• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہرین کے مطابق ابھی تک دنیا میں پانچ طریقہ ہائے علاج دریافت ہوئے ہیں۔ ایلوپیتھک، سرجری، ہومیو پیتھک،ہربل اور جھاڑپھونک۔پہلے تین طریقہ ہائے علاج دور جدید کی ایجادات ہیں جبکہ ہر بل یعنی جڑی بوٹیوں کا استعمال قدیم طریقہ علاج ہے۔ کسی حد تک سرجری کو بھی قدیم طریقہ علاج میں شمار کیا جاتا ہے لیکن ماضی میں اس کا طریقہ دوسرا ہوا کرتا تھا۔ جھاڑپھونک منفی بھی ہوا کرتا ہے اور مثبت بھی۔

دراصل جادو ٹونے جیسے شیطانی اعمال کے نتیجے میں جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، بعض لوگوں کو اللہ نے اس کے تدارک کا فن بھی عطا کر رکھا ہے لیکن اس کے لئے بھی شرط یہ ہے کہ صرف قرآن و حدیث سے کام لیا جائے اور کہیں بھی کسی بھی شکل میں شرک یا غیرشرعی عمل کی آمیزش نہ ہو۔

تاہم انسانی فطرت ایسی ہے کہ اگر اسے کوئی مسئلہ درپیش ہو تو وہ اس کے حل کے لئے ہر آپشن آزماتا ہے۔ پھر جب معاملہ اولاد یا والدین کا ہو تو انسان کی بے چینی اور بھی شدید ہوتی ہے۔

اولاد میں اگر کسی کوکوئی خاص اور پھربظاہر لاعلاج معذوری لاحق ہو تو یہ والدین کے لئے بہت بڑی آزمائش بن جاتی ہے۔ ہمارے بھائی اور جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر طلحہ محمود پر اللہ کریم نے مالی لحاظ سے بڑا کرم کیا ہے لیکن انہیں اس آزمائش میں بھی ڈالا ہے کہ ان کی اولاد میں سے ایک اسپیشل بچہ ہے۔

ظاہر ہے انہوں نے اسکے علاج کا ہر ممکن طریقہ آزما لیا لیکن ان کی آزمائش ختم نہیں ہورہی۔ انہیں کسی نے ملا علی کردستانی (اصل نام علی محمد حسن) کے بارے میں بتایا۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی دکانداری کی تشہیر بھی اس انداز میں کی ہے کہ جیسے وہ منٹوںمیں نعوذباللہ نابینائوں کو بینائی اور گونگوں کو قوت گویائی دلواسکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

بہ ہر حال ڈوبتے کو تنکے کے مصداق سینیٹر طلحہ محمود نے عراقی سفیر سے بات کی اور ان کے ذریعے ٹکٹ اور دیگر اخراجات برداشت کرکے ملاکردستانی کو بلا لیا۔ طلحہ محمود اور پاکستانی قوم کی بدقسمتی یہ تھی کہ کردستانی کی پاکستان آمد کاعلم اسپیکر اسد قیصر کو بھی ہوگیا۔

ہمارے دوست اسد قیصر پی ٹی آئی میں آنے سے قبل اسلامی جمعیت طلبہ اور بعدازاں جماعت اسلامی سے وابستہ رہے تھے اور جماعت اسلامی کے لوگ توہم پرستی سے بہت دور ہوتے ہیں لیکن توہم پرست لیڈر کے ساتھ رہ رہ کر شاید وہ بھی توہم پرست ہوگئے ہیں۔

دوسری طرف پی ٹی آئی کے دیگر حکمرانوں کی طرح وہ بھی اٹھتے بیٹھے ہر کام کی تشہیر ضروری سمجھتے ہیں۔

چونکہ جعلی اسمبلی کے اسپیکر ہیں اور عمران خان نے انہیں حقیقی اسپیکر بنانے کے بجائے ڈمی اسپیکر بنا رکھا ہے جہاں وہ اپنی مرضی چلاسکتے ہیں اور نہ اپنے اختیارات استعمال کرسکتے ہیں، اس لئے زیادہ وقت دوروں یا پھر دعوتوں کے اہتمام اور ان کی میڈیاپر تشہیر میں لگاتے ہیں۔

انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کی حیثیت میں جب وہ اس فراڈی ملا کے ساتھ وڈیو بنا کر عام کریں گے تو لوگوں کو کیا پیغام جائے گا۔نہ صرف انہوں نے اپنے بچے کی اس شعبدہ بازی کے ذریعے علاج کی وڈیو عام کردی بلکہ پی ٹی آئی کے ایک اور رکن قومی اسمبلی جو خود ڈاکٹر بھی ہیں کے ساتھ ان کی آڈیو بھی لیک ہوگئی جس میں اسد قیصر صاحب بتارہے تھے کہ عراق سے یہ صاحب آئے ہوئے ہیں جو پلک جھپکتے گونگوں اور نابینائوں کا علاج کرتے ہیں۔

