کرکے گندم والی تھریشر کے ذریعے بیج نکال لینا چاہیے۔ اس بیج کو سٹور کرنے سے قبل ایک دو دن دھوپ لگا کر مزید خشک کرلینا چاہیے۔ گوار کو براہ راست تھریشر سے گزارنے پر ڈیزل زیادہ خرچ ہونے کے علاوہ وقت بھی زیادہ خرچ ہوتا ہے اور بعض اوقات تھریشر کے کٹر وغیرہ ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے جس سے بچائو کا طریقہ یہ ہے کہ گوار کی فصل کو کاٹنے کے بعد ڈھیریاں لگا کر ان کے اوپر ٹریکٹر چلا لیا جائے تاکہ تنے اور پھلیاں الگ الگ ہوجائیں اس کے بعد صرف پھلیوں کو تھریشر میں سے گزار لیا جائے تو ڈیزل اور وقت کی بچت کے علاوہ صاف ستھرا بیج حاصل ہوتا ہے۔ جبکہ چارے والی فصل کو 45 تا 60 دن کے اندر جب وہ مناسب قد کی ہوجائے (پھول اور پھلیاں بنتے وقت) کاٹ لینا چاہیے۔ نہری علاقوں میں گوار سے 250 تا 300 من سبز چارہ فی ایکڑ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ بارانی علاقوں میں 150 تا 200 من سبز چارہ فی ایکڑ حاصل کیاجاسکتا ہے۔