میچ فکسنگ کیخلاف باضابطہ قانون بنانے کی تیاریاں

April 28, 2020

دنیائے کرکٹ 1994میں آسٹریلوی ٹیم کے دورہ پاکستان کے چند ماہ بعد اس وقت ایک بڑے اسکینڈل کی زد میں آگئی جب آسٹریلیا کے تین کرکٹرز شین وارن،ٹم مے اور مارک وا نے اس وقت پاکستان کے کپتان سلیم ملک پر الزام لگایا کہ سلیم ملک نے انہیں میچ فکسنگ کی براہ راست پیشکش کی تھی۔آسٹریلوی اخبار سے منظر عام پر آنے والی اس اسٹوری کا چرچہ چھ سال رہا۔پہلے جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے تینوں کرکٹرز کی غیر حاضری کے باعث سلیم ملک کو بے گناہ قرار دےدیا۔

جب یہ معاملہ طول پکڑا تو حکومت پاکستان نے لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس ملک محمد قیوم پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جس نے کئی ہفتوں کی تحقیقات کے بعد سلیم ملک پر تاحیات پابندی لگادی ،کئی کھلاڑیوں پر جرمانے عائد کئے گئے۔آسٹریلوی کرکٹرز کے الزامات کے بعد کولمبو میں تین ملکی ٹورنامنٹ اور اس کے بعد کئی اور سیریز میں بہت سارے کرکٹرز نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔

راشد لطیف اور باسط علی بھی ساتھی کھلاڑیوں پر الزامات لگاتے رہے۔عامر سہیل ایک بار آدھی رات کو اچانک لاہور کا ہوٹل چھوڑ کر گھر چلے گئے اورآسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ کی کپتانی سے انکار کردیا۔1999کے ورلڈ کپ میں بنگلہ دیش اور آسٹریلیا کے خلاف فائنل میں شکست پر جسٹس کرامت نذیر بھنڈاری کمیشن قائم ہوا جس نے ایک تحقیقات کیںتحقیقات میں پاکستانی کھلاڑی بے قصور پائے گئے۔مئی2000میں ملک قیوم کی سفارشات پر اس وقت کے پی سی بی چیئرمین لیفٹنٹ جنرل توقیر ضیاء نے من وعن عمل درآمد کیا۔یہ وہ دور تھا جب آئی سی سی کا اینٹی کرپشن کوڈ نہیں بنا تھا۔

سلیم ملک اور دیگر کھلاڑیوں کے خلاف جب ملک محمد قیوم تحقیقات کررہے تھے اسی وقت بھارت میں محمد اظہر الدین کے خلاف بھی میچ فکسنگ کی تحقیقات ہورہی تھی۔اظہر الدین پر بھی تاحیات پابندی لگائی گئی۔2001میں آئی سی سی نے پہلی بار اپنا اینٹی کرپشن کوڈ نافذ کیا اور آئی سی سی کے پہلے اینٹی کرپشن سربراہ پال کنڈن بنے۔اسی دوران جنوبی افریقا کے کپتان ہنسی کرونئےکا بدنام زمانہ اسکینڈل آیا۔کرونئے نے روتے ہوئے اپنے جرم کا اعتراف کیا پھر چند دن بعد وہ ایک پرائیویٹ جہاز کے حادثے میں پر اسرار طور پر ہلاک ہوگئے۔

سلیم ملک سے شروع ہونے والی پاکستانی کرکٹ کرپشن کی غضب کہانی آج تک جاری ہے۔محمد عامر،سلمان بٹ،محمد آصف،دانش کنیریا،شرجیل خان،خالد لطیف،ناصر جمشید،شاہ زیب حسن،محمد عرفان اوراب عمر اکمل کانام میچ فکسنگ اور اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میںآیا۔عمر اکمل کےکیس سے قبل کئی کھلاڑیوں کو سزائیں ملیں لیکن یہ سلسلہ رک نہ سکا۔عمر اکمل جو پہلے یہ کہتے رہے کہ مجھے 2015کے ورلڈ کپ میں بھارتی سٹے بازوں اور پھر کنیڈین لیگ میں سابق ٹیسٹ بیٹسمین منصور اختر نے اسپاٹ فکسنگ کی پیشکش کی ۔لیکن فروری میں ایک اور کیس میں پیشکش کو رپورٹ نہ کرنے کے جرم میں پھنس گئے ہیں اور ان کے کیس کا فیصلہ ہونا ہے۔