یہ وڈیو عام ہوتے ہی پورے پاکستان میں ایک ہلچل سی پیدا ہوگئی۔ ہزاروں لوگ اپنے معذوروں اور بیماروں کے ساتھ سینیٹر طلحہ محمود کے گھر جمع ہوگئے۔

ایک دن ان کا لاہور جانے کا پروگرام تھا۔ وہ گئے نہیں یا ہوٹل سے نکلے نہیں لیکن ہزاروں لوگ وہاں دوردراز علاقوں سے آکر اسلام آباد کے فائیو اسٹار ہوٹل کے سامنے کئی دن تک ہزاروں ذلیل و خوار ہوتے رہے۔ اگلے روز انہوں نے پشاور جانے کا اعلان کیا تھا۔ وہاں بھی ہزاروں لوگ جمع ہوگئے تھے لیکن فراڈی وہاں نہیں گیا۔

وہ طلحہ محمود کی مہمان نوازی کا لطف اٹھانے کے ساتھ ساتھ سید یوسف رضاگیلانی اور فردوس عاشق اعوان کی دعوتیں اُڑاتے اور اپنے سوشل میڈیا کے لئے مزید مواد جمع کرتے رہے۔

ظاہر ہے جب دنیا سوشل میڈیا پر دیکھے گی کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم، وزرا اورا سپیکر قومی اسمبلی ان کو مسیحا سمجھتے ہیں تو پھر کیوں نہ ان کے گاہک مزید بڑھیںگے۔ اب وہ ان وڈیوز اور تصاویر کو دنیا کے کسی اور ملک کے لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لئے استعمال کرے گا۔

طلحہ محمود صاحب کو بھی چاہئے تھا کہ وہ اس فراڈی کو بلانے سے قبل تحقیق کرتے لیکن ان کا تو وہ انفرادی عمل تھا اور صرف اپنے بچے کی خاطر انہوں نے ان صاحب کو بھی آزمانے کا سوچا لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی تشہیر سے قبل اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے معمولی تحقیق کی زحمت کیوں گوارا نہیں کی؟ وہ اگر انٹرنیٹ پر جاتے یا پھر اسمبلی کے سینکڑوں ملازمین میں سے کسی ایک کو تحقیق کا کہتے تو وہاں ان کو دو منٹ کی محنت سے معلوم ہوجاتا کہ ملا کردستانی کتنا بڑا فراڈ ہے۔ وہ اس فراڈ کی بنیاد پر خود اپنے ملک میں گرفتار ہوچکا ہے۔

پھر اسی فراڈ کی بنیاد پر سعودی عرب میں گرفتار ہوچکا ہے۔ اس کے فراڈ سے متعلق عرب علما کے فتوے آچکے ہیں لیکن ایسی کسی تحقیق کی زحمت گوارا کرنے سے قبل انہوں نے اسے اپنے سرکاری گھرکا مہمان بنایا، ساتھ وڈیو بنائی اور پورے پاکستان کو عذاب میں ڈالا

یہ فراڈی پاکستان میں کئی دن گزارنے اور دعوتیں لوٹ کر واپس جاچکے لیکن اگر کسی ایک بندے کی بینائی لوٹ آئی ہو یا کسی کی قوت گویائی بحال ہوئی ہو،توہمیں بھی آگاہ کیا جائے۔

سوال یہ ہے کہ لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں جو لاکھوں بیمار اور ان کے عزیز ذلیل و خوار ہوئے تو ان کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کا ازالہ کون کرے گا۔نہ جانے اس ملک کو کس نحوست نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کہ جب پوری دنیا توہمات سے نکل رہی ہے، ہم پر ایسے لوگ مسلط ہوگئے ہیں جو توہم پرستی کو فروغ دے رہے ہیں اور انہیں اندازہ بھی نہیں اس توہم پرستی کا ملک و قوم کو کیا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔

ایک طرف مہنگائی کا عذاب، دوسری طرف بے روزگاری کا عذاب، تیسری طرف حکمرانوں کی بدزبانی کا عذاب اور اوپر سے توہم پرستی کا عذاب۔ اللہ کے بندو کچھ تو اللہ کا خوف کرو۔کچھ تو اس قوم پر رحم کھائو۔

تازہ ترین