عشق کا قافلۂ سخت جاں

February 26, 2021

مسلمانوں کی فطرت میں عشق و مہر کی حکمرانی ہے اور اِسی کی آگ سے اِس کا وجود رَوشن رہتا ہے۔ حضرتِ اقبالؔ کی پوری شاعری اِسی تصور کے گرد گھومتی ہے جو بڑی سادگی سے رازِحیات افشا کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں؎

بجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے

مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے

خِرد کو غلامی سے آزاد کر

جوانوں کو پیروں کا استاد کر

مَیں نے اپنی تاریخ میں اہلِ عشق اور اہلِ ایمان کے بہت سارے تذکرے پڑھے ہیں اور اَپنی زندگی میں قافلۂ عشق سے قریبی شناسائی رہی ہے جس میں چٹانوں کی طرح مضبوط مشاہد اللہ خاں اور دَریاؤں کے طوفانوں کی مانند بلاخیز حافظ سلمان بٹ شامل تھے۔ اُنہی کے بارے میں شاعرِمشرق نے کہا تھا ؎

عشق کی اِک جست نے طے کر دیا قصہ تمام

اِس زمین و آسماں کو بےکراں سمجھا تھا مَیں

فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا

نہ ہو نگاہ میں شوخی، تو دلبری کیا ہے

اِن دونوں شخصیات میں کئی چیزیں مشترک تھیں۔ ان کا تعلق درمیانے طبقے سے تھا۔ وہ طالبِ علمی کے زمانے ہی میں قیادت کے منصب پر فائز ہو گئے تھے۔ دونوں کو اپنے نظریات اور اَپنے قائدین سے ایک گونہ عشق تھا۔ دونوں ہی اپنے عہد کے زورآوروں سے ٹکراتے اور اَپنی اخلاقی طاقت کا سکّہ جماتے رہے، دونوں ہی بلا کے مقرر تھے جو ایک سماں باندھ دیتے تھے۔ دونوں نے تقریباً ایک ہی جیسی ذہنی اور اَخلاقی فضا میں تربیت پائی تھی۔ مجھے دونوں ہی کو نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملا اَور مَیں بےاختیار اَللہ تعالیٰ کی فیاضیوں پر اش اش کر اُٹھتا تھا۔ اُ ن سے اعلیٰ روایات کا قافلہ رواں دواں رہا اَور طاغوتی قوتیں لرزہ براندام رہتی تھیں۔

مشاہد اللہ خاں کا خاندان مرادآباد (یو پی) سے 1947ء میں ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا۔ اُن کے والدین جماعتِ اسلامی سے وابستہ تھے۔ مشاہد اللہ، راولپنڈی میں 1953ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔ گورڈن کالج تک پہنچے، تو طالبِ علموں کے لیڈر شمار ہونے لگے۔ اُنہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ میں سرگرم حصہ لیا اور جوانوں کی سرگرمیوں میں نمایاں ہوتے گئے۔ پھر وہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کراچی چلے گئے۔ مرزا اَفضل جو راولپنڈی میں اُن کے قریبی ساتھی تھے، پی آئی اے میں کام کر رہے تھے۔ اُنہی کی ترغیب پر مشاہد اللہ نے پی آئی اے کی ملازمت اختیار کی جو ایک قابلِ فخر قومی ادارہ تھا۔ بدقسمتی سے اُس کی ٹریڈ یونین پر بائیں بازو کا سالہاسال سے قبضہ چلا آ رہا تھا جو کسی دوسری ٹریڈ یونین کو سر اُٹھانے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ حافظ اقبال کی سربراہی میں ’پیاسی‘ کے نام سے ایک متبادل یونین قائم کی گئی تھی، مگر طفیل عباس بڑے طاقتور تھے اور اُنہی کی یونین طاقت کے بل بوتے پر ریفرنڈم جیتتی چلی آ رہی تھی۔ ہفت روزہ زِندگی 1969ء کے وسط میں جاری ہوا، تو مَیں نے طفیل عباس کی تمام تہ در تہ سرگرمیوں کا کچاچٹھا شائع کر دیا جو بیشتر لوگوں کے لیے حیران کُن تھا۔ اُس کے جواب میں اُنہوں نے مجھے غلیظ گالیوں سے نوازا اَور اَپنے سرکاری جریدے میں میرے متعلق بےسروپا باتیں شائع کیں۔ مَیں نے سنجیدہ لہجے میں مزید حقائق بیان کیے، تو فضا بدل گئی۔ چند روز بعد ریفرنڈم ہوا، تو پہلی بار ’پیاسی‘ بڑے مارجن سے کامیاب ہوئی۔