ایک دور تھا جب ایک آسٹریلوی چینل نے ایک دستاویزی فلم میں دکھایا کہ کراچی میں رمضان ٹورنامنٹ میں عام تماشائی کس طرح میچوں پر شرطیں لگارہے ہیں اور کیش کا آپس میں تبادلہ کررہے ہیں۔پی این ایس سی اورکراچی کے ایک اور بیٹسمین ناصر واسطی کی سپر ہائی وے پر ٹرک حادثے میں پراسرار موت کا معمہ بھی حل نہیں ہوسکا ہے۔پاکستان کے ایک انٹر نیشنل کرکٹر سلیم پرویز بیجی نے1994میں کولمبو جاکر ایک پاکستانی کرکٹر کو نوٹوں کا بریف کیس دیا ۔اس واقعے کی بھی جسٹس قیوم کمیشن میں بازگشت سنائی دی پھر لاہور کی ایک سڑک پر سلیم پرویز موٹر سائیکل کے حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔یہ ایسی کئی کہانیاں ہیں جن کا تذکرہ گذشتہ تین دہائیوں سے سننے میں آرہا ہے کھلاڑیوں کو سزائیں دی جاتی ہیں لیکن کرکٹ کرپشن کا سلسلہ روکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔یہ معاملہ اس لحاظ سے افسوس ناک ہے کہ کرپشن میں ملوث سب سے زیادہ کرکٹرز پاکستانی ہیں۔جبکہ ہانگ کانگ ،متحدہ عرب امارات ،انگلینڈ اور کئی ملکوں میں پاکستانی نژاد کرکٹرز کو سزا ہوچکی ہے۔

ملک میں بڑھتے ہوئے کرکٹ کرپشن واقعات کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے ملک میں کرکٹ کرپشن کے بارے میں قانون سازی کرنے کی تجویز دی ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کی تجویز پر عمل درآمد ہوگیا تو پاکستان ایشیا میں سری لنکا کے بعد دوسرا ملک بن جائے گا جہاں کرکٹ کرپشن مجرمانہ فعل ہوگا۔پی سی بی چیئرمین احسان مانی کا کہنا ہے کہ ملکی سطح پر میچ فکسنگ کیخلاف ملکی قوانین کی حمایت کرتے ہیں۔ کرکٹ میں کرپشن کی بالکل گنجائش نہیں ہونی چاہئےہمارا زیرو ٹالرنس ہے ۔میں نے حکومت سے بات کی ہے کہ اس کو قانونی طور پر جرم قرار دے دیا جائے۔ دوبارہ حکومت سے کہوں گا کہ میچ فکسنگ کیخلاف باضابطہ قانون بنایا جائے ۔

قانونی جرم بنانے کے بعد اداروں کیلئے اس کی تحقیقات کرنا آسان ہوجائے گا ۔احسان مانی نے کہا کہ میچ فکسنگ کو قانونی جرم قرار دیا جائے۔نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے بعد اس بارے میں سری لنکا نے قانون سازی کی ہے سری لنکا کی پارلیمنٹ سے قانون کو پاس کرایا ہے اس وقت تک ہمارے پاس منی ٹریل اور بہت ساری چیزوں کے لئےہمارے اداروں اور پی سی بی کو قانونی رسائی کی ضرورت ہے۔شرجیل خان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ میں کسی فرد واحد پر بات نہیں کروں لیکن کوئی کھلاڑی جرم پر پابندی گذار چکا ہے تو ایک جرم پر دو سزائیں نہیں دی جاسکتی۔سزا پوری کرنے کے بعد کوئی بھی فارم اور فٹنس پر ٹیم میں آسکتا ہے۔

شرجیل خان کیس بھی پی سی بی کے لئے ٹیسٹ کیس ہے۔پاکستان ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق نے کہا کہ پاکستانی کرکٹرز کے ساتھ زیادہ تر معاملہ مشکوک پیشکش کی رپورٹ نہ کرنے کا ہے جیسا کہ عمراکمل نے کیا۔ بعض اوقات کھلاڑی اس بات کو سمجھ نہیں پاتے اور بعض اوقات وہ اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لیتے اور مشکل میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔مصباح الحق سے جب محمد حفیظ کے اس ٹوئٹ کے بارے میں پوچھا گیا جو انہوں نےا سپاٹ فکسنگ میں سزا یافتہ کرکٹر شرجیل خان کی پاکستانی ٹیم میں ممکنہ واپسی کے بارے میں کیا تھا جس پر کرکٹ بورڈ نے ان کی سرزنش بھی کی تو مصباح الحق کا کہنا تھا کہ یہ ایک اہم معاملہ ہے جس پر آئی سی سی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو غور کرنا ہوگا اور اگر اپنے قوانین میں کرپٹ کرکٹرز کی واپسی روکنے کے بارے میں کوئی شق رکھنی ہے تو اس بارے میں کافی سوچ بچار کے بعد فیصلے کی ضرورت ہے۔

