• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعجب ہے کہ ایک شخص کو دنیا سے سدھارے چالیس برس ہورہے ہیں تو دنیا کو یہ احساس ہور ہا ہے کہ وہ عام قیاس سے بھی کہیں زیاد ہ با کمال گلوکار تھا۔ 

آج پورے ملک میں جگہ جگہ پرانے گانو ں کی محفلیں آراستہ ہیں اور خدا جانے کہاں کہاں سے کتنے ہی نوجوان نمودار ہوئے ہیں جن کو قدرت نے رفیع جیسا گلا اور ان ہی جیسی آواز عطا کی ہے۔ 

سوشل میڈیا پر رفیع کے گائے ہوئے نئے پرانے گانے گائے جا رہے ہیں اور ایک دنیا ان گانوں کا دم بھر رہی ہے۔ان گلوکاروں میں لڑکیاں بھی ہیں جن کی تانیں اُتنی اونچی ہیں جن کی بلندیوں نے محمد رفیع کو شہرت اور عزت عطا کی تھی۔

ہم نے انٹرنیٹ پر موسیقی کی ایک محفل دیکھی جس میں رفیع کے گائے ہوئے نغمے گائے جارہے تھے اور پیچھے دیوار پر لکھا تھا:اَلٹی میٹ سنگر، یعنی گویّا جس پر گلوکاری تمام ہوئی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فلمی صنعت میں کندن لال سہگل کا بڑا نام ہے لیکن اس میدان میں جیسے جیسے ہنر رفیع نے دکھائے ان کی مثال نہیں ملتی۔

عام چلتے ہوئے گانوں سے لے کر کلاسیکی رنگ میں ڈوبے ہوئے گانے جس مہارت سے رفیع صاحب نے گائے اس کی قدر آج چالیس سال بعد ہی سہی مگر شکر ہے کہ زمانے کی چال بدل جانے کے باوجود نئی نسل بھی رفیع کی گائیکی کی قدر کر رہی ہے۔

ان کی سادگی، بھول پن، خاموشی اور کم گو ہونے کی اداسے باقی دنیا واقف نہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہ کتنے سادہ لوح تھے۔ ان سے سوال کرو تو جواب نہیں دے پاتے تھے اور گانے کو کہوتو گھبرا جاتے تھے۔ بھولے اتنے تھے کہ کسی کمپنی کے لئے گانا ریکارڈ کرایا اس سے پہلے ہر گانے کامعاوضہ فرض کیجئے آٹھ سو روپے تھا۔ 

گھر آکر نوٹ گنے تو وہ ایک ہزار تھے(کمپنی نے خود ہی نرخ بڑھا دیا تھا)فوراً ہی اپنے بیٹے کو دوڑایا کہ دو سو روپے واپس کرکے آؤ۔ کمپنی والوں نے بہت کہا کہ ریٹ بڑھ گیا ہے مگر بضد رہے کہ مجھ سے آٹھ سوروپے طے ہوئے تھے۔

پھر اسی معاوضے کے معاملے پر وہ واقعہ ہوا جو ہندوستان کی فلمی صنعت کے دامن پر سیاہ داغ بن کر رہے گا۔رائلٹی کے سوال پر لتا منگیشکر نے اصرار کیا کہ ریکارڈ جتنی بار نشر ہو، اتنی ہی بار رائلٹی ادا کی جائے۔ ہمارے بھولے بھالے محمد رفیع صاحب اختلاف کرنا کیا جانیں لیکن اُس روزضد کرنے لگے کہ جب معاوضہ کی رقم مل گئی تو اس کے بعد اور بار بار پیسے طلب کرنا مناسب نہیں۔

روایت یہ ہے کہ لتا منگیشکر اس پر برہم ہوئیں اور اتنی برہم ہوئیں کہ رفیع صاحب کا سوشل بائیکاٹ کردیا ، ایسا کہ معاشرہ تعلق توڑ لے اور انسان بھوکا مرے۔لتا نے اعلان کردیا کہ جو سازندہ رفیع کے ساتھ ساز بجائے گا اسے پھر لتا کے ساتھ بجانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

اس وقت تو ہر گانا لتا ہی گارہی تھیں۔سازندوں نے ہاتھ جوڑ لئے اور رفیع کے ساتھ ساز بجانے سے انکار کردیا اور کہا کہ ان کے گھرمیں فاقے ہوجائیں گے۔وہ بہت بُرا وقت تھا ۔ لتا جی نے دوسرے گلوکاروں کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ 

