• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشرے میں چونکہ قحط الرجال ہے اِس لئے اکثر لوگ مجھ ایسے بندے سے بھی پوچھ لیتے ہیں کہ بتائیے ہم کون سی کتابیں پڑھیں۔ اب یہ سوال ایسا ہی ہے جیسے کسی کو عالمی کرکٹ ٹیم کی تشکیل کے لئے گیارہ بہترین کھلاڑیوں کا انتخاب کرنے کے لئے کہا جائے۔ اب بندہ کسے نکالے اور کسے رکھے؟ کتابوں کے انتخاب میں بھی ایسی ہی مشکل درپیش ہوتی ہے۔ ویسے آج کل اُن لوگوں کا دم غنیمت ہے جو کتابوں کے بارے میں سوال پوچھ لیتے ہیں، کم از کم وہ کچھ پڑھنا تو چاہتے ہیں ورنہ یہاں تو یہ حال ہے کہ اگر کسی کو کوئی کتاب پڑھنے کو کہو تو آگے سے جواب آتا ہے کہ پوری کتاب پڑھنے کی جھنجھٹ میں کون پڑے، فی الحال آپ ہی اِس کا خلاصہ بتا دیں ! ایسے ہی لوگو ں کے لئے میں نے اردو کی پانچ کتابوں کا انتخاب کیا ہے جو میری رائے میں ہر ایسے شخص کو پڑھنی چاہئیں جسے اردو ادب سے تھوڑا بہت شغف ہے ۔ واضح رہے کہ اِس میں کلاسیکی کتب اور شاعری کی کتابیں شامل نہیں۔

اِس فہرست میں پہلی کتاب یوسفی صاحب کی ’آب گم ‘ ہے۔ مجھے نہیں سمجھ آتی کہ اِس کتاب کو میں فکشن کے کس خانے میں ڈالوں، آب بیتی کہوں، جگ بیتی سمجھوں، طنز و مزاح کے درجے میں رکھوں یااردو ادب کی پانچ شاہکار کہانیوں کا مجموعہ کہوں۔یہ کتاب نہ جانے میں نے کتنی مرتبہ پڑھی ہے اور ہر مرتبہ پہلے سے زیادہ لطف آیاہے۔ اردو ادب کی لا زوال کتابوں کی کوئی بھی فہرست آپ بنا لیں، شاعری، نثر، کلاسیکی ادب، کوئی بھی پیمانہ رکھ لیں، یہ کتاب اُس فہرست میں پہلی دس کتابوں میں شامل ہوگی۔ یوسفی صاحب نے اِس کتاب میں کردار نگاری کے فن کو اپنے عروج پر پہنچا دیا ہے۔ یوسفی صاحب نے بشارت، قبلہ، ملا عاصی، مولانا کرامت حسین، کابلی والا،الہ دین بے چراغ، ماسٹر فاخر حسین اور مولی مجن جیسے کردارحقیقی زندگی سے ہی اٹھائے ہیں مگر اُن کا خاکہ ایسا لکھا ہے کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ کوئی لکھاری آخر کیسے اتنی جزئیات کابیان کر سکتا ہے۔ جب میں نے پہلی مرتبہ یہ کتاب پڑھی تو یوسفی صاحب کو فون کرکے پوچھا کہ کیا واقعی یہ حقیقی زندگی کے کردار تھے تو انہوں نے اِس بات کی تصدیق کی، یہی بات انہوں نے اپنے دیباچے میں بھی لکھی ہے۔ ابھی ’آب گم‘ کےایک جملے پر یوں ہی نظر پڑی، ملاحظہ کریں: ’’کانپور کا وہ کوتوال حد درجہ لائق،معاملہ فہم،اور انتہائی خلیق اور اسی درجہ بے ایمان تھا۔صاحب، آپ راشی، زانی اور شرابی کو ہمیشہ خوش اخلاق، ملنسار اور میٹھا پائیں گے۔ ‘‘ ایسے جملے جا بجا پوری کتاب میں بکھرے ہوئے ہیں۔ اِس کتاب پر اگر واحد تنقید کی جا سکتی ہے تو وہ صرف یہ کہ یوسفی صاحب نے غالب کی محبت میں جا بجا اُن کے شعروں کا استعمال کیا ہے اور کہیں کہیں یہ استعمال بوجھل لگتاہے۔