شرجیل خان ا سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کی پاداش میں ڈھائی سالہ پابندی مکمل ہونے کے بعد کرکٹ کے میدانوں میں واپس آئے ہیں۔ ابتدائی مرحلے میں انھوں نے پاکستان سپر لیگ میں کراچی کنگز کی نمائندگی کی لیکن ظاہر ہے خود ان کا اصل ہدف بین الاقوامی کرکٹ ہے۔شرجیل خان کے لیے پاکستان سپر لیگ اگرچہ بہت زیادہ کامیاب نہیں رہے لیکن ڈھائی سال کرکٹ سے دور رہنے کے بعد انھیں جس اعتماد کی ضرورت تھی اسے وہ بڑی حد تک بحال کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

شرجیل خان نے پاکستان سپر لیگ میںلاہور قلندرز کے خلاف میچ میں انھوں نے پانچ چھکوں اور پانچ چوکوں کی مدد سے ناقابل شکست 74 رنز بنائے۔ جن اننگز میں وہ بڑا اسکور نہ کرسکے، ان میں بھی ان کے مخصوص جارحانہ انداز کی جھلک دیکھنے میں ضرور آئی۔شرجیل خان پاکستان سپر لیگ کے پانچویں سیزن میں مجموعی طور پر 16 چھکے لگانے میں کامیاب ہوئے جو کرس لِن اور شین واٹسن کے ساتھ مشترکہ طور پر دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ چھکے تھے۔ سب سے زیادہ 23 چھکے بین ڈنک نے لگائے تھے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف کے خیال میں شرجیل خان کی پاکستانی ٹیم میں واپسی اتنی آسان نہیں ہوگی لیکن اس واپسی کا تمام تر انحصار پاکستان کرکٹ بورڈ اور مصباح الحق پر ہوگا۔

شرجیل خان نے 2009 میں فرسٹ کلاس کرکٹ کا آغاز حیدرآباد کی طرف سے اسلام آباد کے خلاف سنچری کے ساتھ کیا تھا۔فرسٹ کلاس کرکٹ میں وہ11 سنچریاں بنا چکے ہیں۔شرجیل خان اب تک ایک ٹیسٹ، 25 ون ڈے انٹرنیشنل اور 15 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ون ڈے انٹرنیشنل میں وہ پاکستان کی طرف سے چوتھی بڑی اننگز کھیلنے والے بیٹسمین ہیںان کے کریئر کا اہم موقع وہ تھا جب 2017 میں انھوں نے آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے سیریز میں تین نصف سنچریاں بنائیں۔یہ وہ وقت تھا جب انگلش کاؤنٹی لیسٹر شائر نے ان سے ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں کھیلنے کا معاہدہ کیا تھا۔ اسی طرح بگ بیش کے دروازے بھی ان پر کھلنے والے تھے لیکن ا سپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے سب کچھ ہی بدل ڈالا۔

اب پی سی بی چیئرمین احسان مانی اس بارے میں قانون سازی کرنے کے لئے کام کررہے ہیں۔عمران خان کرپشن کے خلاف ایجنڈا لے کر حکومت میں آئے۔اگر ان کی حکومت کرکٹ کرپشن پر قانون سازی کر نے میں کامیاب ہوگئی تو ہوسکتا ہے کہ کرکٹ کرپشن میں کمی آئے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جسٹس قیوم کمیشن کی رپورٹ پاکستان کرکٹ کا سیاہ باب ہے۔مشتا ق احمد کے حوالے سے ضمنی رپورٹ کا منظر عام پر نہ آنا بھی کئی سوالات کو چھوڑ گیا ہے۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس بارے میں جتنی جلدی قانون سازی کر لی جائے اس سے پاکستان کرکٹ کو فائدہ ہوگا اور مستقبل میں کوئی اور سلیم ملک،سلمان بٹ اور شرجیل خان اس گھنائونے جرم کا ارتکاب کرنے سے پہلے کئی بار سوچے گا۔