مثال کے طور پر مکیش کے بیٹے کو بڑھاوا دیا۔ وہ بے چارہ ناکام رہا، کشور کمار کو اوپر اٹھایا گیا۔ بات اتنی بڑھی کہ نوشاد علی صاحب نے مجھے بتایا کہ ایک روز رفیع ان کے گھر اس طرح پہنچے کہ ان کے آنسو رواں تھے۔ نوشاد نے انہیں پیار سے بٹھایا اور آہستگی سے پوچھا کہ کیا بات ہے۔ 

رفیع نے کہا کہ یہ اناڑی میوزک ڈائریکٹر مجھ سے کتوں اور بلیوں کی آوازیں نکلوا رہے ہیں اور یہ کہ میں بہت ہی معمولی گویّا ہوں۔نوشاد کہتے ہیں کہ میں اٹھا اور رفیع کے ریکارڈ لگا کر کہاکہ یہ آپ گا رہے ہیں۔دھیان سے سنئے کہ یہ آپ کی گائیکی ہے۔

اس کے بعد کیا ہوا، میںقیاس کر سکتا ہوں کہ سوشل میڈیا پر کچھ ایسے عنوان دیکھنے میں آئے: ڈارک سائیڈ آف لتامنگیشکر، لتا کی شخصیت کا تاریک پہلو۔سنا ہے اس واقعے کا لتا کو پچھتاوا رہا اور جس روز رفیع کا انتقال ہوا، لتا بارش میں بھیگتی ہوئی جیسے تیسے رفیع کے گھر تعزیت کے لئے پہنچیں اور دیر تک وہاں خاموش بیٹھی رہیں۔ 

بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ یہ بات طے ہے کہ رفیع کی زندگی میں جتنی قدر ہوئی سو ہوئی لیکن اپ چالیس سال بعد وہ قدر دو چند ہوگئی اور گلوکاری کو سمجھنے والے رفیع کی خوبیوں کو اب پہلے سے زیادہ پرکھنے لگے ہیں۔

آئیے ان کے گائے ہو ئے کچھ ایسے نغموں پر نگا ہ ڈالیں جو پچاس سال بعد ایک بار پھر گونجے ہیں اور وہ بھی اس دعوے کے ساتھ کہ کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے۔:ٹوٹے ہوئے خوابوں نے ہم کو یہ سکھایا ہے، دل نے جسے پایا تھا، آنکھوں نے گنوایا ہے۔ 

تیرے بن سونے نین ہمارے۔یاد نہ جائے بیتے دنوں کی۔ مجھے درد دل کا پتا نہ تھا ،مجھے آپ کس لئے مل گئے۔جاگ دل دیوانہ رت جاگی وصل یار کی۔ مجھے تیری محبت کا سہارا مل گیا ہوتا۔ 

میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا۔ ہم بے خودی میں تم کو پکارے چلے گئے۔ کھویا کھویا چاند، کھلا آسمان ۔ ساتھی نہ کوئی منزل۔ اپنی تو ہر آہ ایک طوفان ہے۔ کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا۔ تیرے میرے سپنے اب ایک رنگ ہیں۔جانے کیادھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں۔

سہانی رات ڈھل چکی، نا جانے تم کب آؤ گے۔ نگاہیں نہ پھیرو، چلے جائیں گے ہم۔ میں نے چاند اور ستاروں کی تمنّا کی تھی۔مدھو بن میں رادھیکا ناچے رے۔ہم اور تم اور یہ سماں کیا نشہ نشہ سا ہے، بولئے نہ بولئے، سب سنا سنا سا ہے۔یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے، افسوس ہم نہ ہوں گے۔

رفیع کے بارے میں کہتے ہیں کہ حج کا فریضہ ادا کرنے کے بعد ان کا دل موسیقی کی طرف سے اچاٹ ہوگیا تھا۔ وہی دل جو پہلے ہی ملائم تھا، اور زیادہ نرم ہوگیا۔ کچھ نئے فلم ساز ان سے کہتے تھے کہ بجٹ کم ہے وہ پورا معاوضہ نہیں دے سکتے تو رفیع ان کے لئے بلا معاوضہ گاتے تھے۔ 

ان کے بارے میں مشہور ہے کہ جب انہیں دلی کے لال قلعے میں ملک کا بڑاصدارتی ایوارڈ دیا گیا تو ان سے کہا گیا کہ آپ کی کوئی خواہش ہو تو بتائیے۔ اپنی مخصوص لجاجت کے ساتھ بولے : بس جی میں چاہتا ہو ں کہ لوگ مجھے رفیع صاحب کی بجائے محمد رفیع کہا کریں۔

ایسے لوگ بار بار پیدا نہیں ہوتے۔

تازہ ترین