میری دوسری پسندیدہ کتاب قرۃالعین حیدر کی ’’آخر شب کے ہمسفر ہے ‘‘۔ ویسے تو ’’آگ کا دریا‘‘ کو اُن کا سب سے بڑا ناول مانا جاتا ہے اور شاید یہ بات درست بھی ہے مگر بات چونکہ ذاتی پسند کی ہے اِس لئے میں نے ’آخر شب کے ہمسفر ‘ کواپنی فہرست میں دوسر ے نمبر پر رکھا ہے۔ اِس ناول کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ’آگ کا دریا‘ اور ’گردش رنگ چمن ‘ کے برعکس اِس کی Readability زیادہ ہے، آپ پہلے صفحے سے جوں جوں پڑھنا شروع کرتے ہیں تو ناول ختم کرکے ہی دم لیتے ہیں۔ کردار نگاری سے زیادہ اِس ناول کا پلاٹ بہت مضبوط ہے اور جس ماحول اور پس منظر میں یہ ناول لکھا گیا ہے اُس کا بیان لا جواب ہے۔ قرۃ العین حیدر بے شک ’آگ کا دریا ‘ سے پہچانی جاتی ہیں مگر اُن کا یہ ناول شاید اردو ادب کے بہترین ناولوں میں سے ایک ہے۔ تیسری پسندیدہ کتاب ’پورا منٹو ‘ ہے۔ یہ منٹو کے افسانوں کا انتخاب ہے جو اب تک چار جلدوں میں آکسفورڈ نے شائع کیا ہے۔ یہ انتخاب ہر قسم کی اغلاط سے پاک ہے، حتیٰ کہ محقق نے منٹو کی زبان کی غلطیاں بھی اِس میں درست کر دی ہیں۔ منٹو کے مشہور افسانے تو ہم سب نے پڑھ رکھے ہیں مگر’پورا منٹو ‘ شاید کم ہی لوگوں نے پڑھا ہو۔ اگر آ پ منٹو کے یہ افسانے پڑھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ ایک ایسا ادیب جو صرف تینتالیس برس زندہ رہا، اِس قدر زیادہ تعداد میں ایسے شاہکار افسانے کیسے لکھ گیا۔اپنے لڑکپن میں جب میں نے ’نقوش ‘ کا منٹو نمبر پڑھا تھا تو اُس میں منتخب افسانوں کو دیکھ کر فرض کرلیا تھا کہ یہی درجن بھر افسانے منٹو کی پہچان ہیں جبکہ مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ ’پورا منٹو‘ ہی پڑھنے والا ہے!

میری چوتھی پسندیدہ کتاب آصف فرخی کے منتخب کردہ غلام عباس کے افسانے ہیں، یہ کتاب بھی آکسفورڈ نے شائع کی ہے۔دو سو صفحوں کی اِس کتاب میں غلام عباس کے اٹھارہ افسانے شامل ہیں اور ان میں سے بعض کی کہانیاں تو ہم سب کو زبانی یاد ہیں۔ ’آنندی ‘پر بھارت میں فلم بن چکی ہے اور اُن کا افسانہ’ دھنک ‘تو ایسا ہے جس پر انہیں جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ آج سے چالیس پچاس سال پہلے انہوں نے مستقبل کا جو نقشہ کھینچا تھا بد قسمتی سے آج ہم اسی جگہ پہنچ گئے ہیں، ایک بہترین لکھاری ایسا ہی دور اندیش ہوتا ہے۔ مگر افسوس کہ غلام عباس کو وہ مقام نہ مل سکا جس کے وہ حقدار تھے۔ اِس کتاب میں میرا پسندیدہ افسانہ ’کن رس ‘ ہے۔ پانچویں پوزیشن پر تین کتابیں ہیں، تینوں ’سنگ میل ‘ نے شائع کی ہیں اور میں کوشش کے باوجود بھی اِن میں سے کسی ایک کو نہیں نکال پایا۔ پہلی، اشفاق احمد کی ’بابا صاحبا‘ ہے۔ یہ ایک عجیب سحر انگیز کتاب ہے، اشفاق صاحب کے اپنے خاص اسلوب میں ڈھلی ہوئی کڑکڑاتی بے باک نثر، جس کا کوئی جوڑ نہیں۔ دوسری ’مجموعہ انتظار حسین‘۔ اِس کتاب میں انتظار صاحب کے تمام افسانے شامل ہیں، یہ ممکن نہیں کہ اردو ادب کا بیان ہو اور انتظار کے بغیر مکمل ہو سکے۔ تیسری کتاب ’مجموعہ احمد ندیم قاسمی ‘ہے۔ بہت سے لوگوں کو شاید اِس کتاب کے انتخاب پر اعتراض ہو کہ جہاں عصمت چغتائی، بیدی، کرشن چندر، بانو قدسیہ، عبد اللہ حسین، ابن انشا، اسد محمد خان، نیر مسعود او ر شفیق الرحمٰن جگہ نہ پا سکے وہاں میں نے ندیم صاحب کو کیسے شامل کر لیا۔ دراصل ندیم صاحب کے افسانےحقیقت نگاری کی انتہا کو چھوتے نظر آتے ہیں، ویسے تو کرشن چندر بھی اِس فن میں کم نہیں مگر ندیم صاحب شاید اُس سے بھی کہیں کہیں بازی لے گئے ہیں۔ بقول ندیم صاحب’’میری کہانیوں کے پس منظر سے نامانوس حضرات انہیں صرف اس نظر سے پڑھیں کہ اسی سر زمین میں ایک ایسی جماعت بھی آباد ہے جو باسی روٹی اور پیاز سے پیٹ بھر کر بھی طاقتور رہ سکتی ہے‘‘۔

کالم کی دُم : جن لوگوں کو میری پسندیدہ کتابوں کے انتخاب پر اعتراض ہو وہ بے شک اِن کتابوں کی جگہ کوئی سی دوسری پانچ کتابیں پڑھ لیں، لیکن پڑھیں ضرور!

تازہ ترین