آگے چل کر جناب مشاہد اللہ خاں پیاسی کے صدر منتخب ہوئے۔ بعدازاں وہ قومی سیاست کے میدان میں اتر آئے اور مسلم لیگ نون میں شامل ہو گئے۔ اِس کے بعد پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ جمہوریت کے زبردست شیدائی اور آمریت کے سخت مخالف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا، تو اُس کے خلاف مظاہرہ کرنے والے بھی جی دار مشاہد اللہ خاں تھے۔ اُن پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، مگر وہ ثابت قدم رہے۔ وہ آزمائشوں کی بھٹی سے گزرتے ہوئے سینیٹر اور وَزیر کے مناصب تک پہنچے۔ حال یہ تھا کہ اُن کا اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اُن کو سادہ زِندگی میں بڑی طمانیت حاصل تھی۔ اُنہوں نے 2015ء میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا ایک ایسا راز فاش کر دیا جس کے باعث اُنہیں وزارت کو خیرباد کہنا پڑا۔ اِس سے قبل اُنہیں سرطان کا موذی مرض لاحق ہو چکا تھا جس کا اُنہوں نے بڑی مردانگی اور کشادہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ اُنہیں بلامبالغہ دیوان کے دیوان اَزبر تھے اور جب وہ سینیٹ میں اشعار کی بارش کرتے، تو حکمرانوں پر لرزہ طاری ہو جاتا۔ وہ ایک مثالی زندگی بسر کر کے اِسی ماہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں۔

حافظ سلمان بٹ، خواجہ طفیل کے صاحبزادے تھے جو پولیس فورس میں اعلیٰ افسر تھے۔ اُن کی فرض شناسی اور دَیانت داری کا باخبر حلقوں میں بڑا چرچا تھا۔ حافظ صاحب نے اسلامی جمعیت طلبہ سے اپنی طالبِ علمانہ سرگرمیوں کا آغاز کیا ، اَپنی خطابت کے جوہر دکھائے اور اَپنے اندر قائدانہ اوصاف پیدا کرنے کے لیے بڑی ریاضت کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد جماعتِ اسلامی کا ایک اہم حصّہ بن گئے اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کی قیادت میں بلند نصب العین کے لیے سردھڑ کی بازی لگانے کی تربیت حاصل کی۔ اُنہوں نے 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں حصّہ لیا اور لاہور کی نمایاں سیاسی شخصیت میاں صلاح الدین (صلّی) کو شکست سے دوچار کیا اور قومی اسمبلی میں دانش مندانہ کردار اَدا کیا۔ سیاسی حلقے اِس معرکے پر دنگ رہ گئے۔ اِس کے بعد 2002ء کے انتخابات میں میاں محمد اظہر کو شکست دی جن کی قیادت میں قاف لیگ منظم کی گئی تھی۔ حافظ صاحب ریلوے کی پریم یونین کے متعدد بار صدر منتخب ہوئے اور مزدوروں کی فلاح و بہبود اور اَخلاقی تربیت میں طویل عرصے تک قائدانہ کردار اَدا کرتے رہے۔ وہ لاہور کے امیرِ جماعتِ اسلامی بھی رہے اور نوجوانوں میں عقابی روح بیدار کرنے میں شب و روز منہمک رہے۔ اُن کی پُرعزم اور پاکیزہ شخصیت سے شر کی طاقتیں سہمی رہتی تھیں۔ شوگر کے مریض ہونے کے باعث اُن کی بینائی متاثر ہوئی اور وُہ گزشتہ ماہ ﷲ کی رضا پر قانع رہنے والے ایک شخص کا گہرا نقش چھوڑ گئے۔ ہماری اپنے رب کے حضور دُعا ہے کہ اُن دونوں کی مغفرت فرمائے اور اُن کے درجات بلند فرمائے۔